مضامین

مرد طرحدار- مسعود جاوید ہاشمی علیہ الرحمہ  

مرد طرحدار- مسعود جاوید ہاشمی علیہ الرحمہ

 

ایک طویل عمرگزار کر حضرت مسعود جاوید ہاشمی صاحب رحمت الله علیہ ٢٢ جنوری ٢٠٢٣ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے. انکی رحلت ادارہ ادب اسلامی ہند کا بالخصوص اور اردوشعرو ادب کا بالعموم بڑا نقصان ہے.

آپ بلا مبالغہ حیدرآباد دکن کے ان نمائندہ شعرا میں سے ایک تھے جو نہ صرف ہند و پاک بلکہ عالمی سطح کے بلند پایہ اہل قلم میں شمار کئے جا سکتے ہیں. مرحوم ہاشم معزالدین صاحب المعروف مسعود جاوید ہاشمی حیدرآباد کے ان اہل علم میں سے ایک تھے جو ادب اسلامی کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر چکے تھے. ادارہ ادب اسلامی ہند کے بے لوث کارکن اور قائد. آپ ایک بلند پایہ مقرر، ادیب، شاعراور دانشورہونے کے ساتھ ساتھ ادب اسلامی کے نمائندہ صحافی بھی تھے کہ آپکی ادارت میں اک عرصہ تک ادارہ ادب اسلامی ہند کا ترجمان ماہنامہ فنکار حیدرآباد سے مالی مشکلات کے باوجود شائع ہوتا رہا جس میں ہند و پاک کے معتبر اہل قلم کی نگارشات شامل ہوتی تھیں. اردو اور اسلامی ادب کے قارئین کی تعداد میں مسلسل گراوٹ اور کمی کی وجہ سے ماہنامہ فنکارکی اشاعت جب ممکن ہی نہ رہی تو ہاشمی صاحب نے بچوں کا ماہنامہ فنکار نو کے نام سے اسکا دوبارہ اجرا کیا کہ کم از کم نئی نسل کی ذہنی تربیت کا سامان کر سکیں. وہ اپنی ان مذہبی اور تہذیبی روایتوں کی پاسداری کرنے والے پرعزم اہل علم وعمل میں سے تھے کہ جواپنےدورمیں تعمیری اوراصلاح احوال کی خاطرافراد سازی کی فکر کرتے ہیں. انکا اک شعر ہے:

 

عطا کیا ہے زمانے کو ہم نے عزم جواں

جہاں کو قوت مردان کار دی ہم نے

 

ادارہ ادب اسلامی ہند کی قیادت کرتے ہوۓ حیدرآباد دکن میں سبھی مکاتب فکر کے اہل قلم سے روابط رکھتے ہوۓ انہوں نے کئی دہائیوں تک یہاں کے شعرا اور ادبا کو ادب اسلامی کا ہمنوا بنایا، یا کم از کم مخالفت سے باز رکھنے میں کامیاب رہے. اور انکی دعوت پر ہر قسم کے شاعراور ادیب ادارہ کے مشاعروں میں شرکت کرتے رہے. کل ہند سطح کی کئی کامیاب تقریبات انہوں نے ادارہ کی جانب سے منعقد کیں اور خود بھی ادارہ کی نمایندگی کرتے ہوۓ حیدرآباد اور حیدرآباد سے باہرمختلف الخیال تنظیموں اور ادبی انجمنوں کے اجلاس اور مشاعروں میں شرکت کی.

وہ گویا اپنے اس شعرکا خود آپ مصداق تھے :

 

جگہ ہے دل میں سبھی کی یہ دل ہی ایسا ہے

جہاں کا درد ہے اس میں جگر ہی ایسا ہے

 

شعرو ادب میں صالح اقدارکوپروان چڑھانے کی یہ انتھک کوششیں یقیناً ہاشمی صاحب کے لئے فلاح آخرت کا ذریعہ ہونگی انشااللہ.

