مضامین

پارلیمانی انتخابات۔۔۔ بی جے پی کے برے ایام۔۔۔؟ مسلم قیادت کو ختم کرنے میں کانگریس کی حصہ داری؟ 

محمد صمیم

،نظام آباد ، تلنگانہ 

ملک کے پارلیمانی انتخابات کے دو مراحل مکمل ہوچکے ہیں اور تیسرے مرحلہ کی رائے دہی 7 مئی کو منعقد ہوگی جس میں 12 ریاستوں میں 94 نشستوں میں امیدواروں کا انتخاب کیا جائے گا۔ انتخابی مراحل جیسے جیسے اگے بڑھتے جارہے ہیں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حکمراں جماعت اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے کئی حربہ استعمال کر رہی ہے پہلے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے قائدین پر بدعنوانی کے الزامات عائد کئے گئے اس کے بعد سی بی ائی اور ای ڈی و دیگر مرکزی ایجنسیوں کی جانب سے ان قائدین پر گھیرا تنگ کیا گیا کئی قائدین نے بی جے پی میں شامل ہو کر گنگا جل سے اشنان کر لیا جس سے ان پر لگی بدعنوانیاں صاف ہوگئیں اور حزبِ اختلاف کے جن قائدین نے بی جے پی میں شامل ہونے یا اتحادی بننے سے انکار کردیا انہیں جیلوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔ وزیراعظم نریندرمودی حزبِ اختلاف پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور تقریباً تمام حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو خاندانی پارٹیاں کہتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی حزبِ اختلاف کی جماعت بی جے پی کی اتحادی ہوجاتی ہے تب سیاسی اخلاقیات کو پرے رکھتے ہوئے اس اتحادی کے حق میں بیان بازی کرتے ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات کے مراحل مکمل ہوتے جارہے ہیں بی جے پی کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انتخابات سے عین قبل انتخابی بانڈز کا جن بوتل سے باہر اگیا۔

 

جس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی جماعت بی جے پی کا پول عوام کے سامنے کھل گیا۔ بادشاہ عوام کے سامنے ننگا ہوگیا۔ عوام چوکیدار کو چندا چور ، لٹیرا و رشوت خور سمجھ گئی۔ دس سالہ اقتدار میں عوام وزیراعظم و دیگر مرکزی بھاجپا کے قائدین کو سمجھ گئی کہ عوام کی فلاح و بہبود سے ان کا دور کابھی واسطہ نہیں ہے۔ مہنگائی اور بے روز گاری سے عوام کی زندگی اجیرن بن گئی ہے انتخابات میں یہ اہم موضوع بن گیا۔ لوگ مہنگائی کو کم کرنے اور روزگار کی ضمانت چاہتے ہیں۔ بھاجپا کا نعرہ "مودی کی گارنٹی” انتخابات میں کام نہیں کر رہا ہے۔ کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے مستقل جھوٹ و بڑبول پر عوام کا اعتماد صرف مجروح ہی نہیں بلکہ متزلزل ہوگیا۔ یہ نعرہ جملہ میں تبدیل ہوگیا۔ حزبِ اختلاف اپنی ریلیوں میں اس نعرہ کو مذاق بنا کر رکھ دیا۔ اس کے علاوہ مودی نے اب کی بار 400 پار کا نعرہ لگایا اور بھارتیہ جنتاپارٹی کے قائدین نے اس بار 400 پار کی وجہ بھی بتادی کہ دستور میں بنیادی ترامیم کرنا ہے اس لئے 400 نشست ضروری ہے حزبِ اختلاف نے اس کو انتخابات کا اہم موضوع بنادیا جس سے بھارتیہ جنتاپارٹی کی انتخابی مہم مزید کمزور ہوگئی۔ یس سی، یس ٹی کے علاوہ بی سی طبقہ کے بھی کان کھڑے ہوگئے اگر دستور ہی نہیں رہے گا

