صالح انقلاب کاہیرو

انس مسرورؔانصاری
جب تک آپ خوداپنی قدرنہیں کریں گے،دنیاآپ کی قدرنہیں کرے گی۔‘‘اپنی قدرآپ’’سے مرادیہ ہے کہ آپ اپنے اندرایسے ا علیٰ اوصاف پیداکریں کہ دوسرے لوگ متاثرہوں۔اپنے کرداروعمل سے متاثرکرنے کی پہلی منزل آپ کااپناگھرہے۔اپنے مثالی کردارسے،اپنے خلوص ومحبت اورایثارسے گھرکے افرادپراپنااثرقائم کریں۔اپنے احباب میں اپنی شخصیت کوباوقاراندازمیں پیش کریں۔ دوسروں کے آلام ومصائب میں ان کی دستگیری کریں۔ان کے شریکِ حال رہیں۔جس حدتک ممکن ہوعملی طورپرپرخلوص معاونت کریں۔اپنے آپ کوایسے درخت کی طرح فعال اورنفع بخش بنائیں جوپھل بھی دیتاہے اورسایہ بھی۔اس روش پرچلنے سے بتدریج آپ کی شخصیت بنے گی اورکچھ ہی عرصہ میں آپ معاشرہ میں پُروقارآدمی بن جائیں گے۔اخلاقِ نبویﷺ کوہمیشہ پیشِ نظررکھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے معاشرہ میں سب سے پہلے اپنے اعلاترین کردارواخلاق کوپیش کیا پھراسلام کی دعوت دی اوراُ س کا آغازسب سے پہلے اپنے گھروالوں سے کیا۔
اس سنتِ نبوی پرعمل کرتے ہوئے آپ کوبھی اس کاآغازسب سے پہلے اپنے گھرسے کرناہے۔پھرپڑوس میں۔پھرمحلّہ،قصبہ اورشہرمیں۔اس کام کوایک جملہ میں آپ ‘‘خدمتِ خلق’’بھی کہہ سکتے ہیں۔خدمت کے اس دائرہ کو روزبہ روزوسیع سے وسیع ترکرتے جائیں۔لوگ آپ کے گرویدہ ہوتے چلے جائیں گے۔شادی بیاہ کی تقریبات اورسماجی محفلوں میں آپ کومدعوکیاجائے توایک مخلص اورذمّہ دارآدمی کی حیثیت سے شریک ہوں۔آپ کے عمل سے اس بات کااظہارضروری ہے کہ آپ دوسروں کے بہی خواہ اورخیراندیش ہیں۔دوسروں کے دلوں میں جگہ پانے کے لیے آپ کو محنت،ایثاراوردوراندیشی سے کام لیناہوگا۔ یہ سارے کام آپ کواپنی معیشت کے استحکام کے ساتھ کرناہے۔بعض موقعوں پرکسی قدرنقصانات سے بھی دوچارہونا پڑے گالیکن آگے چل کریہی نقصانات آپ کے حق میں مفیدثابت ہوں گے۔
سودوزیاں کی اس دنیامیں بناکچھ کھوئے کچھ بھی نہیں ملنے والاہے۔یہ وہ راستہ ہے جس پرچل کرآپ بہت کم وقت میں ہردل عزیز ہوجائیں گے۔کچھ لوگ ہوتے ہیں جواپنے آپ پرایک مصنوعی خول ساچڑھائے رکھتے ہیں۔اپنے آپ کولیے دیے رہتے ہیں۔اقتصادی ابتری کے شکارافرادسے ملناجُلنااُنھیں سلام کرنا،خیروعافیت دریافت کرنا،اپنے پاس بیٹھنے اوربٹھانے کوکسرِ شان سمجھتے ہیں۔وہ اپنے ہم رتبہ لوگوں میں اٹھنابیٹھناپسندکرتے ہیں۔ان کے اس نارواسلوک میں اپنی شخصیت کوبارعب رکھنے اوراپنے آپ کوبلندمرتبہ ظاہرکرنے کی غرض پوشیدہ ہوتی ہے۔اس طرح یہ لوگ اپنی خودساختہ شخصیت کارعب ڈالناچاہتے ہیں۔اپنے آپ کودوسروں سے برترثابت کرنے کے لیے بداخلاقیوں کے مظاہرہ سے بھی گریزنھیں کرتے لیکن وہ جوچاہتے ہیں وہ اُنھیں مل نہیں پاتا۔اُن کی بدسلوکی اورغیراخلاقی حرکتوں سے عام لوگ اُن سے متنفرہوجاتے اورحسدوعداوت رکھنے لگتے ہیں۔ایک بڑاعوامی طبقہ ان سے گریزکرنے لگتاہے۔
اس کاسب سے بڑانقصان یہ ہوتاہے کہ ان کاحلقۂ احباب بہت محدودہوجاتاہے۔وہ ایک منفی شخصیت بن جاتے ہیں۔عام آدمی کی ان سے وابستگی غرض مندانہ ہوتی ہے۔لوگ اپنی غرض سے ان کے پاس جاتے ہیں لیکن ان کے لیے اپنے دل میں محبت واحترام کاجذبہ نہیں رکھتے۔خودساختہ شخصیت والاآدمی انسانی معاشرہ کے لیے ایک غیرنفع بخش آدمی ہے۔معاشرہ اسے نظراندازکرنے لگتاہے۔وہ معاشرہ سے کٹ جاتاہے۔ جب اس کے ناروااورغیرمخلصانہ سلوک کی وجہ سے لوگ اس سے کترانے لگتے ہیں تووہ اپنے محدودحلقہ میں گھٹن اورتنہائی محسوس کرنے لگتاہے۔ایسے ماحول میں جہاں آدمی کادم گھٹنے لگتاہے وہیں طرح طرح کے ذہنی ونفسیاتی امراض پیداہوجاتے ہیں۔آدمی مسلسل گھٹن آلودتنہائی سے بتدریج احساسِ کمتری کاشکارہوجاتاہے۔اسے دنیابھرسے شکایتیں ہونے لگتی ہیں۔اسے محسوس ہوتاہے کہ اس کااپناکوئی نہیں ہے جس سے وہ اپنے دل کی بات کہہ سکے۔اسے ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے تواس کے غرض مندانہ حلقہ میں کوئی ہمدردنہیں مل پاتا۔اس طرح وہ ڈپریشن کاشکارہوجاتاہے۔
