مضامین

ظفرپیامی کا تخلیقی سفر 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ڈاکٹر عطاء اللہ خان علوی (ولادت ۲۳؍ ستمبر ۱۹۵۵ئ) بن ڈاکٹر محمد آل حسن خان بن ڈاکٹر نور حسن خان ساکن سہسرام موجودہ ضلع رہتاس اپنے ادبی اور قلمی نام اے کے علوی سے جانے پہچانے جاتے ہیں، خاصے پڑھے لکھے آدمی ہیں ، انہوں نے ایم اے پی اچ ڈی کیا ہے ، پوری زندگی تعلیم کے فروغ میں لگادی اسکول سے صدر مدرس کے عہدہ سے سبکدوش ہیں، تعلیمی میدان میں قابل قدر خدمات کی وجہ سے محکمہ وزارت تعلیم حکومت ہند کا ایوارڈ بدست صدر جمہوریہ ہند کے آرنرائنن پا چکے ہیں۔ اہل علم کے درمیان اچھے صحافی ، با شعور تنقید نگار، جرأت مند صحافی اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے متعارف ہیں، سہسرام کی تہذیبی، ثقافتی ادبی سرگرمیوں کی جان ہیں، سرکاری ، غیر سرکاری مختلف محکموں اور اداروں کے رکن اور مختلف ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ہیں، سمینار ،مشاعرہ، کوی سمیلن، سماجی ، تعلیمی اور طبی خدمات میں شرکت ان کی روز مرہ زندگی کے اہم مشاغل ہیں، عمر عزیز کے چالیس سال انہیں کاموں میں صرف کر دیے آج بھی فعال ، متحرک اور ہر دم رواں؛ بلکہ کہیے کہ بڑھاپے میں جواں نظر آتے ہیں، خان برادری کے مختلف گاؤں میں ان کی رشتہ داری ہے ، جسے وہ نبھانے کی کوشش کرتے ہیں، خاندانی نسب وسلاسل کے بھی حافظ ہیں، ایک بار تحریک پیدا کر دیجئے اور پھر ان کی گل افشانیٔ گفتار سے محظوظ ہوتے رہیے۔

’’ظفر پیامی کا تخلیقی سفر‘‘ اے کے علوی کا تحقیقی مقالہ ہے جو انہوں نے ڈاکٹر اعجاز علی ارشد کی زیر نگرانی مکمل کیا اور پی اچ ڈی کی ڈگری پائی، اور اب مطبوعہ شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ، دو سو چوبیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت دو سو روپے ہے ، ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس دہلی سے چھپی ہے ، اس لیے طباعت صاف ستھری ، دیدہ زیب اور قلب ونظر کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی ہے ، آپ لینا چاہیں تو بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ سے حاصل کر سکتے ہیں، سہسرام علی گڈھ اور نئی دہلی کے مکتبوں پر بھی یہ کتاب دستیاب ہے ، کتاب اور بات دونوں کا لطف لینا چاہیں تو علوی ہاؤس ، ہاؤس نمبر (۱) وارڈ نمبر ۳۰، محلہ چوکھنڈی، سہسرام ضلع رہتاس بہار 821115سے 9304520864پر رابطہ کر سکتے ہیں، آپ کے اس رابطہ کا فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ کتاب مفت میں مل جائے ، گومفت حاصل کرنے والی لَت اچھی نہیں ہے ، خرید کر پڑھنے سے ہر دو کا فائدہ ہے، آپ رقم خرچ کرنے کی وجہ سے دلچسپی کے ساتھ پڑھ لیں گے نہیں پڑھیں گے تو محسوس ہوگا کہ رقم ضائع گئی اور مصنف کو خرچ کا کچھ حصہ مل جائے گا ۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر اعجاز علی ارشد کے نام ہے جو مولانا مظہر الحق عربی وفارسی پٹنہ کے سابق وائس چانسلر اور پٹنہ کالج کے سابق پرنسپل رہ چکے ہیں، اور جن کی زندگی مصنف کے لیے مشعل راہ کا کام کرتی رہی ہے ۔

پیش گفتار پروفیسر حسین الحق مرحوم سابق صدر شعبۂ اردوو فارسی مگدھ یونیورسیٹی بودھ گیا کا ہے ، جس میں ظفر پیامی کے تخلیقی سفر کی رودادکے ساتھ مصنف کے کام پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ، اپنی بات میں مصنف نے پوری کتاب کے مندرجات کا اجمالا ذکر کیاہے اور ظفر پیامی کی زندگی کے مختلف ادوار کو قلم کی زد میں رکھاہے ، رہنمائی، حوصلہ افزائی اور اعانت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا گیا ہے ، جن کی تعداد کم وبیش ڈیڑھ درجن ہے ۔

پی ایچ ڈی کے مقالہ میں مصنف کے عہد پر خصوصیت سے روشنی ڈالنے کی روایت رہی ہے ، سو اس کتاب کا اصل آغاز ظفر پیامی کے عہد اور ان کے حالات زندگی سے ہوا ہے ، ان دونوں مراحل سے نمٹنے کے بعد علوی صاحب نے ان کے تخلیقی سفر کا تعاقب شروع کیا ہے اور تخلیقی سفر کے آغاز کے بعد ظفر پیامی کی تخلیقات کا صحافی، افسانہ نگار، ناول نگار، سفرنامہ نگار کی حیثیت سے جائزہ پیش کیا ہے، ظفر پیامی کی دیگر ادبی سرگرمیاں بھی معرض بحث میں آئی ہیں، ظفر پیامی کی وفات، ان کی شخصیت کے اہم پہلو اور پھر پوری تحقیقی کا نچوڑ، ’’حرف آخر‘‘ کے عنوان سے پیش کر دیا ہے ، سوانحی کوائف اور فوٹو فیچر پروفائل مصنف کے ذاتی احوال وکوائف اور سر گرمیوں کا افشا ہے، اس طرح دیکھیں تو اصل کتاب صفحہ ۲۱۱ ؍پر مکمل ہوجاتی ہے۔

دیوان بریندر ناتھ ظفر پیامی (ولادت ۱۹۳۲، وفات ۱۰؍ دسمبر ۱۹۸۹ئ) کی شخصیت کثیر الجہات تھی، ایسے لوگوں پر تحقیق کرنا اور ان کی کثیر الجہات شخصیت کے در وبست کے تما م تقاضوں کو پورا کرنا آسان کام نہیں ہے، ڈاکٹر اے کے علوی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ظفر پیامی کے تخلیقی سفر کا معروضی مطالعہ پیش کیا ہے اور اس پیش کش میں انہوں نے انصاف سے کام لیا ہے ۔

یہ مقالہ آج کل کے تحقیقی مقالوں میں ممتاز ہے، زبان صاف اور گنجلک سے پاک ہے ، ظفر پیامی کے تخلیقی سفر کی روداد انہوں نے اس طرح بیان کی ہے کہ پڑھنے میں قاری کو اکتاہٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور آخر تک دلچسپی بر قرار رہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر حسین الحق نے ’’پیش گفتار‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ڈاکٹر علوی نے اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے ،ا سکے با وجود کہ علم وادب کی دنیا میں کوئی کوشش حرف آخر نہیں ہے۔‘‘

ڈاکٹر شہاب ظفر صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسیٹی کے اس خیال سے عدم اتفاق کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیںآتی ، لکھتے ہیں:’’ظفر پیامی کا تخلیقی سفر نہ صرف ظفر پیامی کی تخلیقی جہات اور ادبی آفاق کو نمایاں کرتی ہے؛ بلکہ مصنف کے نظریہ نقد اور اسلوب اظہار کا بھی اعتراف کرواتی ہے۔‘‘

ایک اور اقتباس پڑھ ڈالیے اور علوی کے اسلوب اور زبان وبیان کا مزہ لیجئے، اس سے کتاب کی ترتیب اور مصنف کے نقطۂ نظر تک بھی آپ کی رسائی بآسانی ہو سکتی ہے ، لکھتے ہیں:’’اس کتاب میں سنجیدہ اور علمی مطالعہ کے آداب وطریقہ کا خیال رکھتے ہوئے ادب وثقافت کی ایک فعال شخصیت کے حوالے سے ان کی یادگار خدمتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ وہ کس قدر ذاتی خوبیوں کے مالک تھے، اگر یہ سچ ہے کہ اچھا انسان ہی اچھا فن کار ہوتا ہے تو یقینا اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ قبائے معیار وعظمت ان کی علمی وفکری قد وقامت پر پوری طرح راست آتی ہے (صفحہ۲۰)

بڑی کدو کاوش اورتحقیق کی جان کاہی کے باوجود اے کے علوی کا خیال ہے کہ

’’میں اپنے اس مطالعہ کو ظفر پیامی کی تفہیم کے سلسلے میں پہلا قدم ہی سمجھتا ہوں، دیوان بریندر ناتھ سے ظفر پیامی بن کر اس اہم شخصیت نے جو پیام دیا ہے اس کی تفہیم کے لیے اور بھی مطالعات سامنے آنے چاہیے۔ (صفحہ ۲۱۰)

قاری کو اپنے علم وتحقیقی کی روشنی میں ظفر پیامی کے تخلیقی سفر پر بحث ونظر کا حق تو ہے، لیکن مصنف کے تواضع اور انکساری سے بھرے ان جملوں کو رد کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اس لیے کہ وہ کتاب کے مندرجات سے قارئین کی بہ نسبت زیادہ واقف ہیں، اے کے علوی ہم سب کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے فکری ،فنی اور سوانحی اعتبار سے ظفر پیامی کو ہم تک پہونچا یا۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button