مضامین

مولانا ڈاکٹر محمد حسان ندویؒ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نوجوان عالم دین، آیوش میں برسرکار کامیاب طبیب، اچھے اناؤنسر، بہترین مقرر، قابل ذکر شاعر مولانا ڈاکٹر محمد حسان ندویؒ علیگ بن علامہ محمد عثمان (م۲۰۰۵) بن حافظ حبیب اللہ بن حافظ غریب اللہ یکم ستمبر ۲۰۲۲ئ؁ شب جمعہ ساڑھے آٹھ بجے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ جمعرات کو ساڑھے تین بجے سہ پہر سلطان گنج بھاگلپور ہوسپٹل سے لوٹ رہے تھے، ماچھی پور کے پاس ٹمپو کی ٹکر ہوئی آپ آگے بیٹھے ہوئے تھے، زخمی ہوئے، پیشاب کے راستے سے خون آنا شروع ہوا، یکے بعد دیگرے ایک ہوسپٹل دوسرے ہوسپٹل کو ریفر کرتا رہا، بالآخر سی ان ان ہوسپٹل میں بھرتی ہوئے، معلوم ہواکہ جو وقت مقررہ اللہ کی طرف سے تھا، وہ آگیا پھر چارۂ کار ہی کیا تھا، جنازہ بھاگل پور سے ان کے آبائی گاؤں ملنگا چک پتھنہ لایا گیا۔ جنازہ کی نماز دوسرے دن ان کے بہنوئی مولانا کلام الدین ندوی انچارج مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ندوۃ العلماء لکھنؤنے پڑھائی، سوگواروں کی بھیڑ اس قدر تھی کہ پتھنہ کی عید گاہ ناکافی ہوگئی تو گرہوتیا کے اسکول میدان میں بعد نماز عصرجنازہ کی نماز ہوئی اور پتھنہ کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، لاولد تھے، پس ماندگان میںاہلیہ ہیں جو خود بھی بی یو ایم ایس ڈاکٹر ہیں اور پروفیسر محمد سلیمان صاحب برہ پور بھاگل پور کی صاحب زادی ہیں ان کے علاوہ حقیقی اور علاتی ملاکر کل چھ بھائی اور پانچ بہن ہیں، مولاناــ‘ علامہ محمد عثمانؒ کی محل اولیٰ سے تھے،ان کی نانی ہال صالح پور بھاگل پورتھی اور ان کے نانا کا نام عبد الرشید تھا۔

مولانا محمد حسان ندوی علیگ کی پیدائش ۱۰؍دسمبر ۱۹۷۴ئ؁ کو ان کے آبائی محلہ ملنگا چک مقام و ڈاک خانہ پتھنہ، تھانہ گوراڈیہہ، ضلع بھاگلپور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مدرسہ اعزازیہ پتھنہ بھاگل پور میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ ضیاء العلوم میدان پور تکیہ رائے بریلی گئے اور وہاں ثانویہ تک کی تعلیم حاصل کی، عا لمیت کی تعلیم کے لیے ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا اور ۱۹۹۱ئ؁ میں فراغت حاصل کی، ندوۃ کے دوران قیام وہ درسی مصروفیات کے ساتھ بزم خطابت اور بزم سلیمانی میں بھی پابندی سے حصہ لیا کرتے تھے اور انعامات کے مستحق قرار پاتے تھے، دوسال کے وقفہ کے بعد انہوں نے علی گڑھ کا رخ کیا اور ۱۹۹۴ئ؁ میں بی یو ایم ایس میں داخلہ لیایہاں ان کا قیام حبیب ہوسٹل میں تھا انہوں نے رسالہ الحبیب کے مدیر کے فرائض بھی انجام دیے، اس زمانہ میں ان کایہ جملہ بہت مشہور ہواتھا کہ ’’علی گڑھ برادری ہوش و خرد کے ساتھ علاقائیت و عصبیت، رنگ و نسل اور ذات برادری کے سارے عفریتوں کا گلا گھونٹ کر ’’پیام سید‘‘ کو لے کر’’ شان سید‘‘ کے ساتھ اٹھے‘‘۲۰۰۲؁ء میں تکمیل طب اور انٹرنس شپ کرنے کے بعد وطن لوٹ آئے۔ ۲۰۰۸ئ؁ میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے، کمی نہ ان کے اندر تھی اور نہ اہلیہ میں، دو بچے ضائع ہوگئے پھر انہیں بچوں کی خوشی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔

