مضامین

ووٹنگ کی اہمیت

نصرت شکیل

ایک جمہوری ملک میں ووٹ دینے کا حق بنیادی حقوق میں سے ایک ہے۔ (Universal declaration of human rights(1948 اور شہری و سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے کے تحت (1966) اسے بنیادی انسانی حقوق میں رکھا گیا ہے اور ساتھ ہی اس کے تحفظ کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ دستور ہند میں آرٹیکل 326 کے ماتحت ووٹرز کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے، ان حقوق میں ہر شہری جس کی عمر 18 سال یا اس سے زیادہ ہو اور کسی قانون کے تحت اسے دوسری صورت میں نا اہل قرار نہیں دیا گیا ہو، وہ کسی بھی الیکشن میں بطور ووٹر رجسٹر ہونے کا حقدار ہوگا۔ ایک جمہوری ملک میں ہرمنصب کا فیصلہ ووٹ سے کیا جاتا ہے ۔ کون حاکم بنےگا اور کون محکوم ؟ کون وزیراعظم بنےگا اور کون وزیراعلیٰ ؟ یہ تمام فیصلے ووٹ سے ہی کیے جاتے ہیں ۔

 

آپ کا ایک ایک ووٹ انتہائی اہميت کے حامل ہے ۔ ووٹ جمہوری معاشرے میں ایک طاقتور ترین غیر متشدد ہتھیار ہے۔ ووٹنگ کے ذریعے آپ اپنی حکومت پر ملکیت کا احساس پیدا کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی خاطر خواہ تبدیلی بھی لا سکتے ہیں۔ ووٹنگ افراد کو ملک، مقامی حلقے یا انتخابی امیدوار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی بھی اجازت دیتی ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا بالکل غلط نہیں ہے کہ دن بدن ووٹرز کی تعداد ہمارے ملک میں گھٹ رہی ہے، یا گھٹائی جا رہی ہے ،لوگوں کو حق انتخاب سے دور کیا جا رہا ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ لوگ خود دور ہوتے چلے جارہے ہیں، خصوصی طور پر ہماری مسلمان برادری۔

 

اس معاملے کو اتر پردیش کے لوک سبھا الیکشن سے سمجھا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2017 ءکے مقابلے میں 2022 ءمیں اتر پردیش میں لوک سبھا کے چناؤ کے دوران ووٹرز کی تعداد میں قریب تین فی صدکی کمی آئی ہے،جبکہ پورے اتر پردیش میں نوجوان ووٹرز کی تعداد لگ بھگ تین گنا بڑھی ہے۔ اس لاپرواہی پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ ووٹ دینے جائیں تو اس دن کی چھٹی کرنی پڑتی ہے، جس سے پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے اور اس دن کی مزدوری بھی نہیں مل پاتی، جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی نیتا اس لائق نہیں ہے کہ اس کو ووٹ دے کر کرسی پر بٹھایا جائے ،جیتنے کے بعد وہ اپنی گاڑیوں میں گھومیں گے اور ہمیں پوچھنے والا کوئی بھی نہ ہوگا۔

 

ایک بڑی وجہ ووٹ نہ دینے کی یہ بھی ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنے شہر یا گاؤں سے باہر رہتے ہیں، ساتھ ہی ووٹنگ کو لے کر ان کے اندر کسی طرح کی بیداری نہیں ہوتی۔ ایک ڈیٹا کے مطابق قریب ڈھائی فی صد لوگ اپنے نیتا سے نا امید ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ ووٹ تبھی کریں گے جب انہیں کوئی ایسا نیتا ملے ،جو اپنی بات کا پکا ہو اور جیتنے پر اپنے وعدے سے نہ پھرے۔ جب لوگوں سے نوٹا (None of the above )کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ لوگوں کے بیچ اتحاد نہیں ہے اور اس طرح ان کا ووٹ خراب ہو جاتا ہے،حالانکہ یہ اعتراض بالکل بے بنیاد ہے۔آپ کا ایک ووٹ کس طرح ملک و قوم کی قسمت بدل کررکھ دیتاہے، اس کی ایک بڑی مثال ہندوستان کی قومی زبان کولے کر پیداہونے والا اختلاف اور پھراس کے فیصلےکا طریقہ ہے۔ تعمیر نیوز کے مطابق:

 