احساسِ کمتری کی وجہ سے جب آدمی کے اندراس طرح کے خیالات پیداہوتے ہیں توان کے اثرات زندگی کے ہرشعبہ کومتاثرکرتے ہیں ۔ایساشخص دھیرے دھیرے اپنی تمام فطری صلاحیتیں کھوبیٹھتاہے۔وہ دنیامیں نہ کسی کام کارہ جاتاہے اورنہ کوئی بڑاکارنامہ انجام دے سکتاہے۔وہ تعلیم یافتہ شخص جواعلیٰ سماجی اقدارکاپاسداراورنگہبان ہوسکتاتھااورجس کی علمی لیاقت اورذہنی بصیرت سے معاشرہ کے صالح عناصرکوتقویت مل سکتی تھی ،اس کی اپنی زندگی خوداسی کے لیے ایک طرح کاعذاب اورسوالیہ نشان بن کررہ جاتی ہے۔اس کے برعکس وہی آدمی جب اپنے اندراعلیٰ ترین اوصاف پیداکرکے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کوبیدارکرلیتاہے۔دوسروں کے دل جیتنے کاہنرآجاتاہے تواس کے گرداسے چاہنے والوں کاایک بڑامجمع اکٹھاہوجاتاہے۔جاں نثاروں کاایک گِروہ تیارہو جاتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے خودکو نفع بخش بنائے۔غورطلب ہے کہ اندازِ فکرکی ایک ذراسی تبدیلی کتنے بڑے انقلاب کاپیش خیمہ بن جاتی ہے۔اخلاص ومروّت اورایثارومحبت کے ساتھ ہی اس کے اندرذوقِ عمل اورمستحکم ارادہ کی طاقت بھی ہوتوایساشخص کسی بڑے انقلاب کاہیروہوسکتاہے۔
آپ چاہیں توآپ بھی ایک بڑے اورشاندار انقلاب کے ہیروبن سکتے ہیں۔اس کی سب سے اچھی اوربہترین مثال سرسیّداحمدخاں کی ہے۔اُنھوں نے اپنے اعلیٰ ترین اوصاف ،جہدِ مسلسل ،اخلاص ومحبت ،کرداروعمل اورقومی جذبہ کے سبب وقت کی مقتدراوربااثرشخصیات کواپنے گِردجمع کرلیا تھا۔والیانِ ریاست اورانگریزی حکام تک اُن کے گرویدہ تھے۔سرسیّداحمدخاں کے قومی جذبہ ،تعلیمی مشن ،مستحکم ارادے،قوتِ عمل اورپُرخلوص مقاصدکالامثال نمونہ ہے آج کی مسلم یونیورسٹی جونہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے افتخارکاباعث ہے۔تاریخ میں سرسیّداحمدخاں ایک پُرآشوب اورعبوری دَورمیں صالح انقلاب کے ہیرواورقومی ریفارمرتسلیم کیے جاتے ہیں۔اُن کے عزائم اورمقاصد کی تکمیل پرپوری قوم کوبجاطورپرنازہے۔موجودہ حالات میں ہرمسلمان پریہ بھی فرض ہے کہ وہ اعلادرجہ کے تعلیمی ادارے قائم کریں۔جب تک قوم تعلیم کے میدان میں خودکفیل نہ ہوگی،اس کی بقاء وتحفظ اورترقی ممکن نہیں۔ایثاروقربانی کے بغیرکبھی کوئی انقلاب برپانہیں کیاجاسکتا۔مسلم قوم کی ناخواندگی دورکرنے کے لیے ایثاروقربانی کی ضرورت ہے۔آج قوم کے لیے تعلیم پہلی ضرورت ہے۔جولوگ اس راہ میں جدوجہد کریں وہ ثواب کے مستحق ہیں۔
کسی قوم کے لیے دنیاوی تعلیم کافی ہوسکتی ہے لیکن مسلمانوں کودومحاذوں پرکام کرناہے۔اُنھیں دینی تعلیم بھی حاصل کرنی ہے اوردنیاوی تعلیم بھی۔!اس کے بغیرکوئی چارہ نہیں۔اس قوم کی بقاء وتحفظ اورترقی کے لیے اوّل تعلیم۔دوئم تعلیم اورسوئم تعلیم ہے۔ تعلیمی خودکفالتی اس کی آزادی کاواحد راستہ ہے۔علامہ اقبال کے شعرمیں ذراسی ترمیم کے ساتھ حقیقت منکشف ہوتی ہے۔
نہ سمجھوگے تومٹ جاؤ گے ائے ہندی مسلمانو!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
انس مسرورانصاری
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن