مضامین

دیارِ مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دکاں نہیں ہے ایران اور اسرائیل کی جنگ کے درمیان جی7 اجلاس چہ معنی دارد

تحریر:سید سرفراز احمد

تقریباً بیس ماہ سے چل ہی حماس اور اسرائیل کی جنگ نے اس وقت نیا موڑ لے چکی ہے۔غاصب ریاست نے غزہ میں تباہی مچاکر ہزاروں فلسطینی شہریوں کو شہید کیا۔جس میں اکثریت بچوں کی ہے۔آج بھی غاصب ریاست کے حملے جاری ہے۔ہرروز درجنوں مومنین شہادت کے اعلیٰ منصب پر پہنچ رہے ہیں۔لیکن اس طویل جنگ سے صیہونی طاقتیں پوری طرح کمزور ہوچکی ہیں۔اور وہ اپنے مشن میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔جب کہ غزہ کی تباہی کے لیئے امریکہ اور غاصب ریاست نے جو سرمایہ لگایا ہے اس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوۓ۔جس کی اہم وجہ یہی رہی کہ مزاحمتی تنظیم اور اہل فلسطین اپنے حقوق کی جنگ انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔جب کہ غاصب ریاست جو خود کو ایک ترقی یافتہ ریاست مانتی ہے۔اور جس کو دنیا کی سوپر پاؤر طاقت امریکہ کی پشت پناہی کے علاوہ مغربی ممالک کا بھر پور تعاون بھی حاصل ہے۔لیکن دنیا کو تعجب اس بات پر ہے کہ فلسطینی عوام کی ہزاروں شہادتوں کے بعد بھی غاصب ریاست اپنے وجود کی بقاء کے لیئے دوڑ و دھوپ کررہی ہے۔بیس ماہ سے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والی فلسطینی مزاحمتی تنظیم کی امیدیں دنیا کے مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک سے شائد وابستہ بھی تھی ہوگی۔لیکن ان مومنین کو عالم عرب سے سواۓ کفن اور کچھ امدادی راحت کے علاوہ اورکچھ مل نہ سکا۔

 

ایسے وقت میں جب کوئی بھی فلسطین کے ساتھ کھل کر کھڑا نہیں ہو پایا۔تب ایران کی حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں نے اہل فلسطین کا بھر پور ساتھ دیا۔غاصب ریاست نے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایران میں منصوبہ بند سازش سے شہید کیا۔پھر حزب اللہ کے رہ نما حسن نصر اللہ کو شہید کیا۔اردن میں واکی ٹاکی اور پیجر حملے کرواۓ گئے۔شام میں بھی حملے کیئے گئے۔ایسا لگ رہا تھا اسرائیل اور اس کی قیادت دماغی توازن کھو چکی ہے۔اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد سے ہی غاصب ریاست کے تیئں ایران انتقام کی نیت سے آگ بگولہ تھا۔لیکن وہ راست طور پر اسرائیل سے جنگ کرنے سے گریز کرتا رہا۔ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد حماس اور اسرائیل میں مختصر جنگ بندی پر معاہدات طئے پاۓ۔مختلیف مرحلوں میں قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی۔لیکن غاصب ریاست کا یہ شیوہ رہا کہ وہ معاہدوں کی ہمیشہ سے خلاف ورزی کرتا رہا۔اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔اور دوبارہ غزہ پر حملوں کا آغاز کردیا۔13جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کرتے ہوۓ اپنے آپ کو جوکھم میں ڈال لیا۔اس نے ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایااور ایران کے چھ جوہری سائنس دانوں اور چار فوجی افسران سمیت کئی شہریوں کو شہید کیا۔متعدد مبصرین کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے اشاروں پر یہ حملہ کیا گیا۔جس کا خود ٹرمپ نے بھی واضح اشارہ دیا۔مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ حملہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے ایران میں جاسوسی کے ذریعہ کیا۔چونکہ حسن نصر اللہ اور اسماعیل ہنیہ اور پھر ایران کے سائنس دانوں اور بڑے فوجی افسران کو شہید کرنا یہ سب شہادت دے رہے ہیں کہ اس حملے میں جاسوسی سازش کا بڑا اہم رول رہا ہے۔لیکن یہ حملہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔جو ایک خود مختار ریاست کے تحقیقی جوہری مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔غاصب ریاست حواس باختہ ہوچکی ہے۔اور شائد خواب و خیال میں بھی یہ تصور نہیں کیا تھا ہوگا کہ اس کے حملے کا اس قدر طاقت ور اور کرارا جواب ملے گا۔

 

