وشو گرو بننا اتنا آسان نہیں۔۔۔۔۔ مودی اور ٹرمپ کی دوستی میں ہتھکڑی اور بیڑیاں کیوں؟

تحریر:سید سرفراز احمد
"بے عزتی برداشت نہیں کی جاۓ گی”، "مودی سرکار ہاۓ ہاۓ”،یہ نعرے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر حزب اختلاف کے قائدین کی جانب سے احتجاج کے دوران پیروں میں بیڑیاں ڈالے لگاۓ جارہے تھے اور مطالبہ کیا جارہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے 104 ہندوستانی تارکین وطن کو غلاموں کی طرح واپس بھیجے جانے پر لوک سبھا میں بحث کروائی جاۓ اور وزیر اعظم نریندر مودی سے اس پر جواب بھی مانگا جارہا ہے پرینکا گاندھی نے سوال کھڑا کرتے ہوۓ کہا کہ ہمیشہ بھارت کو یہ بتایا گیا کہ مودی جی اور ٹرمپ بہت اچھے دوست ہیں تو مودی جی نے ایسا کیوں ہونے دیا؟کیا انسانوں کے ساتھ اس طرح غیر انسانی سلوک کرتے ہوۓ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں زنجیریں پہناکر رخصت کیا جاۓ؟اکھلیش یادو نے کہا کہ سرکار شہریوں کو "وشو گرو” خواب دکھا رہی تھی لیکن اب امریکہ نے اتنا بڑا غیر انسانی سلوک اختیار کیا تو اب حکومت کیوں خاموش ہے؟
دراصل ٹرمپ کے برسر اقتدار میں آتے ہی جس طرح کے جارحانہ فیصلے سامنے آۓ ہیں ان فیصلوں نے دنیا کو تشویش میں مبتلا کردیا بڑا اعلان تو فلسطینی بھائیوں کو اردن اور مصر میں بسانے کا کیا گیا پھر غزہ کو اپنے قبضے میں کرنے کی دھمکی یہ اعلانات اس بات کی بوکھلاہٹ کو آشکار کررہے ہیں کہ ٹرمپ مسلح مزاحمت کاروں سے پوری طرح خوف زدہ ہیں وہ دیکھ چکے ہیں کہ ان پندرہ ماہ کی طویل جنگ میں اسرائیل کس درجہ تک متاثر ہوا ہے اور امریکہ کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اب وہ اسی تذبذب میں آپے سے باہر ہوچکے ہیں اور شائد اعصابی تناؤ کا شکار ہوکر اپنی ہٹ دھرمی دکھا رہے ہیں خیر یہ تو دیکھتے رہیئے کہ آگے آگے ہوتا ہے کیا جو قوم اپنے حق کے لیئے مزاحمت کرسکتی ہے جانوں کے نذرانے، گھر، اولاد، مال سب کچھ پیش کرسکتی ہے تو یہ یقین کرنا ہوگا کہ وہ قوم باطل کے آگے نہ کبھی جھک سکتی ہے نہ ہی ان کے پاۓ استقامت میں کوئی لرزہ آسکتا ہے بلکہ وہ سینہ تان کر مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں یہ ٹرمپ کی بہت بڑی غلطی ہوگی اگر وہ پھر سے ان مزاحمتی مسلح سے مقابلے کی جرات کریں گے کیا یہ ٹرمپ اور مغربی دنیا کے لیئے اس سے بہتر نہیں ہوگا کہ وہ اسرائیل کو کہیں یورپ میں ہی پناہ دے دیں؟
ٹرمپ کا ایک اور فیصلہ یہ تھا کہ وہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم شہریوں کی گھر واپسی کرنا چاہتے ہیں بات اگر بھارتی شہریوں کی کی جاۓ تو ٹرمپ نے 18 ہزار غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم بھارتی شہریوں کی گھر واپسی کرنا چاہتے ہیں جس کی پہلی کھیپ امریکی ایر فورس طیارے کے ذریعہ پنجاب کے امرتسر پہنچادی گئی جس میں 104 بھارتی شہری تھے امریکی صدر کے رویہ پر پورا ملک ہی نہیں بلکہ دنیا بھی ششدہ ہے کہ سبھی تارکین وطن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں موجود تھی حیرت والی بات یہ بھی ہے کہ ان 104 میں 13 نابالغ بچے بھی شامل تھے ویسے امریکہ نے پہلے مرحلے میں 205 افراد کو بھیجنے کا اعلان کیا تھا باقی افراد کہاں ہے یہ امریکہ ہی بہتر بتاسکتا ہے پھر دیکھئے امریکہ نے ان 104 افراد کو بھیجنے کا سفر خرچ بھی ساتھ بھیجا ہے جس میں 6 کروڑ کا خرچ بتایا گیا جو اپنے آپ میں تشویش میں مبتلا کردینے والا ہے اب یہ تو ٹرمپ ہی بہتر بتاسکتے ہیں کہ کیا یہ صرف ہوائی جہاز کا صرفہ ہے یا جرمانہ بھی شامل ہے؟