’’یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں تھی کہ اردو ہندوستان کی سب سے مقبول ترین اور شیریں زبان تھی ۔سڑک سے لے کر ایوان تک اور غریب کی جھونپڑی سے لے کر نوابوں اور مہاراجاؤں کے محلات تک اگر کسی زبان کی گونج تھی وہ اردوزبان تھی ۔ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈ ت جواہر لال نہرو نے خط وکتابت کے علاوہ اپنی شادی کا کارڈ بھی اردوزبان میں طبع کروایا تھا ، ڈاکٹر منموہن سنگھ اردوکے دل دادہ ہیں، لیکن جب آزادی کے بعد اس بات پر اختلاف پیدا ہوگیا کہ ہندوستان کی قومی زبان کیا ہوگی اردو یا ہندی ؟اتفاق اس بات پر ہوا کہ ووٹ کے ذریعہ اس کا فیصلہ ہوگا ،اور پھر صرف ایک ووٹ نے ہندی کے حق میں فیصلہ کردیا ۔صدر مجلس ڈاکٹر راجند پرساد خود مدرسہ کے تعلیم یافتہ اور اردوداں تھے، لیکن حالات کے زیر اثر ان کا ووٹ اردوکے حق میں نہیں گیا۔یہ اسی ایک ووٹ کا کرشمہ ہے کہ آج سب سے مقبول اور شیریں زبان ہونے کے باوجود اردو کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔‘‘

 

عموماً انسان ہر غلط چیز کو سیاست پر محمول کرتا نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے شریف النفس لوگ سیاست سے اپنے آپ کو الگ رکھنا پسند کرتے ہیں ۔ ایسا دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان ووٹنگ کی اہميت کو پس پشت ڈال کر اس میدان میں اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھنا پسند کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر میں رفتہ رفتہ ہم سے سیاسی شعور سلب ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے بھی Mass defranchise کی کوششیں عروج پر ہیں، آپ کا نام ووٹنگ لسٹ میں نہ آنا، نام کی اسپیلنگ غلط ہونا، ووٹر لسٹ میں جنس کی غلطی یا مکان تبدیل کرنے پر آپ کا الیکشن کمیشن کی طرف سے نام ہٹا دیا جانا عام ہے۔ اس صورت حال میں نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ دوسری اقلیت کو چند باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، جیسے:

 

-1 آدھار کارڈ، ووٹنگ کارڈ، شفٹنگ کارڈ کو بنائیے۔ اگر آپ کے پاس کارڈز ہیں تو ان میں اپنا نام اور باقی کی جانکاری چیک کیجیے۔

-2 الیکشن کے وقت جاری کی گئی ووٹنگ لسٹ میں اپنا نام اور دیگر تفصیلات چیک کیجیے ۔

-3 ہر چناؤ میں 100 فیصد ووٹ یقینی بنائے۔ ہندوستان میں مسلمان، عیسائی سکھ، پارسی، جین وغیرہ کی تعداد قریب 19.6 فی صد ہے، دلت لگ بھگ 16.5 فی صداور دیگر قبائلی لوگ 8.5 فی صد ہیں ،اگر ان میں سیکولر نچلے طبقے اور کچھ متوسط طبقوں کو شامل کر لیا جائے تو تعداد کل ملا کر 60 فی صد تک پہنچ سکتی ہے اور پھر آپ کا ووٹ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ آپ کس کو حکومت میں بٹھانا چاہتے ہیں اور کس کو گرانا چاہتے ہیں؟

انتخابات اور حکومت عوام کی، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ پتہ لگانا ہمارا فرض ہے کہ ہم غریبی کو کم کرنے، بزرگوں کی تعلیم، بنیادی سہولتوں، ماحولیاتی تحفظ ، زراعت اور یہاں تک کہ شہری ترقی جیسے مسائل پر کہاں کھڑے ہیں۔دنیا میں ابھی بھی کچھ ممالک ایسے ہیں، جہاں لوگ اپنی حکومت کا انتخاب نہیں کرسکتے ،کیونکہ ان کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہے۔ ووٹنگ ایک حق اور خصوصی استحقاق ہے جسے پانے کے لیےہمارے آبا واجداد نے لڑائی لڑی ہے۔ لوگوں کو صرف ناظرین بنے رہنے اور شکایت کرنے کے بجائے جمہوریت کی کامیابی کے لیے اس میں حصہ لینا ہو گا، کیونکہ اگر آپ اپنے مفادات کے لیے ووٹ نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟

 

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

متعلقہ خبریں

Back to top button