نیشنل

ایک پروفیسر کے اظہارِ رائے کے حق میں کوئی رکاوٹ نہیں” سپریم کورٹ۔پروفیسر علی خان محمود آباد کی عبوری ضمانت میں توسیع

نئی دہلی، 28 مئی سپریم کورٹ نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی عبوری ضمانت میں توسیع کے احکامات جاری کیے ہیں۔ آج سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ نے واضح کیا کہ ایک پروفیسر کے بولنے اور اظہارِ رائے کے حق پر کوئی پابندی نہیں ہے تاہم وہ کیس سے متعلق کچھ بھی آن لائن پوسٹ نہیں کر سکتے۔

 

 

ہریانہ حکومت نے عدالت کو بتایا کہ اس نے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (SIT) تشکیل دی ہے، اور پروفیسر اس تحقیق میں شامل ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے SIT سے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے ہریانہ پولیس سے کہا ہے کہ وہ پروفیسر علی خان کے خلاف درج ایف آئی آر کے سلسلے میں قومی انسانی حقوق کمیشن (NHRC) کے نوٹس پر اپنی وضاحت پیش کرے۔

 

 

جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس دیپانکر دتہ پر مشتمل بینچ نے 21 مئی کو پروفیسر پر عائد اس شرط میں کوئی ترمیم کرنے سے انکار کیا کہ وہ تحقیقاتی موضوع بنے ان دو آن لائن پوسٹس سے متعلق کوئی مضمون پوسٹ یا زبانی بیان جاری نہیں کریں گے۔

 

 

پروفیسر علی خان محمود آباد کو "آپریشن سندور” پر تبصرہ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے انہیں ہندوستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں یا بھارتی مسلح افواج کی جوابی کارروائیوں کے بارے میں بھی کوئی رائے دینے سے روک دیا ہے۔

 

 

بینچ نے کہا کہ عبوری ضمانت میں توسیع کی جا رہی ہے اور SIT کو ہدایت دی کہ وہ آئندہ سماعت پر اپنی تحقیقات کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تفتیش کی بنیاد پروفیسر کے خلاف درج دو ایف آئی آر درج کئے گئے ہیں۔

 

عدالت نے ہریانہ پولیس سے کہا ہے کہ وہ تحقیق میں "غیر ضروری باتوں” میں نہ الجھے بلکہ اصل "شواہد” کی تلاش کرے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button