بہر حال دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ایک ایسے وقت میں اس کاروائی کو انجام دیا گیا جب کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم 12 فروری کو امریکہ کے دورے پر جانے والے ہیں اب امریکہ میں ٹرمپ اور مودی کی کیا بات ہوگی یہ آنے والا وقت ہی بتاۓ گا۔
امریکہ کے اس انتہائی غیر انسانی سلوک پر حزب اختلاف کی پارٹیوں اور بھارتی شہریوں میں ایک غصہ دیکھا جارہا ہے اور ٹرمپ اور مودی کی دوستی پر سوال کھڑے کیئے جارہے ہیں لیکن وزیراعظم نے اپنی زبان کو ابھی تک جنبش نہیں دی کیونکہ ہمارے کے وزیر اعظم کی یہ پرانی روش رہی ہے کہ جب بھی حکومت گھیرے میں آتی ہے تب تب وہ خاموشی کو اپنا رفیق بنالیتے ہیں خیر اس معاملہ میں مرکزی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوۓ غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہنے والے تارکین وطن کو ملک بدر(ڈی پورٹ) کرنے کے عمل کو نیا نہیں بتایا بلکہ یہ کہا کہ یہ عمل کئی سالوں سے چلتا آرہا ہے انھوں نے کہا کہ امریکہ میں قومی سلامتی اور امیگریشن قوانین کے تحت یہ کاروائیاں معمول کے مطابق ہوتی ہیں جے شنکر نے واضح کیا کہ بھارتی شہریوں کو واپس لانا ضروری تھا کیونکہ وہ وہاں مشکل حالات میں تھے مزید وضاحت کرتے ہوۓ بتایا کہ ڈی پورٹیشن کا عمل 2012 سے رائج اسٹنڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر(SOP) کے مطابق ہوتا ہے جس میں ملک بدر ہونے والے شہریوں کو جہاز میں بیلٹ یا ہتھکڑی لگائی جاتی ہے بچوں کو اس سے مستشنیٰ رکھا جاتا ہے ضروریات سے فارغ ہونے کے لیئے ہھتکڑی کھول دی جاتی ہے۔
جے شنکر نے اپنی حکومت کا دفاع کرنے کے لیئے بہت ہی مصلحت سے کام لیتے ہوۓ طرح طرح کی صفائیاں پیش کرنے کی کوشش کی لیکن پورا ملک جاننا چاہتا ہے کہ اس طرح کی کاروائیاں پچھلے گیارہ سالوں میں کتنی بار ہوئی؟جب ملک کے وزیر خارجہ کو اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ غیر قانونی طور پر بھارتی شہری امریکہ میں پریشان حال ہیں تو وزیر خارجہ نے کیوں اپنی سرکار کے علم میں نہیں لایا؟اور کیوں انھیں وقت سے پہلے واپس لانے کی پہل نہیں کی؟پھر سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب اتنی بھاری تعداد میں بھارتی شہری ایک غیر ملک میں غیر قانونی طور حکومت کے علم میں آۓ بناء کیسے رہ سکتے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں یہ لوگ امریکہ کیسے پہنچے؟ ان میں کچھ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو راست ویزا لےکر امریکہ گئے ہوں اور پھر وہیں رہنے لگے ایسے بہت سے سوالات ہے جس سے خود حکومت گھیرے میں آرہی ہے لیکن حکومت اپنے ہی شہریوں کی بے عزتی پر نہ امریکہ سے کوئی سوال پوچھ رہی ہے نہ ہی اندرون ملک کسی کے سوال کا جواب دے رہی ہے حکومت کی خاموشی ظاہر کررہی ہے کہ حکومت کے سفارتی تعلقات کس حد تک کمزور ہے۔
