مضامین

اے ایمان والو! اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو

رسول اللہؐ کے احترام میں کمی کے معنی خدا کے احترام میں کمی کے ہیں

مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی

سینئرکالم نگار و آزاد صحافی۔ حیدرآباد

یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس کے دل میں احترام نبیؐ نہ ہو وہ دل احترام خدائے تعالیٰ سے بھی خالی ہے۔ آدمی چاہے جتنا اپنے کو پاکباز سمجھے، لیکن اگر اس کے اندر کسی بھی طرح کی بے ادبی و بے احترامی کی کیفیت پائی جاتی ہو تو اس کی ساری پاکبازی اور نیک اعمال کا جو کچھ ذخیرہ کیا تھا وہ سب کا سب اکارت ہوجائے گا۔

چنانچہ اسلام میں ذات نبیؐ کے ادب و احترام کو اللہ تعالیٰ کے احترام سے جوڑ کر اہل ایمان کو یہ تعلیم دی گئی کہ نبیؐ کے ساتھ تمہارا کس طرح کا عمل ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں فرمان باری تعالیٰ یوں ہوا:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔(سورۃ الحجرات:۲، ترجمانی از سید مودودیؒ)

آیت مذکورہ بالا کے ذریعہ اہل ایمان کو اس بات کی تاکید فرما دی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کے معاملہ میں ہمیشہ چوکنا رہنا چاہیے، اگر اس میں ذرا سی بھی کمی ہوجائے تو زندگی بھر کی (اعمال صالحات کی) پونجی برباد و تاراج ہوجائے اور تم کو اس کی خبر بھی نہ ہو۔

یہ ایک اہم حکم خداوندی ہے ، جس میں حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و احترام اور آپ کا مقام بلند بیان کیا گیا اور سارے مسلمانوں کو یہ تاکیدی حکم دیا گیا کہ اپنی آواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے ہرگز بلند نہ کرنا!۔

محترم قارئین کرام! یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ اسی سورہ کی آیت نمبر ایک میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ دیکھو نبیؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو، یعنی کسی بھی معاملہ میں نبیؐ کو ارشاد فرمانے سے پہلے آگے بڑھ کر اپنے سے کچھ رائے دینے کی کوشش ہرگز نہ کرنا، یہاں پر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہ سورۃ الحجرات مدنی سورتوں میں شامل ہے اور وہ بھی مدنی دور کے آخر میں اس کا نزول ہوا اور دوسری طرف اسلام کو غلبہ حاصل ہوچکا تھا اور لوگ جوق در جوق قبیلے کے قبیلے اسلام کی پناہ میں آرہے تھے۔ اس طرح یہ دور نئے مسلمانوں کی تربیت کا زمانہ تھا، لیکن جو لوگ ابھی آپؐ کی اصل قدر و منزلت سے واقف نہ تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ گویا یہ اسلام قبول کرکے نبیؐ پر کچھ احسان کررہے ہیں۔

اس سلسلہ میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ اپنی تفسیر تدبر قرآن میں اس آیت کی تشریح فرماتے ہوئے یوں تحریر فرمایا:

’’یہ اسی اوپر والی بات کے ایک دوسرے پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ جن لوگوں کے اندر یہ خناس سمایا ہوا ہو کہ وہ اللہ و رسول کو مشورہ دینے کی پوزیشن میں ہیں یا جن کو یہ زعم ہو کہ ان کا اسلام قبول کرلینا اسلام اور پیغمبرؐ پر ایک احسان ہے۔ ان طرز خطاب اور انداز کلام رسول کے آگے متواضعانہ و نیازمندانہ نہیں ہوسکتا تھا بلکہ ان کے اس پندار کا اثر ان کی گفتگو سے نمایاں ہونا ایک امر فطری تھا‘‘۔ (تدبر قرآن: ۴؍۴۸۸)

مزید اس میں یہ حکم بھی دیا گیا کہ جب بھی نبیؐ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوجائے تو اونچی آواز سے بات نہ کی جائے بلکہ یہ بات ہر وقت ملحوظ رکھی جائے کہ عام لوگوں سے گفتگو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی جانے والی گفتگو میں بہت بڑا فرق ہے، اس آیت کریمہ کے ذریعہ ان لوگوں کو جو ابھی تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام اور مقام بلند سے ناواقف تھے یہ بتلا دیا گیا کہ اب بارگاہ نبویؐ میں جو بھی بے احترامی کا رویہ اختیار کرے، اسے اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے جس کی وجہ سے زندگی بھر کے سارے اعمال غارت ہوسکتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جو لوگ نبی پاکؐ کا احترام کرتے ہیں وہ دراصل اللہ تبارک و تعالیٰ کا ادب و احترام بجا لاتے ہیں۔

