انصاف کے بجھتے چراغ – بے قصوروں کی رہائی آخر کب؟

تحریر:سید سرفراز احمد
کسی کی زندگی کے پانچ سال جیل کی صعوبتوں میں گذرنا کتنا کٹھن ہوتا ہے اس سوال کا جواب وہی دے سکتا ہے جس پر گذر رہی ہے۔ہم تو اس کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ویسے اس ملک کی تاریخ رہی ہے کہ، قصور وار آزادنہ گھومتے ہیں اور بے قصوروں کو جیلوں میں ٹھونسا جاتا ہے۔جب تک جرم ثابت نہیں ہوجاتا تب تک تو یہ ملزم کی حیثیت سے سزا سے زائد سزا کاٹ دیئے ہوتے۔پھر برسہا برس بعد ‘باعزت بری’ کرتے ہوۓ رہا کردیا جاتا ہے۔نہ کوئی پابند سلاسل کے ایام واپس کرسکتا، نہ ہی ان کی عمر کوئی واپس لاسکتا۔کیونکہ ایسے بے شمار واقعات ہم میں سے ہر کوئی دیکھتے آرہا ہے۔اور اکثریتی طبقے کے وہ لوگ جنھیں دانش ور سمجھا جاتا ہے وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مسلمان اس ملک میں اقلیت میں ہے۔پھر مسلمان جرائم میں اکثریت میں کیوں ہوتے ہیں؟لیکن ان نیم دانشوروں کو کون سمجھاۓ کہ مسلمان جرائم کا نہیں ‘سازشوں’ کا شکار ہوتے ہیں۔اس بات کو وہ لوگ بہت اچھے سے جانتے ہیں جو ہندوتوا کی نظریاتی سیاست کو باریک بینی سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ستمبر کی 2 تاریخ کو دہلی ہائی کورٹ نے پانچ سال سے جیل کی سزا کاٹ رہے بے قصور مسلم نوجوانوں کی ضمانت کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوۓ انصاف پر مبنی فیصلے پر ایک سوال کھڑا کردیا۔کہ آخر بناء کوئی سماعت یا ٹرائل کے کسی بھی ملزم کو پانچ سالہ طویل مدت سے جیل کی سلاخوں سے پیچھے کیسے رکھا جاسکتا ہے؟جب کہ خود اس ملک کی عدالت اعظمیٰ نے بارہا ملک کی ریاستوں کے ہائی کورٹ کو یہ ہدایت دیتی رہی کہ "ضمانت دینے یا لینے میں طویل وقت نہیں لگایا جاسکتا ہے”۔ لیکن عدالتوں کا معاملہ ہمیشہ متضاد رہا۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیوں ہائی کورٹ اس ہدایت پر عمل آواری نہیں کرتی ہے؟آپ دیکھئے ہائی کورٹ کی دو رکنی ججس کی بنچ جن میں جسٹس نوین چاؤلہ اور جسٹس شالندر کور صرف دس منٹ کے اندر اپنی بات کو سمیٹتے ہوۓ درخواست ضمانت کو یہ کہہ کر مسترد کردیتے ہیں کہ الزامات سنگین ہے۔سوال یہ ہے کیا اگر پانچ سال بعد بھی الزام جرم میں ثابت نہیں ہوتا ہے تو وہ بے گناہ مانے جاتے ہیں تو پھر ان بے گناہ ملزمین کو جیل میں کیوں رکھا جارہا ہے؟
آپ کو یاد دلادوں دہلی میں سال 2020 کے فسادات میں دہلی پولیس نے ان تمام افراد پر یو اے پی اے لگاکر جنوری تا ستمبر 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔جن میں عمر خالد،شرجیل امام،عبدالخالد سیفی،گلفشاں فاطمہ،میراں حیدر،شفاء الرحمن،محمد سلیم خان،اطہر خان،اور شاداب احمد شامل ہے۔اس وقت گرفتار ہونے والوں کی تعداد 18 تھی۔بعض کو وقفہ وقفہ سے ضمانت دے دی گئی۔لیکن اوپر بیان کیئے گئے ناموں کو ابھی تک ضمانت نہیں ملتی۔ جب کہ پانچ سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔جس وقت انھیں گرفتار کیا گیا اس سے قبل ملک میں "شاہین باغ” تحریک اٹھی تھی۔جو "شہریت ترمیمی قانون”(سی اے اے) اور "قومی شہری رجسٹر”(این آر سی) اور "قومی آبادی رجسٹر”(این پی آر)” کے خلاف تھی۔یہ تحریک ظالم حکمرانوں کو "دندان شکن” جواب دے رہی تھی۔جس سے حکومت کے قدم لرز رہے تھے۔حکومت چاہتی تھی کہ اس تحریک کو کسی بھی طرح ختم کیا جاۓ۔پھر اس کے لیئے سازشیں رچی گئیں۔
یہی وہ نوجوانوں کا طبقہ تھا جو اس تحریک کی قیادت کے روح رواں بن چکے تھے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ یونی ور سٹی سے لے کر سڑکوں تک صداۓ احتجاج بنے ہوۓ تھے۔اس تحریک کی ثابت قدمی کو دیکھ کر برسر اقتدار حکمران نے سازش کے تحت کچھ نفرتی پروانوں کو میدان میں چھوڑا۔ جس وقت ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان کے دورے پر تھے۔اس وقت بھاجپا کے رکن اسمبلی کپل مشرا نے پولیس آفیسر کی موجودگی میں پر امن آندلون کررہے احتجاجیوں کو سڑکیں خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا۔اور کہا کہ آج ڈونالڈ ٹرمپ دورے پر ہے اسی لیئے آج ہم خاموش ہے۔
اگر کل تک سڑکیں خالی نہیں ہوئی تو ہم خالی کروادیں گے۔امیت شاہ کی پولیس کی موجودگی میں ایک سیاست داں کی اس قدر ہمت تھی کہ اس کا الٹی میٹم احتجاج کر رہے عوام کو نہیں بلکہ پولیس پر تھا۔ کہ اگر تم کچھ نہیں کروگے تو ہم کرکے دکھائیں گے۔جب کہ پولیس کو یہ معلوم تھا کہ یہ آندولن پر امن ہے۔ لہذا پولیس کا دخل اندازی کرنا کسی بھی زوایئے سے درست نہیں تھا۔لیکن اہم سوال یہ تھا کہ پولیس نے کپل مشرا کو شر انگیزی پھیلانے سے کیوں نہیں روکا؟ بلکہ یہ واضح ثبوت دے دیا کہ ہم واقعی قانون کے رکھوالے نہیں بلکہ امیت شاہ کی ہی پولیس ہے۔
دوسری جانب انوراگ ٹھاکر جو اس وقت مرکزی وزیر ہیں۔غالباً وزارت کا یہ تحفہ انھیں اسی بھڑکاؤ بھاشن کے عوض دیا گیا۔اس تقریر کا اہم جملہ تھا کہ "دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو” انوراگ ٹھاکر نے یہ جملہ ایک نہیں تین تین بار دہرایا ہے۔بات یہیں نہیں رکتی ہے۔دہلی انتخابات کے دوران امیت شاہ بھی کہتے ہیں کہ "بٹن ایسا دبایا جاۓ کہ جس کا کرنٹ شاہین باغ میں لگنا چاہیئے” یہ شرانگیزی والے بیانات فروری میں ہوۓ جو دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران دیئے گئے۔اور بالآخر 22 فروری کی شب درمیانی رات کو 500 سے 1000 خواتین شمال مشرقی دہلی میں سیلم پور–جعفر آباد روڈ کے علاقے میں احتجاج کیلئے جمع ہوئیں۔ اور مظاہرین نے سیلم پور میٹرو اسٹیشن میں آمد و رفت کے راستے بند کر دیئے۔ اور امیت شاہ کی پولیس کے نیم فوجی دستے بھی بھاری تعداد میں تعینات کردیئے گئے تھے۔
دوسری طرف23 فروری 2020ء کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے موجودہ رکن اسمبلی و وزیر کپل مشرا نے پولیس کی موجودگی میں شہریت ترمیمی قانون کے مخالفین کو کھلی دھمکیاں دیں۔ کپل مشراء نے اپنی تقریر کے دوران پولیس کو بھی للکارتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اگر مظاہرین تین دن کے اندر اندر یہاں سے نہیں جائیں گے تو انکے اپنے دستے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ حالانکہ کپل مشرا کے خلاف عام آدمی پارٹی نے ایک نہیں تین شکایتیں درج کروائی تھی۔لیکن کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔جبکہ کپل مشرا نے نفرت پر مبنی اور تشدد کو اکسانے والے بیانات دیئے۔ان نفرتی بیانات کے نتیجے میں ملک کی راج دھانی کا شمالی مشرقی حصہ 23اور 24فروی سال 2020 تشدد کی آگ میں جھلستا رہا۔ ان ایام کو دہلی ہی نہیں بلکہ ملک کی امن پسند عوام ان فسادات کو کبھی نہیں بھلا سکتی۔جس میں ناحق 53 افراد قتل کردیئے گئے۔اور لگ بھگ 700 زخمی ہوۓ۔