 

تب تحفظات بھی ختم ہوجائیں گے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ 80 کی دہائی کے بعد پہلی دفعہ بھاجپا کا مندر اور مسلم مخالف بیانیہ کام نہیں کر رہا ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے بعد اب انتخابات میں مندر مسجد موضوع نہیں رہا مسلم مخالف بیانیہ حقائق کے واضح ہوجانے کے بعد اتنا کام نہیں کر رہا ہے جیسے پہلے کام کیا کرتا تھا۔ لیکن بھاجپا کے تقریباً تمام ہی قائدین بشمول وزیراعظم کے مسلم مخالف بیانیہ کے چورن کی فروخت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عادت سے مجبور یہ قائدین اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ دوسرے اپنے بھگت لوگوں کو اسی دائرہ کے اندر انہیں رکھنا ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات گشت کر رہی ہے کہ پہلے دونوں مراحل میں انڈیا اتحاد بی جے پی و این ڈی اے سے بہت اگے ہے۔

تیسرے مرحلہ کی رائے دہی سے عین قبل بھارتیہ جنتاپارٹی کے انتخابی مہم کی اب رہی سہی کسر کرناٹک کے جنتادل سیکولر پارٹی کے رکن پارلیمان و سابق وزیر اعظم ایچ دیوے گوڑا کے پوتے و ہاسن کے پارلیمانی امیدوار پرجول ریوانا کے سیکس اسکینڈل نے تمام کردی۔ بتایا جاتا ہے کہ پرجول ریوانا کے قریب 3000 ہزار ویڈیوز مختلف خواتین جن میں گھر میں کام کرنے والی خواتین سے لے کر جنتادل سیکولر و دیگر سیاسی جماعتوں کے خواتین و عوامی نمائندے ، خواتین سرکاری ملازمین و دیگر خواتین کے ساتھ نازیبا ویڈیوز ہیں۔ ہاسن سے تعلق رکھنے والے بھارتیہ جنتاپارٹی کے مقامی قائد نے گذشتہ سال ڈسمبر میں ہی ریاستی و مرکزی قیادت کو خط لکھ کر بتا دیا تھا کہ پرجول ریوانا کے نازیبا ویڈیوز بڑی تعداد میں ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کے امکانات پر اثر پڑے گا لیکن اس خط کو پسِ پشت ڈال دیا گیا

 

گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اتحادی جنتادل سیکولر سے پرجول ریوانا واحد امیدوار تھے جنہیں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس لئے بی جے پی جنتادل سیکولر کے روایتی ووٹ بنک کو اپنے لئے کارآمد بنانے کے لئے پرجول ریوانا کے لئے مہم چلائی یہاں تک کے وزیراعظم نے بھی انہیں کامیاب بنانے کی اپیل کی اور یہاں تک کہا کہ پرجول ریوانا کو دیا جانے والا ووٹ انہیں مستحکم کرے گا۔ حزبِ اختلاف کے قائدین بلخصوص راہول گاندھی نے اس کو سیکس سکینڈل نہیں کہا بلکہ پرجول ریوانا 400 خواتین کی عصمت ریزی کی اور وزیر اعظم اس کے لئے ووٹ مانگتے رہے۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ اس کے تعلق سے سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود وزیراعظم نے پرجول ریوانا کے لئے ووٹ مانگا۔ راہول نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم ملک کی خواتین سے معافی مانگے۔ پرینکا بی جے پی پر تیکھا حملہ کر رہی ہے سابق میں بی جے پی کی ریاستوں میں کیا کچھ ہوتا رہا عوام کو یاد دلا رہی۔ پرجیول ریوانا کے سفارتی پاسپورٹ پر جرمنی فرار ہونے سے بی جے پی مزید پھنس گئی۔ کیونکہ حزبِ اختلاف یہ الزام لگا رہا ہے کہ ملزم کو ملک سے باہر بھیجنے میں بی جے پی اور مرکزی حکومت کا کردار ہے۔اس سیکس اسکنڈل کی وجہ سے بی جے پی پر بہت زیادہ منفی اثرات ہونے کے امکانات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ہاسن کے اس سیکس اسکینڈل کی متاثرہ خواتین مقامی ہے اس لئے کرناٹک کے تیسرے مرحلہ میں بی جے پی کی شکست واضح محسوس ہورہی ہے۔

