آپ جو لفظ بھی زبان سے نکالتے ہیں وہ لکھ لیاجاتا ہے

سراج الدین ندویؔ
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور
9897334419
انسان جو کچھ بھی زبان سے کہتا ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کے یہاں محفوظ ہورہا ہے۔ جدید آلات کی ایجاد کے بعد اس دور میں یہ بات سمجھنا بہت آسان ہوگیاہے کہ انسان کی زبان سے نکلنے والی ہر چیز محفوظ کی جاسکتی ہے۔انسان کی نیکیاں اور برائیاں لکھنے کے لیے ہر وقت دوفرشتے حاضر رہتے ہیں۔ دائیں طرف والا فرشتہ نیکیاں لکھتا ہے اور بائیں طرف والا فرشتہ برائیاں لکھتاہے۔ انسان کی زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ اچھی ہوتی ہے یا بری، اس لیے انسان کو بہت سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔ زبان کھولنے سے پہلے اسے الفاظ کوتول لینا چاہیے۔
ارشاد ربانی ہے:مَا یَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(ق:۸۱)”کوئی لفظ انسان کی زبان سے نہیں نکلتا ہے مگر اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک نگراں موجود رہتا ہے۔“
آپ کی زبان سے نکلنے والا ہرلفظ ریکارڈ ہورہا ہے اس لیے آپ یہ طے کرلیجئے کہ آپ جب بھی زبان کھولیں گے تو اس سے اچھی بات کہیں گے۔آپ کی زبان سے لوگ پھول جھڑتے ہوئے دیکھیں۔آپ جس محفل میں ہوں اپنی باتوں سے محفل کوعطر بیز کردیجئے۔آپ کی زبان لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھے۔ آپ کے زبان کے تیر ونشتر انسانوں کو زخمی نہ کریں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”آدمی کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جو اللہ کو خوش کرنے والی ہوتی ہے مگر آدمی کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ اس بندے کے درجات بلند فرمادیتا ہے۔ اسی طرح انسان کوئی بات کہہ دیتاہے جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہوتی ہے اور انسان کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا اور اسے اس کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جاتاہے۔(بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:”تم میں سے کوئی شخص کوئی بات اللہ کی خوشنودی کے لیے بول دیتاہے کہ اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ بات کہاں تک پہنچے گی اور اللہ تعالیٰ اس بات کی وجہ سے اس کے لیے اپنی خوشنودی قیامت تک کے لیے لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح تم میں سے کوئی شخص ایسی بات کہہ دیتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کی ہوتی ہے اور اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ بات کہاں تک پہنچے گی۔ اس بات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنی ناراضگی اس کے لیے قیامت تک کے لیے لکھ دیتا ہے۔ حضر ت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ وہ زبان کو پکڑکر فرمایا کرتے تھے کہ اسی نے مجھے مشکلات میں ڈالاہے۔حضرت عمرؓ کا قول ہے جو زیادہ بولے گا زیادہ غلطیاں کرے گا اور جو زیادہ غلطیاں کرے گا اس کے گناہ زیادہ ہوں گے اور جس کے گناہ زیادہ ہوں گے جہنم اس کے لیے سزاوار ہے۔
مؤمن کی زبان اگر کھلتی ہے توصرف اچھی بات کے لیے ورنہ وہ خاموش رہتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:”تم میں جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔“
حضرت براء بن عازبؓبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: یا رسولؐ اللہ!”مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جو مجھے جنت میں لے جائے۔“آپؐ نے فرمایا:”بھوکے کو کھانا کھلاؤ، پیاسے کو پانی پلاؤ، بھلائی کا حکم دو، برائی سے روکو، اور اگر یہ کچھ نہ کرسکو تو اپنی زبان کو بھلی بات کے علاوہ تمام باتوں سے روکو۔(ابن حبان)
انسان کو بالکل خاموش بھی نہیں رہنا چاہیے کہ وہ ہر وقت اپنی زبان بند رکھے۔ زبان اللہ کی نعمت ہے۔ اس لیے اس نعمت سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور زبان کو اپنے فائدہ، لوگوں کے فائدہ اور دین اسلام کے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ایک عورت زبان کو خاموش رکھ کر حج کررہی تھی۔ حضرت ابو بکرؓنے اس سے فرمایا:”یہ جائز نہیں ہے، یہ جاہلیت کا عمل ہے۔“ حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح سے شام تک چپ رہنے سے منع فرمایا۔
ایک بار حضرت احنف بن قیس کی مجلس میں لوگوں میں اس بات پر تبادلہئ خیال ہوا کہ خاموشی زیادہ بہتر ہے یا بولنا، کچھ لوگوں نے کہا کہ خاموشی زیادہ بہتر ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا بولنا زیادہ بہتر ہے۔ حضرت احنف بن قیس نے فرمایا:”بولنا زیادہ بہتر ہے کیوں کہ خاموشی کی بھلائی آدمی کی اپنی ذات تک محدود رہتی ہے اور اچھی بات سے سننے والوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ایک بادشاہ نے اپنے باورچی سے کہا:”مجھے دنیا کا سب سے اچھا کھانا کھلاؤ“۔ جب دستر خوان لگا تو بادشاہ نے دیکھا کہ زبان کا گوشت دسترخوان پر لگا ہوا ہے۔ خیر بادشاہ نے تناول کرلیا۔
اگلے دن بادشاہ نے باورچی سے کہا کہ آج ہمیں دنیا کا سب سے خراب کھانا کھلاؤ۔ جب بادشاہ کھانا کھانے کے لیے دستر خوان پر گیا تو یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ دستر خوان پر زبان کا گوشت موجودہے۔ بادشاہ نے باورچی سے کہا:”یہ کیا حرکت ہے؟ کل تم نے سب سے اچھے کھانے کے طور پر زبان کا گوشت پیش کیا تھا اور آج تم نے سب سے برے کھانے کے طور پر بھی زبان کا گوشت دستر خوان پر سجایا ہے۔“باورچی نے کہا:
”بادشاہ سلامت زبان انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔اسی سے انسان کلمہ توحید ادا کرکے جنت کا مستحق بنتا ہے۔ یہ پھٹے ہوئے دلوں کو جوڑتی ہے۔ دشمنی کو محبت میں بدلتی ہے۔ سماج میں پیار کی خوشبو بکھیرتی ہے۔مگر زبان ہی انسان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ اسی سے انسان کلمہئ کفر ادا کرکے جہنم کا مستحق بنتا ہے۔ زبان ہی لوگوں میں جھگڑاکراتی ہے۔یہ غلط استعمال کرنے والے کو ذلیل کراتی ہے۔یہ محبت کو نفرت میں بدل کر رکھ دیتی ہے۔ یہ برائی پر اترآئے تو سماج میں فتنہ وفساد پیدا کرتی اور اسے بدبودار بنا دیتی ہے“۔
اسی لیے زبان کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کیجئے۔زبان کھولئے تو صرف اچھی بات بولئے۔ غلط، جھوٹی، لغو، بے ہودہ بات کے لیے زبان نہ کھولیے۔طعنہ وتشنیع،گالم گلوج، اتہام والزام تراشی اور بے بنیاد باتوں سے زبان کو دور رکھئے۔ ایک بارایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے؟ اور رسولﷺ سے عرض کرتاہے:”اگر 3538میں اپنی زبان کا بھی مالک نہیں تو پھر کس چیز کا مالک ہوسکتا ہوں؟“ آپؐ نے فرمایا:”کیا تم اپنے ہاتھ کے مالک ہو؟“ انہوں نے کہا:”اگر میں اپنے ہاتھ کا بھی مالک نہیں ہوسکتا تو پھر کس چیز کا مالک ہوسکتا ہوں؟“ آپؐ نے فرمایا:”تب اپنی زبان سے صرف بھلی بات کہو اوراپنا ہاتھ صرف بھلائی کی طرف بڑھاؤ۔“(طبرانی)
rr