مضامین

ڈاکٹر بی ایچ خان 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مشہور ہڈی معالج (آرتھو پیڈک سرجن) جامع مسجد گیا،کانگریس میڈیکل سیل اور بہار مسلم انٹلکچوئل فارم کے سابق صدر ڈاکٹر بدر ہدیٰ خان ساکن قابل پور مرچا ضلع ویشالی کا ان کی رہائش گاہ بورنگ روڈ پٹنہ میں 23 دسمبر 2022ءمطابق 28 جمادی الاولیٰ 144ھ بوقت صبح بروز جمعہ انتقال ہو گیا، وہ زمانہ دراز سے شریف کالونی پٹنہ میں مقیم تھے، حال ہی میں وہ اپنا مستقر تبدیل کرکے بورنگ کنال روڈ منتقل ہو ئے تھے، اس نئے مکان میں گِرجانے کی وجہ سے ان کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، انہیں پارس اسپتال منتقل کیا گیا، علاج کے بعد وہ اپنے گھر واپس آگیے تھے، مگر وقت موعود آگیا تھا، اس لیے جاں بر نہ ہو سکے، جنازہ ان کے آبائی گاؤں قابل پور سرائے ویشالی لے جایا گیا، جہاں 24 دسمبر 2022ءکو بعد نماز عصر ان کے جنازہ کی نماز حافظ ابو الکلام صاحب ساکن فتح آباد ، سرائے ویشالی نے پڑھائی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، کم وبیش ایک ہزار لوگ جنازہ میں موجود تھے، جن میں پٹنہ، گیا ، مظفر پور اور مقامی حضرات کی بڑی تعداد موجود تھی، ان میں علماء، صلحاء، صحافی اور دانشور حضرات بھی شامل تھے، زندگی میں انہوں نے اپنی آخری آرم گاہ کی جگہ کی تعیین کر دی تھی، اسی جگہ سپرد خاک ہوئے۔ ان کی دو شادی تھی، پس ماندگان میں محل اولیٰ سے تین بیٹے دو بیٹیاں اور محل ثانی سے تین بیٹے ہیں، سبھی بر سر روزگار ہیں۔

ڈاکٹر بی ایچ خان ابن محمد ناظم خان کی ولادت 21 جون 1936ءکو قابل پور مرچا ، سرائے موجودہ ضلع ویشالی میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مقامی ہائی اسکول سرائے سے پائی، میڈیکل سائنس میں وہ ایم بی بی اس ، ایم ایس (آرتھو) ایف آئی سی ایس ، اے او ایف تھے، وہ زمانہ دراز تک سعودی عرب میں خدمات انجام دیتے رہے، وہاں سے لوٹنے کے بعد انہوں نے پٹنہ شریف کالونی میں رہائش اختیار کی، اور یہاں ڈاکٹر خان مکہ آرتھو پیڈک سنٹر اینڈ ریسرچ انسٹی چیوٹ کے نام سے پرائیوٹ کلنک شروع کیا، گیا ان کی سسرال تھی اس لیے وہاں بھی مریضوں کو دیکھا کرتے تھے، ان کا میدان عمل پٹنہ اور گیا تھا، وہ دونوں جگہ سیاسی اور سماجی کاموں میں اپنی حصہ داری نبھاتے تھے، گیا میں انہوں نے خواجہ غریب نوازفٹ بال ٹورنا منٹ کا انعقاد کیا تھا، جس میں ملک بھر کی چنندہ ٹیموں نے حصہ لیا تھا، انہوں نے گیا کی جامع مسجد کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، وہ زمانہ تک کانگریس میڈیکل سیل کے صدر بھی رہے، ان دنوں ان کی سیاسی وابستگی جدیو سے تھی اور وہ نتیش کمار کے انتہائی قریبی سمجھے جاتے تھے۔

