اسپشل اسٹوری

ظہران ممدانی نیویارک کے پہلے مسلم اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر کا پس منظر اور اسرائیل کے تعلق سے نظریہ

نئی دہلی: امریکہ کے شہر نیویارک نے تاریخ رقم کی ہے۔ ہندوستانی نژاد ظہران ممدانی نے میئر کا الیکشن جیت کر نہ صرف شہر کی قیادت سنبھالی بلکہ ایک نئی سیاسی تاریخ بھی رقم کر دی۔ 34 سالہ ممدانی سو برس میں نیویارک کے سب سے کم عمر میئر اور شہر کے پہلے مسلم اور جنوبی ایشیائی نژاد رہنما بن گئے ہیں۔

 

 

میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان کی جیت طے ہوتے ہی برک لین کے ’پیرا ماؤنٹ تھیٹر‘ کے باہر ان کے ہزاروں حامی خوشی سے جھوم اٹھے۔ جگہ جگہ جشن منایا گیا، نعروں اور موسیقی کے ساتھ ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا گیا۔میئر کے عہدے کے لیے ممدانی کا اصل مقابلہ سابق گورنر اینڈریو کومو سے تھا، جو ڈیموکریٹک پرائمری میں ہارنے کے بعد آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترے تھے۔ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے کرٹس سلیوا امیدوار تھے جنہوں نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ’’اب ہمارے منتخب میئر ہیں۔ میں ممدانی کو نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں، کیونکہ اگر وہ اچھا کریں گے تو ہم سب اچھا کریں گے۔‘‘

 

 

ظہران ممدانی 1991 میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ممتاز محقق محمود ممدانی اور والدہ معروف فلم ساز میرا نائر دونوں عالمی سطح پر جانے پہچانے نام ہیں۔ ان کے والد نے گھانا کے انقلابی رہنما کوامی نکرومہ کے نام پر ان کا درمیانی نام دیا۔پانچ سال کی عمر میں وہ جنوبی افریقہ چلے گئے جہاں انہوں نے سینٹ جارج گرامر اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر سات برس کی عمر میں نیویارک منتقل ہو گئے۔

 

 

انہوں نے برونکس ہائی اسکول آف سائنس سے تعلیم حاصل کی اور 2014 میں بوڈون کالج سے ’افریکن اسٹڈیز‘ میں گریجویشن مکمل کیا۔ظہران نے سیاست میں آنے سے پہلے کویینز میں فورکلوژر کاؤنسلر کے طور پر کام کیا جہاں وہ مالی طور پر کمزور خاندانوں کی مدد کرتے تھے۔ اس دوران انہوں نے محسوس کیا کہ غربت کا تعلق صرف اقتصادی مسائل سے نہیں بلکہ پالیسی کی ناکامیوں سے بھی ہے۔ یہی تجربہ ان کے سیاسی سفر کی بنیاد بنا۔

 

 

2020 میں انہوں نے نیویارک اسمبلی کے 36ویں ضلع (ایسٹوریا، کوئینز) سے ڈیموکریٹک سوشلسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا اور پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہو گئے۔ وہ نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے پہلے جنوبی ایشیائی اور پہلے سوشلسٹ رکن بنے۔ظہران ممدانی کھلے عام فلسطین کے حامی اور اسرائیلی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسے ملک کی حمایت نہیں کر سکتے جو شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرے۔ وہ ’گلوبلائز دی انتفاضہ‘ نعرے کو فلسطینی عوام کی انسانی جدوجہد کی علامت مانتے ہیں،

 

 

ظہران ممدانی کی جیت امریکی سیاست میں اقلیتوں کی بڑھتی ہوئی نمائندگی کی علامت سمجھی جا رہی ہے۔ ان کی کامیابی نہ صرف نیویارک بلکہ پورے امریکہ میں ان نوجوانوں کے لیے امید کا پیغام ہے جو مساوات، شمولیت اور سماجی انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔ نیویارک کے سیاسی مبصرین کے مطابق، ’’یہ جیت اس بات کا ثبوت ہے کہ نیویارک اب محض طاقتور طبقے کا شہر نہیں رہا بلکہ یہ ان عام شہریوں کا بھی ہے

 

 

جو نظام میں اپنی آواز سنوانا چاہتے ہیں۔‘‘ظہران ممدانی آج صرف ایک میئر نہیں بلکہ ایک نظریہ بن چکے ہیں ایسا نظریہ جو انصاف، مساوات اور انسانیت پر مبنی سیاست کی نمائندگی کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button