نیشنل

وقف بورڈ اور کونسل میں 3 اور 4 غیر مسلم ارکان کو شامل کرنے کی اجازت – سی ای او مسلم ہونا چاہئے – سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ

نئی دہلی، 15 ستمبر: سپریم کورٹ نے پیر کے روز وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی بعض دفعات پر عمل درآمد کو اس وقت تک روک دیا جب تک کہ اس ترمیم کی آئینی حیثیت پر دائر عرضیوں کا حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے یہ عبوری حکم جاری کیا۔

 

عدالت نے کہا کہ پورے قانون پر حکم امتناعی جاری کرنے کی کوئی بنیاد نہیں بنتی، البتہ چند دفعات پر عمل درآمد روکا جاتا ہے، جن میں خاص طور پر یہ شامل ہیں:

 

وہ شرط کہ کوئی شخص وقف کرنے سے پہلے کم از کم پانچ سال تک عملی مسلمان ہو (سیکشن 3(ر))، فی الحال معطل رہے گی۔ عدالت نے کہا کہ جب تک ریاستی قواعد نہیں بنتے یہ دفعہ من مانی کارروائی کا باعث بن سکتی ہے۔

 

کلکٹر کو شہریوں کے ذاتی حقوق کے فیصلے کا اختیار دینا اختیارات کی تقسیم کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے ٹریبونل میں سماعت مکمل ہونے تک کسی تیسرے فریق کے حق میں ملکیت نہیں بنائی جا سکتی۔ اس سلسلے میں کلکٹر کو دیے گئے اختیارات معطل رہیں گے۔

 

 

البتہ عدالت نے وقف جائیدادوں کی رجسٹریشن کی شرط کو برقرار رکھا، یہ کہتے ہوئے کہ اس کا تصور پہلے کے قوانین میں بھی موجود رہا ہے۔ چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ 1995 سے 2013 تک اور اب پھر رجسٹریشن کا تقاضا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی نیا اقدام نہیں ہے۔

 

سیکشن 23 کے تحت وقف بورڈ میں سرکاری رکن (ex-officio) کی تقرری پر بھی پابندی عائد نہیں کی گئی، لیکن عدالت نے واضح کیا کہ حتی الامکان اس عہدے پر کسی مسلمان کو مقرر کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے وقف بورڈ کے سی ای او کی حیثیت سے مسلم عہدیدار کو تعنیات کرنے کا مشورہ دیا

 

عدالت نے غیر مسلموں کی شمولیت کے مسئلے پر کہا کہ مرکزی وقف کونسل میں 22 ارکان میں زیادہ سے زیادہ 4 غیر مسلم اور ریاستی وقف بورڈز میں 11 ارکان میں زیادہ سے زیادہ 3 غیر مسلم شامل ہو سکتے ہیں۔

 

عدالت نے زور دیا کہ اس کے یہ مشاہدات صرف ابتدائی نوعیت کے ہیں اور فریقین کو اس قانون کی آئینی حیثیت پر مزید دلائل دینے سے نہیں روکیں گے۔

 

یہ ترمیمی قانون پارلیمنٹ نے اپریل 2025 میں منظور کیا تھا اور صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد نافذ ہوا۔ اس کے خلا مجلس کے صدر و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد بیرسٹر اسد الدین اویسی سمیت کئی افراد نے سپریم کورٹ میں عرضیاں داخل کی ہیں۔

 

عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ ترمیمات مسلمانوں کے مذہبی اوقاف کو نشانہ بناتی ہیں اور ان کے آئینی حقوق میں مداخلت کرتی ہیں۔ دوسری طرف مرکزی حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس قانون کا مقصد وقف کے ناجائز استعمال کو روکنا اور عوامی اراضی پر غلط دعووں کا خاتمہ کرنا ہے۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button