آج غاصب ریاست اسرائیل کی جو حالت ہے۔ایک وقت میں اسی غاصب ریاست نے غزہ کی یہ حالت کی تھی۔اسرائیل چن چن کر عوامی مقامات دواخانوں کو یہ کہہ کر حملے کا نشانہ بناتا رہا کہ یہاں پر حماس کے ہیڈ کوارٹرس موجود ہیں۔اب جب ایران موساد کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا جو خود ایک شہریوں کے درمیان واقع ہے۔تو مغربی دنیا سمیت گودی میڈیا چیخ رہی ہے کہ ایران شہریوں کو نشانہ بنارہا ہے۔دو دن قبل ایران نے اسرائیل کے ایک بڑے فوجی دواخانے پر حملہ کیا تو یہی کہا گیا کہ ایران دواخانے کو کیسے نشانہ بناسکتا ہے۔کیا اس دنیا کو فلسطین کے دواخانے اسکولس خاص طور پر الشفاء دواخانے کا حملہ یاد نہیں ہے۔ایک ہفتے سے زائد کا وقت ہوچکا ہے۔ایران مسلسل حملے کررہا ہے۔اور اسرائیل میں تباہی مچی ہوئی ہے۔اسرائیل کی آئرن ڈوم ٹکنالوجی اس وقت صفر درجہ پر پہنچ چکی ہے۔عام شہری تحفظ کے لیئے پناہ گاہوں و بنکروں میں گذر بسر کررہے ہیں۔اسرائیلی شہریوں کو دھچکہ لگا ہوا ہے کہ کب سائرن بجنے لگیں گے اور کب ہمیں بنکروں میں جانا پڑے گا۔ایران کو ایک موقع ہاتھ آگیا جس میں وہ اپنے نئے نئے میزائل کو آزما رہا ہے۔جمعرات کی روز ایران نے پہلی بار سیجل میزائل کا تجربہ کیا۔جو بلندی پر سفر کرتے ہوۓ پوری کامیابی کے ساتھ اپنے ہدف تک پہنچتے ہیں۔دل چسپ بات دیکھئے ایران نے جب تل ابیب اور حیفا کو نشانہ بنایا تو نتن یاہو اور امریکی صدر نے ایرانی شہریوں کو تہران خالی کرنے کی دھمکی دی۔لیکن ایران ان دھمکیوں سے ڈرا نہیں بلکہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کی ہدایت پر حملوں میں مزید اضافہ ہوتا دیکھا گیا۔

 

امریکہ اور ایران چاہتے ہیں کہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کو شہید کیا جاۓ۔تاکہ ایران کے عزائم کو کمزور کیا جاسکے۔ بلکہ امریکی صدر نے ایران پر دباؤ بھی بناتے ہوۓ جنگ سے بلا شرط خود سپردگی اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔پھر امریکی صدر کہتے ہیں کہ آیت اللہ خامنہ ای کہاں ہے یہ ہمیں پتہ ہے۔لیکن ہم ابھی ان پر حملہ نہیں کریں گے۔ٹرمپ کے بچکانہ بیانات کے جوابات ایران کے رہبر اعلیٰ دے رہے ہیں۔ ان کے دوٹوک بیانات سے امریکہ اور اسرائیل کی نیندیں حرام ہیں۔آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ایران کبھی بھی اپنے آپ کو سریندر نہیں کرے گا۔اور نہ ہی جبری جنگ بندی پر رضا مند ہوگا۔انھوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ اگر امریکہ اس جنگ میں مداخلت کرتا ہے تو اس کا انجام برا ہوگا۔جس کا ازالہ کبھی نہ ہوسکے گا۔امریکہ کے بے رخ تیور دیکھتے ہوۓ روس نے امریکہ کو انتباہ دیتے ہوۓ کہا کہ وہ ایران پر راست طور پر حملہ نہ کرے۔روس اور چین کے تیور صاف دکھائی دے رہے ہیں کہ اگر امریکہ اس جنگ میں راست طور شامل ہوگا تو ممکن ہے کہ روس اور چین بھی اس جنگ میں شامل ہوسکتے ہیں۔پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ تیسری عالمی جنگ کے لیئے اور کیا باقی رہ جاۓ گا؟ شائد اسی لیئے امریکی صدر سخت بوکھلاہٹ میں مبتلاء ہیں۔وہ کوئی ایک فیصلہ لینے میں پس و پیش کا مظاہرہ کررہے ہیں۔کبھی تہران کو خالی کرنے کی بات کررہے ہیں تو کبھی اور دو ہفتے کا انتظار کرنا چاہتے ہیں۔ممکن ہے کہ دو ہفتے میں جنگ کا نقشہ ہی بدل جاۓ۔

 

