” تو کہہ رہا تھا مجھے چھوڑ کر نہیں جائے گا، لیکن تو بھی چلا گیا” سنبھل میں شہید ایان کی والدہ کے آخری الفاظ
اترپردیش کے سنبھل جامع مسجد کے سروے کے دوران گزشتہ اتوار کو جو تشدد برپا ہوا تھا اس میں پولیس کی گولی لگنے سے ایان نامی نوجوان بھی شہید ہوگیا ۔
اتوار کو سنبھل کی گلیوں میں ہمیشہ کی طرح خاموشی تھی، لیکن اس دن کا سورج ایک المناک کہانی کی گواہی دینے کے لیے طلوع ہو رہا تھا۔ ایان، جو صرف سترہ سال کا تھا، اپنی ماں کے لیے دنیا کی سب سے بڑی امید تھا۔ اس کے والد کا سایہ بچپن میں ہی سر سے اٹھ گیا تھا،
اور بڑی بہنوں کی شادی کے بعد وہ اپنی ماں کے ساتھ تنہا رہ گیا تھا۔ ایان نے اسکول کی تعلیم چھوڑ دی تھی تاکہ اپنے خاندان کا سہارا بن سکے۔ وہ ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کام کرتا تھا اور جو بھی کماتا، وہ اپنی ماں کی خوشیوں پر قربان کر دیتا۔
اتوار کی شام وہ حسب معمول کام سے لوٹ رہا تھا۔ گلی میں کچھ شور تھا، اور ایان نے محسوس کیا کہ حالات کشیدہ ہیں۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کی ماں اس کا انتظار کر رہی ہوگی۔ وہ تیز قدموں سے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک گولیوں کی آواز گونجی۔ وہ کچھ سمجھ پاتا، اس سے پہلے ہی ایک گولی اس کے سینے میں لگی اور وہ زمین پر گر پڑا۔
اس کے دوستوں نے اسے تڑپتا ہوا پایا اور اٹھا کر اسپتال لے جانے کی کوشش کی۔ ایان کے ہونٹوں سے بس ایک ہی لفظ نکل رہا تھا: "اللہ، اللہ۔” یہ اس کے آخری الفاظ تھے۔ اسپتال پہنچتے پہنچتے ایان نے دم توڑ دیا۔
جب اس کی ماں کو اس کی موت کی خبر ملی، تو وہ جیسے پتھر کی مورت بن گئی۔ جب اس نے اپنے لختِ جگر کی لاش کو دیکھا، تو آنسوؤں کے ساتھ بس اتنا کہا کہ تو کہہ رہا تھا کہ مجھے چھوڑ کر نہیں جائے گا، لیکن تو بھی چلا گیا۔ میں جلد تیرے پاس آ رہی ہوں، تو فکر نہ کر۔”
ایان کی موت صرف ایک فرد کا نقصان نہیں تھی؛ یہ سنبھل کے ان حالات کی عکاسی کرتی تھی، جہاں نفرت اور تشدد نے معصوم زندگیاں چھین لیں۔ ایان کے خواب، جو اپنی ماں کے لیے ایک بہتر مستقبل بنانے کے تھے، ان گولیوں کے شور میں دفن ہو گئے۔
سنبھل کے گلی کوچے اس المیے کی گواہی دے رہے تھے، اور ہر دل اس سوال میں ڈوبا ہوا تھا: "آخر یہ نفرت کب ختم ہوگی؟” ایان جیسے نوجوان، جو اپنے خاندانوں کے لیے روشنی کی کرن ہیں، کب تک اس نفرت کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے؟