مولانا مرحوم کو تقریر و خطابت کا ملکہ وراثت میں ملاتھا، ان کے والد علامہ محمد عثمانؒ اپنے وقت کے نامور خطیب تھے۔ مولانا نے خطابت کو مؤثر بنانے کے اسرار و رموز اپنے والد سے سیکھا اور اس میں بڑی حدتک وہ کامیاب تھے، وہ اچھے اناؤنسر بھی تھے، ۲۰۰۸ئ؁ میں جب میں مدرسہ اعزازیہ پتھنہ کے جلسے میں شریک ہوا تھا تو ان کی اناؤنسری دیکھ کر حیرت زدہ رہا کہ اس نوجوان کو اللہ نے کس قدرطلاقت لسانی دی ہے، ان کی تحریری صلاحیت بھی اچھی تھی، شاعری غضب کی کرتے تھے، میں نے ان کا لکھامرثیہ جو انہوں نے مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ امیر شریعت سابع پر لکھا تھاان کی زبانی سنا تھا۔ جس کا ایک شعر تھا ؎

پاسبان قوم تھا وہ وقت کا زندہ دلی :خانقا ہی پیر و مرشد زیبِ سجادہ نشین

ان کی غزل کا ایک شعر بھی یاد آگیا ؎

دست نازک میں بھی حسان آگیے تیر و تفنگ

آئے ان ہاتھوں میں پیمانہ اب ممکن نہیں

مولانا سے میری ملاقات دود ہائی کو محیط تھی، ان کے والد علامہ محمد عثمانؒ کی عیادت اور تعزیت کے لیے میری حاضری ان کے گھر ہوئی تھی، میں نے علامہ کے انتقال پر ایک مضمون بھی لکھا تھا جو انہوں نے پسند کیا تھا، بھاگل پور کی طرف کا جب بھی میرا رخ ہوتا اور دونوں کے وقت میں گنجائش ہوتی تو ملاقات کی شکل بن جاتی ورنہ فون پر بھی گفتگو ہوجایا کرتی۔

مولانا نے شادی کے بعد ۲۰۱۰ئ؁ میں آیوش جوائن کرلیا، ابھی جب نئی و یکنسی آئی تھی اور اس کے لیے کونسلنگ ہوئی تھی تو مولانا پُرامید تھے کہ ان کی مستقل تقرری آیوش میںہوجائے گی، یہ یقین اس لیے ان کو تھاکہ سرکار نے ۲۵؍نمبر عارضی بحالی والوں کو اضافی دینے کا اعلان کیا تھا، نئے لوگ اس نمبر کو حاصل نہیں کرسکتے تھے، اس لیے عارضی بحالی والوں کے استقلال میںکوئی چیز مانع نہیں تھی۔

مولانامزاجاً انتہائی شریف، صالح،باوقار، ذہانت وفطانت میں ممتاز انسان تھے ان کی خوش دلی، خوش خلقی اور ضیافت کے ان کے مخالفین بھی قائل تھے۔ اس کم عمری میں ان کا دنیا کو الوداع کہنا ان کے متعلقین، مخلصین اور احباب کے لیے انتہائی افسوسناک ؛بلکہ جان کاہ خبر ہے۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور سب کو صبر عطا فرمائے آمین۔ حقیقت یہ ہے کہ

مصائب اور تھے پر’’اس‘‘ کا جانا

عجیب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے

 

متعلقہ خبریں

Back to top button