جنگ کی اس صورت حال میں مغربی مفاد پرستوں کے ٹولوں کا G7 اجلاس کینڈا کے شہر کنساس میں ہوتا ہے۔ جس کا مقصد گروپ میں شامل ممالک کے درمیان کے تجارتی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔لیکن لازمی ہے کہ جب دنیا میں جنگ کا موقع ہوتو تجارت گفتگو کا موضوع نہیں ہوسکتا۔تب ہی اس اجلاس میں تجارتی ہم آہنگی سے ذیادہ اسرائیل ایران جنگ پر گفتگو ہوئی۔G7 ممالک نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی ہے۔ تاہم اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کی کھلی حمایت سے گریز کیا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔اور ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے نہیں دیئے جائیں گے۔یہ مغربی ممالک کا سات رکنی ٹولہ ایک طرف دنیا میں امن قائم رکھنے کی بات تو کرتا ہے۔لیکن اس کی منافقانہ چال یہ ہے کہ وہ ظالم اسرائیل کے شانہ بہ شانہ ٹھرتا ہے۔ان میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کو اپنی جنگی پالیسی پر روک سکے۔کیا یہ سوال اس G7 گروپ کے ممالک سے نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ اگر اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے تو کیا ایران کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا؟اگر اس ٹولے کو دنیا میں امن قائم کرنے کی فکر ہوتی تو اسرائیل کو ناجائز طریقے سے فلسطینی زمین پر بسایا ہی نہیں جاتا۔یا اگر انھیں معصوم غزہ کے شہیدوں کی فکر ہوتی تو بیس ماہ سے چل رہی طویل جنگ کو رکوا دیتے۔اور نہ غزہ اس طرح تباہی تک پہنچ پاتا۔G7 کا یہ اجلاس صرف اور صرف مغربی ممالک کے اپنے مفادات کی حصول یابی تک محدود ہے۔جب کہ اس اجلاس میں دنیا میں چل رہی جنگوں کو روکنے کے لیئے ٹھوس اقدمات کے فیصلے لینا چاہیئے تھا۔دنیا میں امن کی بقاء کو یقینی بنانے کے فصلے لینے چاہیئے تھے۔لیکن ایسا نہ کبھی پہلے ہوا اور نہ اب ہوا۔بلکہ یہ اجلاس بھی صرف اور صرف اسرائیل کی تائید کے ارد گرد ہی گردش کرتا رہا۔اسی لیئے G7 کا یہ اجلاس بے معنی ہوکر رہ گیا۔

 

اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل اور ایران کی جنگ کب تک چلے گی؟اس حوالے سے ایک اہم بات واشنگٹن رپورٹ کی گشت کررہی ہے کہ اسرائیل کے پاس دفاعی میزائلیں ختم ہورہی ہے۔اگر ایران لگاتار حملے جاری رکھتا ہے تو نتن یاہو کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔لیکن یہ ایک سازش کا حصہ ہی ہوگا۔جو اس طرح رپورٹیں بتاکر ایران کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے۔ کیونکہ امریکہ ہی نہیں بلکہ برطانیہ،فرانس،اٹلی،جرمنی یہ سب غاصب اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ایسے میں یہ بات بھی دنیا کو نہیں بھولنی ہوگی کہ ایران اس وقت تن تنہا کھڑا ہے۔جس کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔ سو وہ دفاع کر رہا ہے۔دنیا کو اس کے دفاع کی تائید کرنا چاہیئے۔جنگی معاملات میں کوئی بھی ملک چاہے وہ کتنا ہی طاقت ور ہو وہ جنگ سے بچنا ہی چاہتا ہے۔ابھی ایک ایسے وقت میں کہ امریکہ کا صدر خود ایک بڑا تاجر ہے۔وہ اتنی جلدی نہیں چاہتا ہے کہ راست طور پر اسرائیل اور ایران کی جنگ میں شامل ہو۔اس کے برعکس ایران اپنے مضبوط ارادوں اور مضبوط قوت کے ساتھ نہ صرف بیان بازی سے کام لے رہا ہے بلکہ اپنا دفاع بھی کررہا ہے۔ایسی حالت میں ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم شعیہ سنی کی بحث سے بچیں۔کیونکہ شعیہ سنی کی لڑائی بھی ایک یہودی سازش کا حصہ ہے۔ جس کا ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے بہت سے بیانات میں تذکرہ کیا ہے۔کاش کہ ہم اس سازش کو سمجھ پاتے۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر امریکہ اور اسرائیل کا یہ منصوبہ ہے کہ وہ ایران پر حملہ کرتے ہوۓ غزہ سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے تو ایران کو چاہیئے کہ وہ اس جنگ کا اختتام غزہ اور اہل فلسطین کے حق میں مثبت انجام کے ساتھ کرے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آخر اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ امریکہ کی مکاریاں آگے کیا راستہ طئے کرتی ہے۔اہل مغرب کی کارستانیوں کو دیکھ کر شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا

دیارِ مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو زر کم عیار ہوگا

متعلقہ خبریں

Back to top button