یہی معاملہ جب دوسرے ممالک کے ساتھ پیش آیا تو انھوں نے اس بات پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا بلکہ اپنے جہاز خود بھیج کر اپنے شہریوں کو عزت کے ساتھ واپس لایا لیکن ہمارے حکمران اور ہماری حکومت اپنے ہی شہریوں کی تذلیل کو قبول کرنا مناسب سمجھا لیکن باعزت اپنے وطن کو لانے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا اور سینہ ٹھوک کر کہا جاتا ہے کہ ہم وشو گرو(عالمی رہ نما)بنیں گے جو حکومت صرف ایک ادنی سا کام نہیں کرسکی وہ اس ملک کے شہریوں کو وشو گروہ کے روپ میں ہتھیلی میں جنت دکھانے کا کام کررہی ہے عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ نے دو ٹوک زبان کا استعمال کرتے ہوۓ کہا کہ بی جے پی والو، یہ ملک آپ کو معاف نہیں کرے گا مودی جی آپ نے ہمارے شہریوں کو قیدی وین میں بٹھایا، کیا آپ کو شرم نہیں آتی؟امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال کر تم نے پوری دنیا میں ہندوستان کا وقار تباہ کردیا ہے۔
امریکہ کے نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے چرچے اس بات میں عام ہے کہ وہ جارحانہ رول ادا کرنے میں کبھی پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کرتے اس طرح کا کردار نہ صرف ٹرمپ کا ہے بلکہ ہر امریکی صدر کا رویہ اسی طرح کا ہوتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم ٹرمپ کے اچھے دوست مانے جاتے ہیں اس سے قبل مودی نے خود امریکی شہریوں سے ٹرمپ کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی تھی اور ٹرمپ کا گجرات میں نمستے ٹرمپ پروگرام کے ذریعہ شان دار استقبال کیا تھا آخر یہ دوستی کا رنگ اچانک کہاں غائب ہوگیا؟ آج اس دوستی میں سواۓ تذلیل ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کے علاوہ دوسری کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہے لیکن نہ ہی سرکار پر کوئی جوں رینگ رہی ہے اور نہ ہی وزراء پر بلکہ اند بکھتوں نے تو اپنے من پسند راجہ کی آڑ میں اس تذلیل کو بھی گلے لگانے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں بلکہ ان تارکین وطن کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے کم از کم ہمارے وزیراعظم کو اتنا تو سمجھ آگیا ہوگا کہ اگر میں ایک جارحانہ سیاست داں کی حیثیت رکھتا ہوں تو میرے اوپر بھی اس سے بڑا حارحانہ سیاست داں براجمان ہے بہر حال مودی سرکار ہر ایک موڑ پر ناکام ثابت ہورہی ہے پہلے مہا کنبھ کی بھگدڑ اور کیڑے مکوڑوں کی طرح انسانوں کا کچل جانا پھر تارکین وطن کا سب سے بڑا معاملہ جس نے پورے ملک کو شرم سے پانی پانی کردیا پھر سوال یہ سامنے آتا ہے کہ آپ کیسے وشو گرو بنیں گے؟اور کس طرح کے وشو گرو بننے جارہے ہیں؟کیا وشو گروہ بننا اتنا آسان ہے؟یہ وہ سولات ہے جس کا جائزہ اور احتساب کرنا ہماری سرکار اور وزیر اعظم کے لیئے لازم و ملزوم ہے بس صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ پہلے آپ اپنے ملک کی رعایا کے ساتھ انصاف کرتے ہوۓ ایک اچھے وزیر اعظم بن جائیں اور پھر وشو گرو کا خواب دیکھیں۔