اسرائیل کا خفیہ ایٹمی آپریشن — "پلمباٹ مشن” کی کہانی

موساد کا خفیہ آپریشن “پلمباٹ” — اسرائیل نے200 ٹن یورینیم کیسے منتقل کی؛ عالمی تاریخ کا سب سے پیچیدہ ایٹمی راز عیاں
1950 کی دہائی کے بعد جب اسرائیل نے اپنے دفاع کو مستحکم کرنے کے عہد کا فیصلہ کیا، اُس نے نہ صرف فرانس کی مدد سے دیمونا میں خفیہ ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کیا، بلکہ خفیہ نیٹ ورک کے ذریعے یورینیم کی غیر قانونی منتقلی کا تاریخی آپریشن “پلمباٹ” انجام دیا۔ اس آپریشن کے تحت 200 ٹن خام یورینیم کو بین الاقوامی راستوں سے منتقل کیا گیا، اس کا سراغ غائب جہازوں، خفیہ پاسپورٹوں اور جعلی کمپنیوں کی سازش سے ملایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے اسرائیل کی ایٹمی حیثیت کو دنیا کے سامنے لانے کا نیا باب کھولا — اور آج تک کئی پہلو ایسے ہیں جو راز ہی رہے۔
دنیا کی خفیہ تاریخ میں اسرائیل کا ایٹمی پروگرام سب سے زیادہ راز میں رکھا گیا منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے اسرائیل نے نہ صرف ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی بلکہ خام یورینیم چوری اور خفیہ منتقلی کے ذریعے خود کو ایٹمی طاقت میں بدل دیا۔
1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد عرب ممالک نے اس کے خلاف مسلسل جنگیں کیں۔ اگرچہ امریکہ کی مدد سے اسرائیل نے عسکری کامیابیاں حاصل کیں، لیکن قیادت کو اندازہ ہو گیا کہ خطے میں اپنی بقا کے لیے ایٹمی ہتھیار ضروری ہیں۔ اسی مقصد کے تحت 1950 کی دہائی میں اسرائیلی ایٹمی کمیشن قائم کیا گیا۔
1956 کے سوئز بحران کے بعد اسرائیل اور فرانس کے تعلقات مضبوط ہوئے۔ دونوں ممالک نے خفیہ طور پر نیگیو صحرا میں "دیمونا ری ایکٹر” تعمیر کرنے کا معاہدہ کیا۔ فرانس نے ٹیکنالوجی، ڈیزائن اور ماہرین فراہم کیے۔ اسرائیل نے یہ منصوبہ اپنے عوام اور دیگر ممالک سے پوشیدہ رکھا۔
جب فرانس میں جنرل شارل ڈی گال کی حکومت آئی تو یہ انکشاف ہوا کہ اسرائیل ایٹمی ری ایکٹر بنا رہا ہے، مگر معاہدہ منسوخ کرنے کی صورت میں مالی نقصان کے خدشے سے فرانس نے خاموشی اختیار کر لی۔
امریکی جاسوس طیاروں نے نیگیو صحرا میں ایک بڑی کنکریٹ عمارت کی تصاویر لیں۔ اسرائیل نے اسے "ٹیکسٹائل فیکٹری” قرار دیا، لیکن سی آئی اے نے تجزیہ کر کے بتایا کہ یہ دراصل ایٹمی ری ایکٹر ہے۔ صدر جان ایف کینیڈی نے اسرائیل سے معائنہ کرنے کی اجازت طلب کی۔ اسرائیل نے صرف رسمی "دورے” کی اجازت دی اور عملاً ری پروسیسنگ سینٹر کو جعلی دیواروں سے چھپا دیا۔
ری ایکٹر کی تیاری کے بعد اسرائیل کو خام یورینیم کی اشد ضرورت تھی۔ 1968 میں موساد نے ایک خفیہ منصوبہ بنایا، جسے "آپریشن پلمباٹ” کہا جاتا ہے۔
بیلجیم کی کمپنی "یونین مائنرز” سے 200 ٹن خام یورینیم خریدا گیا۔ اس مال کو لیبیریا میں موساد کے جعلی شپنگ نیٹ ورک کے ذریعے "پلمباٹ” نامی جہاز میں لادا گیا۔ جہاز کا اصل عملہ ہٹا کر موساد کے اہلکاروں کو جعلی پاسپورٹس کے ساتھ شامل کیا گیا۔
سات دن بعد یہ جہاز سمندر کے وسط میں اسرائیلی بحری جہاز سے ملا، یورینیم منتقل کیا گیا، اور پھر وہ جہاز حائفہ بندرگاہ کی سمت غائب ہو گیا۔ آٹھ دن بعد خالی جہاز ترکی کے ساحل پر ملا — لاگ بُک کے کئی صفحات غائب تھے، اور سامان کا کوئی سراغ نہ ملا۔
اسی دوران امریکہ کی "نُومیک” کمپنی سے 200 سے 600 پاؤنڈ تک خالص یورینیم غائب ہونے کی رپورٹ آئی۔ امریکی خفیہ اداروں نے بعد میں تسلیم کیا کہ یہ مواد اسرائیل کے ایٹمی پروگرام میں استعمال ہوا۔ مگر سیاسی تعلقات کی بنا پر معاملہ دبایا گیا۔
1979 میں جنوبی بحرالکاہل کے قریب "پرنس ایڈورڈ آئی لینڈز” کے علاقے سے امریکی سیٹلائٹ "ویلا” نے دو طاقتور روشنیوں کو ریکارڈ کیا۔ گاما شعاعوں اور ایکس ریز کی بنیاد پر ماہرین نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ ایٹمی دھماکہ تھا، اور ممکنہ طور پر اسرائیل اس میں ملوث تھا۔ بعد میں آسٹریلیا کے جنوبی حصے میں فضا اور جانوروں کے نمونوں میں ایٹمی ذرات پائے گئے۔
اگرچہ اسرائیل نے کبھی باضابطہ طور پر خود کو ایٹمی طاقت تسلیم نہیں کیا، مگر عالمی سطح پر یہی مانا جاتا ہے کہ اس کے پاس درجنوں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ اسی خوف نے عرب ممالک کو بڑے پیمانے پر جنگ سے باز رکھا۔ "پلمباٹ آپریشن” اور "ویلا انسیڈنٹ” آج بھی اسرائیل کی ایٹمی تاریخ کے سب سے متنازع مگر کامیاب خفیہ ابواب مانے جاتے ہیں۔