 

کرناٹک کے علاوہ مہاراشٹر، بہار ، مغربی بنگال و دہلی میں بھاجپا مشکلات میں گھری نظر آرہی ہے۔ اس لئے بھاجپا کی جانب سے کانگریس کو نشانہ پر لیے لیا گیا۔ گذشتہ دس سالوں سے سوشل میڈیا پر مختلف جماعتوں کے قائدین کے خلاف جھوٹا پروپگنڈہ کرنے والی بی جے پی امیت شاہ کے ایک چھوٹے ویڈیو کلپ پر پریشان ہے اور اس پر وہ کانگریس کے کئی قائدین پر مقدمہ کرچکی ہے جس میں تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ بھی شامل ہے۔ حالات تو بھاجپا کے خراب ہے لیکن بقول راحت اندوری کے۔۔۔۔

لہو میں بھیگی ہوئی آستین جیت گئی

چناؤ ہار گئے سب مشین جیت گئی

 

بابری مسجد کے شہید کرنے کے بعد پارلیمان میں دو اراکین رکھنے والی بھارتیہ جنتاپارٹی 1992ء کے بعد تین مرتبہ مکمل پانچ سال حکومت کی اور ایک مرتبہ 18 ماہ سے زائد حکومت کی۔ بی جے پی کی حکومت میں انے کے بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں مسلم سیاسی قائدین کی قیادت کو محسوس و غیر محسوس طریقہ سے ختم کیا جاتا رہا ہے۔ بھاجپا تو کھلے عام کھتی رہی ہے کہ اس کو مسلم ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن اپنے اپ کو سیکولر کہنے والی جماعتوں کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے غلام نبی ازاد نے بغیر کسی حجاب کے کہا کہ انہیں کانگریس پارٹی کی انتخابی مہم سے اسی لئے روک دیا گیا کہ مسلم قائد کی انتخابی مہم سے ہندو ووٹ بنک متاثر ہوگا۔ کانگریس پارٹی نے اہستہ اہستہ انتخابی میدان سے مسلم امیدواروں کو کم سے کم ٹکٹ دینا شروع کیا اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ 27 فیصد سے زیادہ مسلم ابادی والے کیرلا میں 15 امیدواروں میں صرف ایک مسلم قائد کو کانگریس نے ٹکٹ دیا۔ کرناٹک میں 13 فیصد سے زائد مسلمان ہیں جہاں گذشتہ انتخابات میں مسلم رائے دہندگان نے یک طرفہ کانگریس کے حق میں رائے دہی کرتے ہوئے اقتدار حوالے کیا تھا وہاں 27 امیدواروں میں سے صرف ایک مسلم امیدوار کو انتخابی میدان میں اتارا۔ مہاراشٹر میں 12 فیصد مسلم ابادی ہے جہاں پر اترپردیش کے بعد سب سے زیادہ 48 پارلیمانی نشستیں ہیں لیکن کانگریس اور اس کے اتحادی این سی پی و شیوسینا (ادھے ٹھاکرے ) نے ایک بھی نشست کسی مسلم قائد کو نہیں دی۔ راجھستان میں 10 فیصد سے زائد ابادی رہنے کے باوجود ایک بھی ٹکٹ مسلم امیدوار کو نہیں دیا گیا۔ کرناٹکا کے بعد تلنگانہ میں کانگریس کو برسراقتدار لانے میں یہاں کے مسلم رائے دہندگان کا بہت اہم رول ہے جس کو تمام سیاسی جماعتیں تسلیم کرتی ہیں اسمبلی انتخابات کے دوران ہی بی ار یس کے کئی امیدواروں نے سابق وزیراعلیٰ کے سی ار کو اس بات سے اگاہ کردیا تھا کہ اب کی بار مسلم رائے دیندگان کے تیور بدلے ہوئے نظر ارہے ہیں جس سے پارٹی کے امکانات متاثر ہونگے اور نتائج نے بتادیا کہ تلنگانہ میں مسلم رائے دہندگان نے کانگریس کو ریاست میں اقتدار میں لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے 13 فیصد سے زائد ابادی والے طبقہ کو کانگریس نے مکمل نظرانداز کردیا 17 امیدواروں میں سے کسی بھی امیدوار کو ایسے علاقہ سے ٹکٹ نہیں دیا جہاں سے وہ جیت حاصل کرسکے۔ البتہ مسلم قیادت کو ختم کرنے کے لئے کانگریس نے حیدرآباد سے ایک مسلم امیدوار کو اسدالدین اویسی کے خلاف کھڑا کردیا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ حیدرآباد سے کانگریس انتخابی میدان میں ہے ہی نہیں۔ بلکہ مسلم رائے عامہ کو منقسم کرنے کے لئے اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی خاتون امیدوار کو کامیاب بنانے کے لئے کانگریس نے مسلم امیدوار کو کھڑا کیا۔ یہ سب جانتے ہیں کہ کس طرح میڈیا بی جے پی کی نووارد خاتون امیدوار کو اسدالدین اویسی کے خلاف کس طرح ابھار رہی ہے