اسلام قبول کرکے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ پر احسان جتانے والے نومسلموں اور اسلامی آداب و تہذیب سے ناآشنا مسلمانوں کو نبیؐ کے مقام بلند کی اہمیت بتلاتے ہوئے، ان لوگوں کی تعریف بیان کی گئی جنہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنے میں اپنی آواز کو پست رکھتے ہیں۔فرمایا:

إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّونَ أَصْوَاتَہُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّہِ أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَی لَہُم مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ عَظِیْمٌ

’’جو لوگ رسولِ خداؐ کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے۔ ان کے لئے مغفرت ہے اور اجر عظیم‘‘ (ترجمانی آیت ۳ سورۃ الحجرات)

یعنی جو لوگ اپنے اندر تقویٰ رکھتے ہیں اس کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں، جس کے بدلے میں اللہ ان پر اس طرح مہربان ہوتا ہے کہ ان کی مغفرت فرما دیتا ہے اور اجر عظیم کا مستحق بھی بنا دیتا ہے۔

مولانا مودودیؒ نے اس کی جامع تشریح فرمائی جو دلنشین و عام فہم ہے۔ وہ یوں رقمطراز ہوئے:

’’یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں میں پورے اترتے ہیں اور ان آزمائشوں سے گزر کر جنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے دلوں میں فی الواقع تقویٰ موجود ہے وہی لوگ اللہ کے رسولؐ کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں‘‘۔

اس ارشاد سے خودبخود یہ بات نکلتی ہے کہ جو دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام سے خالی ہے وہ درحقیقت تقویٰ سے خالی ہے اور رسولؐ کے مقابلے میں کسی کی آواز کا بلند ہونا محض ایک ظاہری بدتہذیبی ہے، بلکہ باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے۔ (تفہیم القرآن‘ سورۃ الحجرات: ۳، حاشیہ۵)

قارئین کرام! سورۃ الحجرات کے آغاز میں پہلی تعلیم یہ دی گئی کہ نبیؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو، دوسری تعلیم دیتے ہوئے یہ ادب سکھلایا گیا کہ نبیؐ سے بات کرنے میں اپنی آواز کو پست رکھا جائے، اس طرح جو لوگ اس ادب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس پر عمل کرتے ہیں وہ اللہ کے پسندیدہ بندے بن جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماتا اور اجر عظیم سے نوازتا ہے۔

اب ایک تیسرا حکم دیتے ہوئے مسلمانوں کو نبیؐ سے ملاقات کرنا مقصود ہو تو کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اس کے بابت تہذیب سکھلائی جارہی ہے۔ فرمایا:

إِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُونَکَ مِن وَرَاء الْحُجُرَاتِ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ

’’اے نبیؐ جو لوگ تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں‘‘ (ترجمانی سورۃ الحجرات: ۴)

اور مزید یہ بھی نصیحت فرمائی کہ

وَلَوْ أَنَّہُمْ صَبَرُوا حَتَّی تَخْرُجَ إِلَیْْہِمْ لَکَانَ خَیْْراً لَّہُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ

’’اگر وہ تمہارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو انہی کے لئے بہتر تھا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ (ترجمانی آیت: ۵)

خلاصہ کلام یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ملاقات کا شرف حاصل کرنا ہوتو کس طرح کا عمل ہونا چاہیے، اس کی ہدایت دی گئی، اور اس بات سے منع فرما دیا گیا کہ آپؐ سے ملاقات کرنا مقصود ہو تو آپ کے حجرات پر جاکر بے ڈھنگے انداز میں نہ پکارو بلکہ آپؐ کے باہر تشریف لانے تک صبر کرو، غرض یہ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام اور آپ کی اپنی ذاتی مشغولیات کا پاس و خیال نہ رکھنا یہ بے عقلی کی بات ہے اور جو لوگ آپؐ کے برآمد ہونے تک انتظار کرتے، صبر کا مظاہرہ کرتے تو ان ہی کے حق میں بہتر تھا۔

