مضامین

مولانا یعقوب منشی اسماعیلؒ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مشہور ماہر فلکیات، نامور عالم دین، قرآن کریم کے عاشق، نمونۂ اسلاف، جامعہ اس روزلامیہ ڈابھیل کے سابق استاذ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے شاگرد رشید، درجنوں اداروں ، مساجد ، ومدارس کے سر پرست ، جامعہ علوم القرآن جمبوسر کے قیام کے محرک اور اس کے رکن حضرت مولانا محمد یعقوب قاسمی بن منشی اسماعیل (گجرات) کا برانوے (۹۲) سال  کی عمر میں ان کے وطن ثانی ڈیوزوری، یوکے میں انتقال ہو گیا، تاریخ ۱۹؍ محرم ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۸؍ اگست ۲۰۲۲ء کی تھی، جنازہ کی نماز ڈیوری میں ادا کی گئی اور وہیں مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، مولانا مرحوم کی ولادت چودہ محرم ۱۳۵۰ھ مطابق یکم جون ۱۹۳۱ء کو راندیر ضلع کے مشہور قصبہ کاوی میں ہوئی، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کرنے کے بعد انہوں نے متداول نصابی کتابوں کوجامعہ اشرفیہ راندیر میں سبقاً سبقاً پڑھا، مختلف علوم وفنون اور عربی زبان وادب مضبوط صلاحیت پیدا کی، علمی تشنگی باقی تھی اس لیے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا، اور یہاں کے نامور اساتذہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ سے صحیح بخاری، علامہ ابراہیم بلیاوی سے صحیح مسلم ، مولانا اعزاز علی امروہوی سے سنن ابود ؤد ، مولانا فخر الحسن ؒ سے سنن نسائی، مولانا ظہور احمد دیو بندی سے سنن ابن ماجہ پڑھی، ان کے درسی افادات سے فائدہ اٹھایا اور ۱۳۷۲ھ میں سند فراغ حاصل کیا۔
 تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ اسلامیہ ڈابھیل گجرات سے کیا، کم وبیش دس سال یہاں درس وتدریس سے وابستہ رہے، اور فقہ واصول فقہ کی کتابیں زیر درس رہیں، ۱۹۶۴ء میں وہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ تشریف لائے اور حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ سے کار قضا کی تربیت لی اور اس میں مہارت پیدا کی، امارت شرعیہ سے استفادہ کا تذکرہ وہ اپنی مجلسوں میں کیا کرتے تھے، میں نے یہ بات ان سے بلا واسطہ سنی ہے ، ہر ملاقات میں وہ اکابر امارت شرعیہ کا تذکرہ بھی بڑی محبت سے کیا کرتے، حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمۃ اللہ کے تو وہ عاشق تھے، امارت شرعیہ سے قضا کی تربیت مکمل ہونے کے بعد ۱۵؍ رمضان ۱۳۸۵ھ مطابق ۱۹۶۶ء میں برطانیہ کا رخ کیا اور وہاں شمالی برطانیہ کے ایک قصبہ ڈیوزوری کو اپنا مستقر بنایا، برطانیہ میں عائلی مسائل کو اسلامی انداز میں حل کرنے کے لیے دار القضاء کے نظام کو رائج کیا، البتہ مقامی مصلحت کی وجہ سے یہ نام انہوں نے نہیں استعمال کیا۔ ۱۴۰۹ھ میں مجلس تحقیقات شرعیہ برطانیہ کو قائم کرکے اسے علمی تحقیقی ادارہ بنایا، ایک مسجد کی تعمیر کرائی ،جسے وہ دینی واسلامی تعلیم کے فروغ کے ساتھ دعوت وتبلیغ کے کاموں کے لیے بھی استعمال کرتے تھے، اس کام میں جو بے راہ روی آئی ہے اس پر تنبیہ بھی کرتے رہتے تھے۔