ڈاکٹر بی ایچ خان نے مذہبی مزاج پایا تھا، عہد شباب مکہ کی پاک سر زمین پر گذارا تھا، اس لیے ان کی فکر وخیال کا رخ راست تھا، وہ حج کے موقع سے مختلف اخبارات میں حج کی فضیلت واہمیت اور ارکان کی ادائیگی کے موضوعات پر مختصر مضامین لکھتے اور شائع کراتے تھے، ان کا دستر خوان وسیع تھا، مہمان نوازی ان کی سرشت کا حصہ تھاجو رمضان المبارک میں افطار پارٹی اور یوم عید کو عید ملن پارٹی میں بدل جاتا ان کی مجلسوں میں سیاسی ، سماجی ، مذہبی اور صحافی حضرات کی کثرت ہوتی ، وہ امارت شرعیہ اور دیگر ملی تنظیموں سے قریب تھے، حسب توفیق وسہولت ہر ایک کے کام آتے، ان کی شناخت سماج میں ملن سار، خوش اخلاق ، غریب پرور اور دوسروں کے کام آنے والے شخص کی تھی، اس کے باوجود وہ عام انسان تھے اور انسانوں کے تمام فیصلے صحیح ہوں، ایسا نہیں کہا جا سکتا ، غلطیاں ہر ایک سے ہوتی ہیں، سماج کے لوگ اپنے تعلقات کی نوعیت سے رائے قائم کرتے ہیں، اس لیے ڈاکٹر بی ایچ خان سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی، لیکن ہمیں تو مرنے والوں کے محاسن بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے سیاٰت کو حسنات سے بدل دینے کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے، اس خالق ومالک کو جو ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے، کسی حوالے اور بہانے کی ضرورت ہی کب ہے ، وہ ہر چیز پر قادر ہے، غفار بھی ہے اور ستار بھی۔

ڈاکٹر بی ایچ خان زمیندار گھرانے کے چشم وچراغ تھے، پٹنہ اور گیا میں جاری سر گرمیوں کے ساتھ وہ اپنے آبائی گاؤں قابل پور، سرائے میں بھی سماجی اور ملی کاموں کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے، انہوں نے اپنی زمین میں ایک معیاری اسکول آکسفورڈ انٹرنیشنل اسکول کے نام سے قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، اس کے لیے ایک بار وہ ماہرین تعلیم کو لے کر گاؤں گیے بھی تھے، زمین کی پیمائش وغیرہ بھی ہو گئی تھی، لیکن کام آگے نہیں بڑھ سکا، انہوں نے اپنے عالیشان مکان کے احاطہ میں ایک مسجد بھی بنوائی تھی ، ایک حافظ کو رکھ کر بنیادی دینی تعلیم اور مسجد کو آباد کرنے کا نظم کر رکھا تھا، امام اور معلم کا سارا نفقہ ان کے ذمہ تھا، میرے علم میں ہے کہ ایک امام نے تو پوری زندگی وہیں گذار دی، پوری زندگی گذارنے کی بات لکھ دینا تو آسان ہے، لیکن امامت میں یہ آسان نہیں ہوتا، زمینداروں کے کر وفر اور ان کی غلط صحیح ہدایتوں کو برداشت کر لینا آسان نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات امارت شرعیہ کے آنے کے بعد کی تھی ، حالاں کہ ان کے گاؤں میں میرا آنا جانا مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی کے دوران قیام ہی سے تھا، مجھے مذہبی تعلیم کے حصول کے لیے دار العلوم موء لے جانے والے اسی گاؤں کے مولانا خلیل الرحمن علیہ الرحمہ تھے، میرے والد نے کوئی پینتیس (35)سال آدرش ہائی اسکول سرائے میں گذارا، اسی گاؤں مرچا کے ریاض الحق خان مرحوم اس اسکول کے سکریٹری تھے، میں نے اپنا پہلا محراب بھی ان تعلقات کے نتیجہ میں قریب کے محلہ چک اوردوسری بار مرچاگڈھ میں سنایا تھا، ان تعلقات کی وجہ سے وہ مجھ سے واقف تھے، میری پہلی ملاقات امارت شرعیہ کے دفتر میں ہوئی ، جہاں وہ کسی کام سے آئے تھے، بعد میں قربت بڑھتی گئی، حج ہاوس بننے کے بعد جب دعائیہ مجلس کا آغاز ہوا تو وہ جھوم جھوم کر عازمین کو تلبیہ پڑھاتے، اور عربی لب ولہجہ کی نقل کرتے، جس سے خاص کیف وسرور پیدا ہوجاتا، اللّٰہ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین

 

متعلقہ خبریں

Back to top button