یہاں پر ایک بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ آپ کی صحبت میں رہ کر تعلیم حاصل کرچکے وہ تو بہت ہی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے تھے۔ یعنی آپؐ کی مصروفیات اور آپؐ کے شب و روز کی مشغولیات سے پوری طرح واقف تھے اور اسی کے عین مطابق عمل کرتے تھے، لیکن جو لوگ دور دراز مقامات سے آتے (جن کی ابھی تربیت باقی تھی) یہ تو آتے ہی ازواج مطہرات کے حجروں کا چکر کاٹتے ہوئے باہر ہی سے محمدؐ کو پکارتے پھرتے تھے، جس کی وجہ سے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچتی تھی، لیکن آپؐ اپنے طبعی حلم کی وجہ سے اسے برداشت فرمایا کرتے۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ کے محبوب بندے اور اس کے رسول ہیں۔ لہٰذا اپنے محبوب کی اس کیفیت کو دور فرمانے کے لئے اللہ نے یہ حکم دے دیا کہ خبردار اس طرح کی کوئی حرکت آگے نہیں ہونی چاہیے، اور یاد رکھو بے علمی میں جو ہوچکا سو ہوچکا، تم سے درگزر کا معاملہ کیا جاتا ہے۔

مولانا حافظ صلاح الدین یوسفؒ نے اس آیت کی تفسیر مختصر طور پر یوں فرمائی:

’’یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں (گنوار قسم کے لوگوں) کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ایک روز دوپہر کے وقت جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیلولہ کا وقت تھا، حجرے سے باہر کھڑے ہوکر عامیانہ انداز میں ’’یامحمد یا محمد‘‘ کی آوازیں لگائیں تاکہ آپؐ باہر تشریف لے آئیں (مسند احمد: ۸۴۔۳۱۸) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی اکثریت بے عقل ہے، آپؐ کے آداب و احترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا، بے عقلی ہے (احسن البیان)

حضرت مولانا مفتی شفیع صاحبؒ اس کی تفسیر کرتے ہوئے آخر میں یوں رقمطراز ہوئے: ’’صحابہ و تابعین نے اپنے علماء و مشائخ کے ساتھ بھی اسی ادب کا استعمال کیا ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ جب میں کسی عالم صحابی سے کوئی حدیث دریافت کرنا چاہتا تھا تو ان کے مکان پر پہنچ کر ان کو آواز یا دروازہ پر دستک دینے سے پرہیز کرتا اور دروازہ کے باہر بیٹھ جاتا تھا کہ جب وہ خود ہی باہر تشریف لاویں گے اس وقت ملاقات کروں گا‘‘۔ (روح المعانی، معارف القرآن)

ایک اور مفسر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ یوں تحریر فرماتے ہیں:

’’جہاں عام طور پر لوگوں کو کسی شائستگی کی تربیت نہ ملی تھی، بار بار ایسے اَن گھڑ لوگ بھی آپؐ سے ملاقات کے لئے آجاتے تھے جن کا تصور یہ تھا کہ دعوت الیٰ اللہ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے کو کسی وقت بھی آرام لینے کا حق نہیں ہے، اور انہیں حق ہے کہ رات دن میں جب چاہیں اس کے پاس آدھمکیں اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی وہ آجائیں وہ ان سے ملنے کے لئے مستعد رہے۔ اس قماش کے لوگوں میں عموماً اور اطراف عرب سے آنے والوں میں خصوصاً بعض ایسے ناشائستہ لوگ بھی ہوتے تھے جو آپؐ سے ملاقات کے لئے آتے تو کسی خادم سے اندر اطلاع کرانے کی زحمت بھی نہ اٹھاتے تھے بلکہ ازواج مطہرات کے حجروں کا چکر کاٹ کر باہر ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتے پھرتے تھے‘‘۔

اس طرح کے متعدد واقعات احادیث میں صحابہ کرامؓ روایت کیے ہیں (تفہیم القرآن سورۃ الحجرات آیت:۵ حاشیہ ۶)

ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے غفور و رحیم ہونے کا ذکر یوں کیا: ’’چونکہ یہ لوگ آداب معاشرت سے ناآشنا ہیں اور یہ خلاف ادب حرکت وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے رہے ہیں، اس لئے اپنے گذشتہ طرز عمل کے حوالے سے تو انہیں معافی کی توقع رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے۔ لیکن آئندہ کسی سے ایسی کوئی حرکت سرزد نہیں ہونی چاہیے۔ (بیان القرآن)

٭٭٭

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button