حضرت فاطمتہ الزہراءؓ کی سیرتِ طیبہ امتِ مسلمہ کے لیے کامل نقشِ قدم — چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کا خطاب
حضرت فاطمتہ الزہراءؓ کی سیرتِ طیبہ امتِ مسلمہ کے لیے کامل نقشِ قدم — چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کا خطاب
حیدرآباد، 2ڈسمبر (پریس ریلیز ) چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری وخطیب امام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد نے اپنے مفصل و روح پرور خطاب میں کہا کہ شہزادیٔ کونین، خاتونِ جنت، راضیہ مرضیہ حضرت فاطمتہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پوری زندگی ایمان، حیا، تقویٰ، شکر، صبر اور ایثار کا ایسا شاہکار ہے جس پر عمل کرکے آج کا مسلمان گھرانہ مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حضرت فاطمتہ الزہراءؓ کی سیرت میں عورت کے ہر کردار — بیٹی، بیوی، بہو، ماں اور ایک صالح مسلمان خاتون — کے لیے کامل نمونہ موجود ہے۔
مولانا نے کہا کہ حضرت فاطمہؓ نے اپنی زندگی کا آغاز مکہ کی دشوار فضاؤں میں کیا۔ شعبِ ابی طالب کی سختیاں، کفار کا ظلم، معاشرتی بائیکاٹ — یہ سب ایک کمسن بچی کی نظروں کے سامنے گزر رہا تھا۔ اس کم عمری میں انہوں نے والدِ محترم ﷺ کی غمخواری کا جو کردار ادا کیا، وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔
غزوۂ اُحد کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ زخمی ہوئے تو فاطمہؓ ہی تھیں جنہوں نے زخم دھوئے، پانی ڈالا اور راکھ ڈال کر خون روکنے کی کوشش کی۔ یہ خدمت، محبت اور وفاداری کسی عام بیٹی کا کردار نہیں بلکہ ایک عظیم المرتبت شہزادی کا کردار تھا۔
مولانا نے کہا کہ حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے نہایت سادگی میں ہوئی۔ جہیز میں صرف چند ضروری سامان دیا گیا اور یہی سادگی ان کے گھر کا طرزِ زندگی قرار پائی۔
وہ چکی پیستے ہوئے ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے، مگر شکایت نہ کرتیں۔ پانی بھرنے سے بدن پر نشانات پڑ جاتے مگر اللہ کے حضور شکر گزار رہتیں۔
نبی کریم ﷺ نے انہیں خادمہ دینے کی بجائے تسبیحِ فاطمہ عطا فرمائی، جو روحانی طاقت کا خزانہ ہے۔
مولانا مفتی ڈاکٹر صابر پاشاہ نے فرمایا کہ ایثار اور سخاوت حضرت فاطمہؓ کی شخصیت کا بنیادی وصف تھا۔ گھر میں کئی دن فاقے کی کیفیت تھی، لیکن جب مسکین، یتیم اور قیدی دروازے پر آئے، تو انہوں نے اپنا کھانا اللہ کی رضا پر قربان کردیا۔
اسی ایثار کے سبب سورۃ الدہر کی آیات نازل ہوئیں:
“وہ اپنی خواہش کے باوجود کھانا کھلاتے ہیں…”
یہ آیات اہلِ بیتِ اطہار کی عظمت کی آسمانی سند ہیں۔
مولانا نے مزید کہا کہ حضرت علیؓ نے خود فرمایا کہ فاطمہؓ نے کبھی میرے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کی اور نہ کبھی ایسی بات کہی جس سے میں دل برداشتہ ہوا ہوں۔
بچوں کی تربیت میں بھی ان کا کردار نہایت عظیم تھا۔ حسنؓ، حسینؓ، زینبؓ اور ام کلثومؓ جیسے کردار ساز افراد گھر کی تربیت کا نتیجہ ہیں۔
آج کے دور میں جب گھروں میں بے سکونی، نااتفاقی اور بے برکتی عام ہے، تو فاطمی تربیت ہی ایسا نمونہ ہے جو گھرانوں کو جنت کا نمونہ بنا سکتا ہے۔
خطاب میں فرمایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیٹی فاطمہؓ سے بےپناہ محبت فرماتے تھے۔
جب فاطمہؓ آتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہوجاتے، ان کی پیشانی چومتے اور انہیں اپنے مقام پر بٹھاتے۔
یہ محبت صرف نسب کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ان کے عظیم اخلاق، ان کی حیا، ان کی عبادت، ان کے ایثار اور ان کی پاکیزگی کی وجہ سے تھی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
“فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو اسے تکلیف دے وہ مجھے تکلیف دیتا ہے۔”
مولانا نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد فاطمہؓ گہرے غم میں ڈوب گئیں، مگر صبر اور اللہ کی رضا پر قائم رہیں۔
نبی پاک ﷺ نے انہیں بشارت دی تھی کہ:
“تم میرے بعد سب سے پہلے مجھ سے آ ملو گی۔”
اور چند ہی ماہ بعد وہ اپنے بابا سے جا ملیں۔
ان کی وفات پر اہلِ مدینہ غمزدہ ہوگئے، لیکن ان کی سیرت نے رہتی دنیا تک ایک مقدس مثال رقم کردی۔مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے مطالبہ کیا کہ:
ہماری بیٹیاں فاطمہؓ کی حیا، شرافت اور پاکیزگی اپنائیں۔
ہماری بہوئیں ان کے ایثار اور خدمت سے سبق لیں۔
ہماری مائیں ان کی عطا کردہ تربیتی اصولوں کو اپنائیں۔
ہمارے گھر فاطمی اخلاق سے مہکیں۔
ہمارے نوجوان ایثار و خدمت کی فاطمی روش سیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر امتِ مسلمہ آج بھی فاطمی کردار و تعلیمات کو زندگی میں شامل کرلے تو معاشرہ محبت، خیر خواہی، عدل، عفت اور تقویٰ سے بھر جائے گا۔
خطاب کے اختتام پر مولانا نے کہا:
“حضرت فاطمتہ الزہراءؓ کا ذکر دلوں کو زندگی دیتا ہے۔ ان کی سیرت ایمان کو تازگی اور کردار کو پاکیزگی عطا کرتی ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی کامیابی فاطمی سیرت اپنانے میں ہے۔”