جس میں اکثریت اقلیتی طبقہ کے مسلمانوں کی تھی۔ اس تشدد میں مسلمانوں کی املاک کو چن چن کر نشانہ بناگیا ۔گھروں کو نذر آتش کیا گیا اس تشدد کے اگر پس منظر کو دیکھاجائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت نے اس وقت شہریت ترمیمی قانون کو دونوں ایوانوں میں منظور کروایا تھا۔ جسکے بعد سے ہی ایک پر امن تحریک "شاہین باغ” کے نام سے شروع ہوئی تھی۔پولیس نے کھلے عام جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا۔
جب کہ کپل مشرا،انوراگ ٹھاکر اور امیت شاہ نے اس دوران جو شر انگیزی پھیلائی اس کے ویڈیوس بھی موجود ہے۔لیکن کاروائی تو ہونا دور کی بات ہے۔پولیس نے خود سے مقدمہ تک درج نہیں کیا۔بلکہ کسی سے پوچھ تاچھ تک بھی نہیں کی۔اور ایسے نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا جو سراپا پر امن احتجاج کررہے تھے۔جن کی تقریریں خود اس بات کی گواہ ہے۔ایک تقریر میں عمر خالد خود کہہ رہے ہیں کہ "ہم نفرت کا جواب محبت سے دیں گے”۔ ایسے ہی ان میں سے ہر کسی نے سماج میں محبت باٹنے کے بیانات دیئے۔لیکن اس کا صلہ انھیں جیل کی صعوبتوں کے روپ میں مل رہا ہے۔
کسی پر تشدد بھڑکانے کا الزام ، تو کسی پر فسادات کا کلیدی ملزم کا کردار، کسی پر فنڈنگ کا الزام لگایا گیا۔ اور کئی ایک پر فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیئے گئے۔پھر کیا کپل مشرا کا پولیس کو ‘الٹی میٹم’ دینا اور خود غنڈہ گردی پر اترنا،انوراگ شرما کا "دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو” کا نعرہ لگانا امیت شاہ کا بیان”بٹن ایسے دباؤ کہ شاہین باغ میں کرنٹ لگے” کیا پولیس کی نظر میں یہ بھڑکاؤ بھاشن نہیں تھا؟ کیا دہلی فسادات کے تناظر میں ان بیانات کو فساد کا اصل لب لباب نہیں سمجھا جاۓ گا؟کیا ان بیانات کے بعد دہلی کی سڑکوں پر کھلے عام گولیاں نہیں چلی؟ یقیناً ان بیانات کو بالکل بھی بھڑکاؤ بیانات کے زوایئے سے نہیں دیکھا گیا۔کیونکہ دہلی پولیس ریموٹ کنٹرول پر منحصر ہے جس کا ریموٹ امیت شاہ کے پاس موجود ہے۔ورنہ اگر پولیس غیر جانب داری سے کاروائی کرتی تو اب تک اصل مجرمین جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔
لیکن ایسے کیسس جو بے قصور ہیں۔ جب عدلیہ کی دہلیز پار لیتے ہیں تو عدلیہ پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ہر زاویئے سے کیس کی چھان بین کرتے ہوۓ انصاف کے فیصلے صادر کریں۔کیونکہ ایک جمہوری ملک میں انصاف کی آخری امید عدلیہ ہی ہوتی ہے۔اگر یہاں سے مایوس کن فیصلے ہونگے تو عوام کا اعتماد عدلیہ پر سے لڑ کھڑا جاۓ گا۔جس سے جمہوریت کی طاقت کمزور ہوجاۓ گی۔اور آئندہ کوئی بھی پر امن احتجاج کرنے سے گریز کرے گا۔پھر تو ظاہر ہے کہ ایسا ملک جمہوریت کے نام پر زندہ نہیں بلکہ زندہ لاش کے مترادف ہوجاۓ گا۔ 2 ستمبر کو دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے نے ان تمام انصاف پسند سماج کو مایوس کیا۔
