جنرل نیوز

یوم عرفہ؛ یومِ دعا ہے،خطیب و امام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نام پلی حیدراباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

( یومِ عرفہ ) یومِ دعا ہے،خطیب و امام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نام پلی حیدراباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب 

حیدرآباد 3جون (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ حضور پاک علیہِ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:’’دعا عین عبادت ہے۔‘‘ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’دعا پوری عبادت کا مغز اور نچوڑ ہے۔‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ دعا میں اللہ تعالیٰ کی طرف التفات ہے، بندہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے، اپنے دل و دماغ اور قلب و روح کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا اور اس کا منگتا بنتا ہے۔ منگتا بننا اصل تذلل، خشوع و خضوع اور بندگی کا حسن ہے۔ بندہ اللہ سے تب ہی مانگتا ہے جب خود کو بے بس اور بے کس سمجھتا ہے اور مولیٰ کو مالک و قادر اور دینے والا سمجھتا ہے۔درحقیقت دعا کے ذریعے بندے کا رشتہ اپنے مولیٰ سے قائم ہو رہا ہے۔ بندہ اس کی طرف متوجہ ہو کر مانگتا ہے کہ مولیٰ! میں بے بس ہوں، میرے اختیار میں کچھ نہیں، ہر شے تیرے ہاتھ میں ہے، تو مجھے عطا کر، تو میری مدد کر، تو مجھے ہدایت دے، تو مجھے ایمان، عملِ صالح کی توفیق، بخشش، رزق اور دنیا و آخرت کی نعمتیں عطا کر۔ بندہ جب اللہ تعالیٰ سے یہ سب کچھ مانگتا ہے تو گویا اس کیفیت میں بندہ اپنے مولیٰ کے ساتھ ایک تعلق استوار کر رہا ہے اور یہی تعلق قائم کرنا ہی عبادت ہے۔یقین، توکل، فرمانبرداری اور کامل ایمان کی مذکورہ شرائط کے ساتھ اگر کوئی دعا کرے تو یہ دعا کرنا از خود عبادت کہلاتا ہے۔قبولیت و آدابِ دعا سے متعلق پہلی شرط اور ادب اللہ رب العزت کے فرمان ’’فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘ میں مذکور ہے کہ وہ ذات ہمہ وقت ہمارے قریب ہے۔ گویا بندے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلا ادب یہ سکھایا کہ بندہ اس یقین کو پختہ کر لے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے دور نہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے دور نہیں ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ہمارے اتنے قریب ہے کہ اسے ہماری ہر حاجت و ضرورت کا علم ہے، ہمارے نفع و نقصان کو ہم سے بھی بہتر جانتا ہے اور ہماری ہر مشکل کو آسان کرنے پر قادر بھی ہے۔ اُس کے قریب ہونے کا یقین بندے کے دل و دماغ میں راسخ ہونا دعا کا پہلا ادب ہے جو قرآن مجید ہمیں سکھا رہا ہے۔کوئی شخص یہ نہیں مانے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کو خود سے دور سمجھتا ہوں، ہر کوئی کہتا ہے کہ ہاں میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے قریب ہے مگر صرف زبان سے کہنے سے بات نہیں بنتی بلکہ بندے کا شعور، دماغ، فکر، سوچ اور ادراک ہر چیز اس بات کا کامل یقین کرے کہ اللہ تعالیٰ میرے قریب ہے۔ گویا وہ اپنے شعور کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کی قربت کا مشاہدہ کر رہا ہے، اس کا دل و دماغ اللہ تعالیٰ کی قربت کے آثار کو دیکھ رہا ہے اور اس کے قلب و روح کی کیفیات میں احساس ہو کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے اور اللہ تعالیٰ بندے کے قریب ہے۔ یعنی یہ علم حقیقی احساس اور مکمل ادراک بن جائے کہ وہ مجھ سے اور میں اس سے دور نہیں ہوں۔اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے احساس کی دلیل یہ ہے کہ وہ بندہ پھر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔ مثلاً: ایک بچہ یا بہن بھائی اپنے ماں باپ کی موجودگی کے احساس کی وجہ سے شرارتیں اور لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔ اسی طرح سزا دینے پر قادر حاکم یا نگران کی موجودگی میں کوئی آدمی قانون نہیں توڑے گا۔ یورپی اور ترقی یافتہ ممالک میں سپیڈ چیک کرنے والے کیمروں کی موجودگی اور جرمانہ کے ڈر کے احساس کی وجہ سے کوئی بھی شخص قانون شکنی نہیں کرتا۔ اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ قانون کا شکنجہ اس کے قریب ہے اور وہ کسی چھوٹی سی غلطی پر بھی اس کی گرفت میں آجائے گا۔مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری یوم عرفہ کی فضیلت پرروشنی ڈالتے ہوئے بتلایا کہ 9 ذی الحج کو یوم عرفہ کہتے ہیں غیر حاجی کے لیے اس دن روزے کی فضیلت ہے میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنا منع ہے اور دوسری جگہوں میں اس دن روزہ رکھنا کار ثواب ہے اور عیدین میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔

حضرت جابر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ کے نزدیک یومِ عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن بھی فضیلت والا نہیں ہے۔ اس دن الله تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے اور اہلِ زمین کے ساتھ اہلِ آسمان پر فخر فرماتا ہے۔ وہ فرماتا ہے: میرے ان بندوں کی طرف دیکھو جو بکھرے بالوں کے ساتھ، گرد و غبار سے اٹے ہوئے، دھوپ کی تمازت سہتے دور دراز کے راستوں سے آئے ہیں۔ وہ میری رحمت کی امید رکھتے ہیں اور انہوں نے میرے عذاب کو نہیں دیکھا۔ یومِ عرفہ سے زیادہ کسی اور دن لوگوں کو جہنم سے آزادی نہیں ہوتی۔

حضرت ابو قتادہ رضی الله عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے یوم عرفہ (نویں ذو الحجہ کے روزہ) کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: (یوم عرفہ کا روزہ) گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

 

 

امام ترمذی کی روایت کے الفاظ ہیں (کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا): یومِ عرفہ کے روزہ کے متعلق مجھے الله تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اسے گزشتہ اور آئندہ سال( کی لغزشوں) کا کفارہ بنا دیتا ہے۔

 

 

حضرت قتادہ بن نعمان رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص یومِ عرفہ کا روزہ رکھتا ہے اس کے پچھلے سال کے اور آنے والے سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

 

اِسے امام ابن ماجہ، نسائی اور ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے۔حضرت سہل بن سعد رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جو شخص یوم عرفہ کا روزہ رکھتا ہے اس کے مسلسل دو سالوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

 

اِسے امام ابو یعلی ٰاور طبرانی نے روایت کیا

( یومِ عرفہ ) یومِ دعا ہے

 

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ( یومِ عرفہ کو ) شام تک قرآن پڑھتا رہونگا،

نہیں، نہیں قرآن کریم، صحیح ہے اور افضل ہے مگر یومِ عرفہ کا دن یومِ دعا ہے

 

اگر کوئی شخص کہے کہ میں سارا دن نماز ( نوافل ) پڑھتا رہونگا

نہیں نہیں – یومِ عرفہ، یومِ دعا ہے

 

اگر ایک شخص یہاکہے کہ میں مغرب تک حجاج کو پانی پلاؤنگا صدقہ کرونگا،

نہیں نہیں یہ عرفہ کا دن یومِ دعا ہے

 

یومِ عرفہ صرف آپ کےلئے ہے کسی دوسرے کےلئے نہیں ہے

 

آج کا دن آپکے اور اللہ کے درمیان ( دعاؤں اور مناجات کا دن ) ہے

 

اپنے غم پریشانیاں احوال تکالیف اللہ تعالیٰ کو بتائیں آپکا رب غنی ہے

 

جب الله کسی کو کچھ عطاء کرنے کا ارادہ کرے تو اس کی ( عطاء ) کو کوئی روک نہیں سکتا

 

آپکا رب بخشنے والا ہے ہے جب وہ کسی کی مغفرت کرنا چاہے تو کوئی اسی سے پوچھنے والا نہیں ہے

اگر وہ ( اللہ ) آپ کے ساتھ احسان، شفاء، رحمت والا معاملہ فرمانا چاہے تو کوئی بھی اس کو روک نہیں سکتا

تمہارا رب ( اللہ تعالیٰ) بہت عظمت والا ہے عطا فرمانے والا ہے آخر میں مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے کہاکہ قبولیتِ دعا کی یہ شرائط انفرادی، قومی، اجتماعی اور معاشرتی اعتبار سے ہیں۔ ان شرائط کا تعلق وقتِ دعا سے بھی ہے اور پوری زندگی کے معاملات و معمولات سے بھی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں دعا کی حقیقت، اس کا سچا معنٰی و مفہوم سمجھنے کی توفیق دے اور ہمارے حال پر کرم فرمائے، ہمیں ہمہ وقت اپنی بندگی، تابعداری، فرمانبرداری اور وفاداری میں رکھے۔ آمین بجاہِ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

متعلقہ خبریں

Back to top button