 

ریاستی تلگو گودی میڈیا ہو کہ ہندی و انگریزی گودی میڈیا سب عوام کے سامنے یہ نقشہ پیش کر رہے ہیں کہ اصل مقابلہ اسد کا لتا سے ہے۔ اسام میں کانگریس نے بدرالدین اجمل کی قیادت ختم کرنے کے لئے بی جے پی سے زیادہ پرجوش ہے اور بدرالدین اجمل کو شکست دینے کے لئے وہاں پر بھی ایک طاقتور مسلم امیدوار کو کھڑا کیا۔ بی جے پی کی جیت سے کانگریس کو کوئی تکلیف نہیں لیکن وہاں سے مسلم قیادت کو ختم کرنا ہے اس لئے بدرالدین اجمل کے خلاف بھی مسلم امیدور۔ کانگریس کی عجیب سوچ ہے مسلم کے ووٹ تو چاہتی ہے لیکن ان کی قیادت نہیں چاہتی۔ یعنی تم قیادت نہ کرو بلکہ ہماری قیادت کو تسلیم کرو۔ اس کے لئے ازادی کے بعد سے اس نے بعض مذہبی گروہوں کو اپنا اسیر بنالیا اب تو دینی جماعت بھی اسی کی اسیر ہوچکی ہے۔ اب کانگریس کو سیاسی قائدین کی کیا ضرورت ہوگی جبکہ کہ رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام اسی طرح دینی و مذہبی جماعتوں سے چلالیا جائے گا۔ مذہبی و دینی جماعتیں بھی جمہور کی حاکمیت کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام ایسا کر رہے ہیں جیسے اقامت دین کا کام ہو۔ شاید اسی لئے کانگریس نے تلنگانہ میں کسی بھی مسلم وزیر کو نہیں رکھا راجیہ سبھا میں کسی مسلم قائد کو نہیں بھیجا اور نہ ہی کونسل رکن کے لئے کسی مسلم قائد کو نامزد کیا راحت اندوری نے بہت پہلے کہا تھا۔۔۔

فیصلے لمحات کے نسلوں پر بھاری ہوگئے

باپ حاکم تھا مگر بیٹے بھکاری ہوگئے

متعلقہ خبریں

Back to top button