جو پانچ سال سے یہ امید لگاۓ بیٹھے ہیں کہ عدلیہ ان بے قصور نوجوانوں کو رہا کردے گی۔جب کہ پانچ سال کا عرصہ کسی گناہ کی سزا سے کم نہیں۔حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ سب معصوم اور بے قصور ہیں۔پھر سزا برقرار رکھنا چہ معنی دارد؟ ابھی بھی عوام کے زہنوں میں یہ سوال الجھ کر رہ گیا ہے کہ انصاف کی مندروں میں انصاف کے چراغ کیوں بجھ رہے ہیں؟سوال یہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا بھارت کا نظام عدل اب کمزور ہوگیا ہے؟جب کہ عدلیہ جمہوریت کا وہ اہم ستون ہے جہاں سے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جانا چاہیئے۔ غیر جانب داری کو ملحوظ رکھا جانا چاہیئے۔تب ہی اس نظام عدل کو مضبوط اور محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
اگر ہم سابق ججس یاعدلیہ کے موجودہ فیصلوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں تو بہت سے مشکوک زاویئے سامنے آتے ہیں۔کیونکہ بابری مسجد کے فیصلے کے بعد سے عدلیہ کے فیصلوں میں ایک طرح سے نشیب و فراز دیکھا جارہا ہے۔جس طرح سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے رام مندر کے حق میں فیصلہ دیا اور بعد میں اس جشن میں اپنی بنچ کے ججس کے ساتھ پارٹی بھی منائی۔جس کا خلاصہ خود انھوں نے اپنی آپ بیتی کتاب "جسٹس فار جج” میں کیا۔بلکہ بعد میں انھیں اس کا انعام بھی دیا گیا۔سابق چیف جسٹس چندر چوڑ نے خود کہا تھا کہ "بابری مسجد تنازع کا حل نہیں نکل رہا تھا تب خود انھوں نے بھگوان کے سامنے مراقبے میں بیٹھ گئے اور بھگوان نے انھیں راستہ دکھایا تھا”۔ ایک جمہوری ملک کے لیئے کیا یہ بات عجیب نہیں ہوگی؟
بات تو عجیب ہے لیکن یہ سارے انکشافات ان ججس کے وظیفے سے سبک دوش ہونے کے بعد آتے ہیں۔ ایسے ہی بلقیس بانو کیس کے مجرمین کو رہا کردیا جاتا ہے۔حالیہ ممبئی ہائی کورٹ نے مالے گاؤں بم دھماکے کے مجرمین کو باعزت بری کردیا۔اور اب دہلی ہائی کورٹ نے بے قصوروں کی درخواست ضمانت خارج کردی۔جب کہ مالے گاؤں کے مجرمین کا جرم ثابت تھا۔تب بھی وہ کیسے باعزت بری ہوگئے؟ ان سب فیصلوں کے بعد کیا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس ملک میں انصاف لرز رہا ہے؟یا پھر یہ کہا جاۓ کہ کیا اس ملک میں مسلمان ہونا جرم ہے؟جب کہ عمر خالد کے شانہ بہ شانہ چلنے والے کنہیا کمار اور دیگر ساتھی کھلی ہواؤں کے بیچ سانس لے رہے ہیں تو کیا عمر خالد اور ان تمام کو یہ حق حاصل نہیں ہے؟یہاں ایک اور دل چسپ بات کا تذکرہ کرنا ناگزیر ہے کہ ہائی کورٹ کے ججس نے دہلی پولیس سے خود سوال پوچھا تھا کہ "بناء سماعت کے ملزمان کو کب تک جیل میں رکھا جاسکتا ہے”؟ لیکن افسوس کے ججس نے دہلی پولیس سے جو سوال پوچھا پھر کیوں اس نکتہ کو اپنے فیصلے میں ندارد کردیا؟کیا مظلومین کے حق میں انصاف کرنے میں تاخیر کرنا ظلم نہیں کہلاۓ گا؟



