لال قلعہ دھماکہ کے بعد ۔۔۔ اترپردیش اے ٹی ایس نے پریاگ راج زون کے 8 اضلاع کے مدارس کا مکمل ریکارڈ طلب کیا

اتر پردیش اے ٹی ایس نے پریاگ راج زون کے آٹھ اضلاع میں مدارس کا تفصیلی ریکارڈ طلب کر لیا
نئی دہلی- 22 نومںر ( اردولیکس ڈیسک) دہلی میں لال قلعہ کے قریب کار دھماکے کی تحقیقات کے سلسلے میں اتر پردیش اینٹی ٹیررزم اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے ترپردیش کے پریاگ راج زون کے 8 اضلاع میں قائم تمام مدارس کا تفصیلی ریکارڈ طلب کیا ہے۔ حکام کے مطابق اس کارروائی کے تحت طلبہ کے مکمل ڈاٹا، اساتذہ، انتظامیہ اور عملے کی معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔ یہ کارروائی پریاگ راج، پرتاپ گڑھ، کوشامبی، فتح پور، باندا، ہمیرپور، چتراکوٹ اور مہوبا اضلاع پر مشتمل ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 15 نومبر کو جاری کردہ سرکاری مکتوب میں اے ٹی ایس نے متعلقہ اضلاع کے اقلیتی بہبود دفاتر سے طلبہ کی فہرست بمعہ نام، والد کا نام، موبائل نمبر اور پتہ کے علاوہ علما و مدرسہ اساتذہ کی تفصیلات جمع کرانے کی ہدایت دی ہے۔
پریاگ راج کے ذرائع نے تصدیق کی کہ ضلع کے اقلیتی بہبود دفتر نے 206 مدارس کی فہرست جمع کرائی ہے جن میں 43 سرکاری امداد یافتہ اور 169 خانگی مدارس شامل ہیں۔
لکھنؤ میں اے ٹی ایس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی احتیاطی اقدام کے طور پر کی جا رہی ہے تاکہ "انتہا پسند یا سماج دشمن عناصر مذہبی تعلیمی اداروں کا غلط استعمال نہ کر سکیں”۔ ان کے مطابق ابتدائی ڈیٹا کے بعد زمینی سطح پر بھی جانچ کی جائے گی۔
حکام نے واضح کیا کہ فی الوقت یہ ہدایت صرف انہی آٹھ اضلاع تک محدود ہے اور اس کا ریاست گیر سطح کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔ پریاگ راج کے اقلیتی بہبود افسر کے مطابق ان کا دفتر مطلوبہ ریکارڈ جمع کرا چکا ہے، جسے اے ٹی ایس فیلڈ وزٹ اور دیگر انٹیلی جنس ذرائع سے جانچے گی۔
دوسری جانب انسانی حقوق کارکنوں اور اقلیتی تنظیموں نے اس اقدام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغیر ٹھوس شواہد کے اس طرح بڑے پیمانے پر ڈیٹا حاصل کرنا مذہبی تعلیمی اداروں کی بدنامی کا سبب بن سکتا ہے اور مذہبی آزادی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس بنیادوں پر اس نوعیت کی معلومات طلب کرنا آئینی حقوق اور خانگی رازداری کے اصولوں سے متصادم ہو سکتا ہے، خصوصاً جب اس کے لیے عدالتی نگرانی یا قانونی بنیاد موجود نہ ہو۔
بعض مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایسے اقدامات پر قابو نہ رکھا گیا تو یہ معمول بن سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں سکیورٹی ایجنسیاں انسدادِ دہشت گردی کے نام پر مذہبی مدارس کی وسیع پیمانے پر نگرانی کا نظام قائم کر سکتی ہیں۔ ان ماہرین نے واضح قانونی رہنمایانہ خطوط، آزادانہ نگرانی اور امتیازی سلوک کے خلاف مضبوط حفاظتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔



