خون دل دے کر نکھاری ہے چمن کی تصویر

مفتی اشفاق قاضی
۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کا دن ہندوستان کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ یہ وہ دن ہے جب صدیوں کی غلامی، معاشی استحصال، اور سیاسی جبر کے بعد یہ ملک انگریزوں کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوکر پرسکون فضا میں سانس لینے لگا۔ آج اس واقعہ کو ۷۹ برس گزر چکے ہیں۔ مگر آزادی کا یہ جشن صرف خوشی کا دن نہیں بلکہ یہ دن اپنے ماضی کی قربانیوں کو یاد کرنے، اپنی موجودہ حالت کا جائزہ لینے، اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کا بھی دن ہے۔ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں مسلمانوں کا کردار سب سے نمایاں رہا۔ یہ کوئی جذباتی دعویٰ نہیں، بلکہ تاریخ کی شاہدہے کہ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگِ آزادی میں علماء اور مسلم مجاہدین نے قیادت کی۔
شاہ عبدالعزیز محد ث دہلوی کا فتوی کہ ہندوستان دارالحرب ہے نے فکری آبیاری کی اور اس کے بعد شہید ٹیپو سلطان، مولانا فضلِ حق خیرآبادی ، مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی ، مولانا قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، اسیر مالٹا شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے شجر آزادی کا ثمر پانے کےلیے انگریزوں سے کبھی شاملی میں لڑے، مالٹا کو آباد کیا- تحریکِ خلافت (۱۹۱۹-۱۹۲۴ء) میں مسلمانوں نے لاکھوں کی تعداد میں گاندھی جی کی قیادت کو قبول کیا، جس سے ہندو مسلم اتحاد کی نئی راہیں کھلیں۔جمعیۃ العلماء ہند نے سیاسی پلیٹ فارم پر مسلمانوں کی آواز بن کر انگریز کے خلاف جدوجہد کو تیز کیا۔مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولا شوکت علی، مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی، مولانا حسرت موہانی اور دیگر رہنماؤں نے مشترکہ قومی جدوجہد پر زور دیا۔
مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد کا ساتھ، ۱۹۱۹ء کی خلافت کانفرنس، ۱۹۲۰ء کی عدم تعاون تحریک، اور ۱۹۴۲ء کی بھارت چھوڑو تحریک اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ہندو مسلم اتحاد ہی آزادی کی سب سے بڑی طاقت تھی۔آزادی کے بعد یہ توقع تھی کہ ملک کے تمام شہری برابری کے حقوق سے مستفید ہوں گے، مگر مسلمانوں کی حالت اس امید کے برعکس رہی۔سچر کمیٹی رپورٹ (۲۰۰۶ء) اور پروفیسر رنجنا کمیٹی رپورٹ (۲۰۱۴ء) کے مطابق خواندگی کی شرح مسلمانوں میں قومی اوسط سے کم ہے۔اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ کے برابر ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب انتہائی نچلے درجے پرہے۔پولیس فورس میں یہ شرح دو فیصد اور عدلیہ میں دو سے بھی کم ہے۔دیہی علاقوں میں ۲۰ فیصد سے زائد مسلمان خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ آزادی کے ۷۹ برس بعد بھی مسلمان سماجی، معاشی، اور تعلیمی میدان میں پیچھے ہیں۔آزادی کا مطلب صرف سیاسی اقتدار نہیں بلکہ سماجی انصاف، معاشی خوشحالی، اور فکری آزادی بھی ہے۔ مسلمانوں کو آج بھی ان سب سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ فسادات، ماب لنچنگ، امتیازی قوانین، اور روزگار میں عدم مساوات اس محرومی کو مزید وسعت دیتے ہیں۔آزادی کے بعد کے فسادات (۱۹۶۱ء جبلپور، ۱۹۸۳ء نیلی، ۱۹۸۹ء بھاگلپور، ۱۹۹۲ء ممبئی، ۲۰۰۲ء گجرات، ، ۲۰۱۳ مظفر نگر فسادات، ۲۰۲۰ دہلی فسادات وغیرہ) نے مسلمانوں کے اعتماد کو بار بار ٹھیس پہنچائی۔ ان واقعات نے ثابت کیا کہ آزادی کے باوجود مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ ایک چیلنج ہے۔آئینِ ہند ہر شہری کو مساوی مواقع کی ضمانت دیتا ہے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے تعلیمی ریزرویشن اور اسکالرشپ میں اضافہ کیا جائے۔ سرکاری ملازمتوں میں مناسبنمائندگی دی جائے۔ اقلیتی علاقوں کی ترقی کے لیے خصوصی بجٹ مختص ہو۔ نفرت انگیز مہمات، اشتعال انگیزی، فسادات اور امتیازی پالیسیوں پر سخت ایکشن ہو۔ یہ کوئی احسان نہیں بلکہ جمہوری حق ہے۔یہ سوال اکثر اٹھتا ہے کہ جب ہم حقیقی آزادی سے محروم ہیں تو پھر یہ دن کیوں منائیں؟جواب یہ ہے کہ یہ دن ہماری قربانیوں کی یاد ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ وطن ہمارے بزرگوں نے اپنے خون سے آزاد کرایا۔ اگر ہم یہ دن نہ منائیں تو نئی نسل اپنے ماضی اور قربانیوں سے ناواقف رہ جائے گی۔یومِ آزادی منانا ضروری ہے تاکہ نئی نسل کو اپنے تاریخی کردار کا علم ہو۔ہم اپنی موجودہ حالت کو بہتر بنانے کا عزم کر سکیں اور یہ پیغام دیا جا سکے کہ مسلمان اس ملک کے برابر کے شہری ہیں۔۷۹ برس قبل ملی آزادی کا سفر ابھی مکمل نہیں۔ حقیقی آزادی تب ہوگی جب مسلمان بھی ہر میدان میں برابری کا حق پائیں گے، جب ان کے خلاف تعصب اور امتیاز ختم ہوگا، اور جب آئین کے وعدے عملی صورت اختیار کریں گے۔یومِ آزادی کے موقع پر ہمارا پیغام ہے کہ یہ وطن ہمارا ہے،
اس کی آزادی ہماری بے شمار قربانیوں کا نتیجہ ہے، اور ہم اس کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہمیشہ پرعزم رہیں گے وطن عزیز کی خاک سے کبھی سمجھوتہ نہ کریں گے۔
(مضمون نگار معروف عالم دین صدر مفتی جامع مسجد بمبئی اور بانی فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر ہیں)
رابطہ:7837833888