 برطانیہ میں ان کی شناخت ماہر فلکیات کی حیثیت سے تھی ، رویت ہلال اور برطانیہ کے اوقات صلوٰۃ کے بارے میں لوگ ان کی آراکی قدر کرتے تھے، گویہ مسئلہ وہاں ابھی بھی لا ینحل ہے، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ اور مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ نے برطانیہ کے اس قضیے کو حل کرنے کی بڑی کوشش کی، لیکن وہاں اٹھارہ اور بائیس ڈگری کا معاملہ طے نہ ہو سکا، جو اس مسئلہ کے حل کے لیے بنیادی چیز ہے ۔
 حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے جب اسلامک فقہ اکیڈمی قائم کی تو اس کے سیمیناروں میں بہت پابندی سے شریک ہوا کرتے اور اپنے مقالہ کے ساتھ مناقشہ میں بھی خوب حصہ لیتے، دار العلوم ماٹلی والا بھروچ میں جب قاضی صاحب ؒ نے رویت ہلال پر سمینار کرایا تو کلیدی مقالہ ماہر فلکیات کی حیثیت سے انہوں نے پیش کیا تھا۔قاضی صاحب کے بعد ان کی توجہ کا مرکزمولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ تھے، ان کے دور میں بھی فقہی سیمیناروں میں ان کی شرکت ہوتی رہی۔
جیسا کہ مذکور ہوا، اللہ نے انہیں تحقیق وتصنیف کی مضبوط صلاحیت دی تھی، اوقات صلوٰۃ اور رویت ہلال سے خاص دلچسپی تھی، اسلامی ماہ اور رویت ہلال شریعت وعلم فلک کی روشنی میں ،برطانیہ میں صبح صادق کا وقت، برطانیہ میں اوقات نماز – مشاہدہ پر ایک نظر ، اوقات صوم وصلوٰۃ ، اسلامی نکاح وطلاق، برطانیہ واعلیٰ عرض البلاد پر صبح صادق وشفق کی تحقیق، ایصال ثواب کے لیے اجتماعی ختم قرآن وحدیث شریف کی شرعی حیثت، ان کی معروف اور مقبول کتابیں ہیں، مولانا کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا عاشق بنایا تھا، فرصت کے سارے اوقات تلاوت قرآن میں صرف کیا کرتے ، میں نے اپنی بیش تر ملاقاتوں میں انہیں قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہوئے پایا، تلاوت قرآن کے نورانی اثرات ان کے چہرے سے ہویدا تھے، وہ انتہائی وجیہ انسان تھے، لباس کے رکھ رکھاؤ نے انہیں اور بھی مرکز توجہ بنا دیا تھا۔
 میری ملاقات مولانا سے پہلی بار فقہی سمینار ہی میں ہوئی تھی ، پھر یہ تعلق بڑھتا گیا، امارت شرعیہ کا بھی کئی سفر انہوں نے کیا تھا، مسلسل ملاقات سے ایک تعلق خاطر ہو گیا تھا، پھر برطانیہ کا میرا سفر شروع ہوا، ڈیوزو ری کی طرف جانا ہوتا تو قیام ان کی مسجد میں ہی ہوتا، جمعہ کا دن ہوتا تو مسجد میں خطاب مجھ سے کرواتے۔فرصت ہوتی تو ایک وقت کی گھر پر دعوت بھی کرتے اور ممکنہ سہولت بہم پہونچانے کی کوشش کرتے، ۲۰۱۹ء میں میرا آخری بار سفر برطانیہ کا ہوا، وہ اس وقت انتہائی کمزور ہو چکے تھے، کمزوری کا اثر تمام اعضاء وجوارح اور قویٰ پر تھا، لیکن مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کی کوشش کرتے رہے، انتقال سے قبل حافظہ نے ساتھ چھوڑ دیا تھا اور وہ بستر سے لگ گیے تھے، پھر موت کے فرشتے نے آواز لگائی اور انہوں نے رخصت سفر باندھ لیا۔
 مولانا نے بھر پور زندگی گذاری وہ جامعہ علوم القرآن جمبوسر گجرات کی بنا کے محرک تھے اور پوری زندگی اس کے استحکام کے لیے ہر سطح پر تعاون فرماتے رہے، اس طرح یہ غم مولانا مفتی احمد دیولہ دامت برکاتہم اور ان کے صاحبزادگان کا غم ہے، ہم مولانا مرحوم کے تمام پس ماندگان ، متعلقین کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں او رمغفرت تامہ کی دعا پر اس مضمون کا اختتام کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button