مسعود جاوید ہاشمی صاحب جتنے بڑے شاعرو ادیب تھے، انکا مقام کہ جسکے وہ مستحق تھے انہیں ملا نہیں. اسکی غالباً ایک وجہ تو انکا اپنا درویشاںہ مزاج تھا، نام و نمود سے وہ کوسوں دور رہتے تھے کہ شعرو شاعری انکے لئے صرف جدّت طبع کا سامان نہیں بلکہ انکی تحریک اسلامی سے وابستگی کا تقاضا اور انکے تحریکی پیغام کی ترسیل کا ایک ذریعہ تھا. برصغیرمیں ترقی پسند تحریک کے نعرہ ‘ادب براۓ ادب’ کے جواب میں ‘ادب براۓ زندگی’ کا نعرہ لگا کرتحریک ادب اسلامی نے جو مہم چلائی مسعود جاوید ہاشمی صاحب اسکے ہراول دستہ میں شامل تھے. فرماتے ہیں:

 

جاوید زندگی سے جہاں جب بھی کٹ گیا

سارا ادب براۓ ادب ہو کے رہ گیا

 

مرحوم حفیظ میرٹھی کو مخاطب کرتے ہوۓ جگن ناتھ آزاد نے کبھی کہا تھا کہ

 

مری شاعری ہےچھپی ہوئی مری زندگی کےحجاب میں

یہ حجاب اٹھے توعجب نہیں پڑے مجھ پہ بھی نگہہ وطن

 

یہی بات مسعود جاوید ہاشمی صاحب پر بھی صادق آتی ہے. وہ اپنی زندگی کے نصب العین کو اپنی شاعری کا بھی موضوع بناۓ ہوۓ تھے.اورانکی شاعری بھی اسی حجاب میں رہی. وہ جب اپنی ایک مشہورنظم پڑھتے تھے کہ

 

اۓ مرد طرحدار – ہونے کو ہے کچھ دیرمیں اب صبح نمودار

 

تو خود اپنی نظم کا آئینہ معلوم ہوتے تھے کہ الله نے انکے ظاہری سراپا میں بھی بڑی نورانیت رکھی تھی. اور وہ مرد طرحدار، مرد مومن، مرد یقین اور مرد مجاہد اپنی شاعری میں بھی جا بجا آشکار ہوتے ہیں. کہتے ہیں :

 

تلا ہوا ہے مرا نفس مارنے پہ مجھے

مجھے بھی نفس کو اپنے ہے مارنے کی ضد

 

انکی ایک اورغزل کے شعر ہیں :

 

ہزاروں لوگ وہ ہیں جنکا خوابوں پر بسیرا ہے

ہزاروں خواب وہ ہیں جنکی تعبیریں نہیں ہوتیں

 

بہت آزاد ہو کر بھی بہت پابند رہتے ہیں

ہمارے پاؤں میں محسوس زنجیریں نہیں ہوتیں

 

اور وہ اس راہ پر بغیر حرف شکایت زبان پر لاۓ مسلسل سرگرم سفر رہے. لکھتے ہیں :

 

نشاط و عیش کا راہ وفا میں نام نہیں

بس ایک جہد مسلسل ہے عمر بھر کے لئے

 

ہم کو آتا ہے حوادث سے نمٹنے میں مزا

اور ہونگے جنہیں آرام سے دلچسپی ہے

 

مسعود جاوید ہاشمی صاحب پیشہ کے اعتبارسے ایک انجنیئرتھے اورمحکمہ آبرسانی میں ایک عرصہ دراز تک خدمات انجام دیکر وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوۓ تھے. میرے والد مرحوم شیخ علی عازم صاحب سے پیشہ کی اسی نسبت کے علاوہ شعرو شاعری سے شغف کی وجہ سے انکی اچّھی دوستی تھی. اور اسی لئے جب والد صاحب مرحوم انکوکسی مشاعرہ کے لئے جگتیال آنے کی درخواست کرتے تو وہ ابولفاروق شعورصاحب، طاہرگلشن آبادی صاحب وغیرہ کو لیکر کئی گھنٹوں کا سفر کر کے آتے اورمشاعرہ کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے تھے. والد صاحب کے انتقال کے قریب بیس سال بعد جب میں نے انکی شاعری اور انکے احباب کا تذکرہ کتابی شکل میں "چراغ بزم”مرتب کیا تھا تومسعود جاوید ہاشمی صاحب نے اسکا پیش لفظ لکھنے کی درخواست پر فوراً وقت نکال کراسکا پیش لفظ تحریر فرمایا تھا اور اس کاوش پر مجھے دعاؤں سے نوازا تھا. والد صاحب مرحوم انکی پیشہ ورانہ مہارت اور تحریک سے انکے بے پایاں خلوص کے ضمن میں ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ جماعت اسلامی ہند کے چھٹے کل ہند اجتماع ١٩٨١ منعقدہ وادی ہدی میں بدخواہوں نے پانی کے ذخیرہ میں عین اجتماع سے قبل دراڈ ڈال دی تھی اور سارا پانی پہاڑیوں میں بہہ گیا تھا. مسعود جاوید ہاشمی صاحب جوآبرسانی کےانجنیئرتھے، فوراً عارضی پانی کے ذخیرے بناتے اور اپنے محکمہ جاتی تعلقات کوبروے کار لا کر مسلسل پانی کے ٹینک مںگاتے ہوۓ ہزاروں شرکائے اجتماع کے لئے پانی کا انتظام کچھ اس طرح کرتے رہے کہ منتظمین کے علاوہ کسی کو خبر یا احساس تک نہ ہوا کہ پانی کا کوئی مسئلہ بھی تھا. جماعت اسلامی ہند کےاسی کل ہنداجتماع وادی ہدی کا ایک یاد گاری مجلّہ سووینئر بھی مسعود جاوید ہاشمی صاحب ہی نے مرتب کیا تھا جو جماعت اسلامی ہند کی ایک اہم تاریخی دستاویز بھی ہے اور اپنے آپ میں ایک ادبی شہ پارہ بھی. پورے اجتماع کی روداد کچھ یوں مرتب کی تھی کہ قاری گویا ہر منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے. یہ انکی اعلی درجہ کی نثر اور زبان و بیان پر انکے عبور کا منہ بولتا ثبوت ہے.

حیدرآباد کے ایک بزرگ اور استاد شاعر حضرت روحی قادری مرحوم سے انہیں تلمذ حاصل تھا. اپنا پہلا مجموعہ کلام ‘دسترس’ منظرعام پرلانے میں انہوں نے بڑی دیرکی تھی.مگرپھر یکے بعد دیگرے ‘روشنی کے پھول’ اور دیگر کئی مجموعہ کلام شائع کرواۓ. ماہرالقادری مرحوم کے قائم کردہ ادارہ تعمیرادب کراچی کی دعوت پرجب مسعود جاوید ہاشمی صاحب کراچی گئے تھے تواسوقت جماعت اسلامی کراچی کے ادارہ منشورات کے سربراہ مسلم سجاد صاحب نے آناً فاناً انکا مجموعہ کلام ‘نقش ارزو’ کو زیورطباعت سے آراستہ کیا.اور یوں انکا ایک مجموعہ کلام پاکستان سے بھی شائع ہوا تھا. جسکی رسم اجرائی میں پروفیسرغفوراحمد علیہ الرحمہ، پروفیسرعنایت علی خان علیہ الرحمہ اور ممتاز صحافی اور موجودہ مدیرروزنامہ جسارت کراچی جناب شاہنواز فاروقی صاحب نے شرکت کی تھی اور مسعود جاوید ہاشمی صاحب کی فکر اور فن پر اظہارخیال فرمایا تھا.

اب انکے غیر مطبوعہ کلام کو، انکے پہلے سے شا ئع شدہ مجموعہ ہاۓ کلام کے ساتھ ملا کرادارہ ادب اسلامی ہند حیدرآباد کو کلیات مسعود جاوید ہاشمی شا ئع کرنا چاہیے کہ یہ ادب اسلامی کی بھی خدمت ہوگی اور مسعود جاوید ہاشمی صاحب کی یادگاراورادارہ ادب اسلامی ہند حیدرآباد کے ایک سنہری دور کی تاریخ بھی.

نئے تحریکی اہل قلم کو انکی یہ میراث آگے بڑھ کر سنبھالنا چاہیے کہ یہ نہ صرف اردو شعرو ادب کی خدمت ہوگی بلکہ یہ تحریک اسلامی ہند کی ادبی محاذ پر ایک ناگزیر ضرورت بھی ہے. اب مسعود جاوید ہاشمی صاحب کا یہ شعر انکی وصیت معلوم ہوتا ہے کہ :

 

کل خدا جانے ملےگی یہ سعادت کس کو

آج تک ہم نے چراغوں کو جلا رکھا ہے

 

الله بزرگ و برتر مسعود جاوید ہاشمی صاحب کو غریق رحمت کرے اور تحریک اسلامی کو اور ادارہ ادب اسلامی ہند کو انکا نعمل البدل عطا فرماۓ. آمین.

( ابراہیم علی حسن – کینیڈا)

متعلقہ خبریں

Back to top button