صَفَر میں نُحوست نہیں – مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد کے اجتماع سے خطاب

حیدرآباد 25جولائی (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج وہ ابنے خطاب کرتےہوئے بتلایا کہ اسلامی سال کے دوسرے مہینے کو "صفر المظفر” کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس ماہ سے متعلق معاشرے میں کئی غلط فہمیاں اور بے بنیاد توہمات رائج ہو چکی ہیں جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔ اس تحقیقی بیان کا مقصد عوام الناس میں صحیح اسلامی شعور اجاگر کرنا اور اس مہینے کی اصل حقیقت و فضیلت کو واضح کرنا ہے۔
"صفر” عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں: "خالی ہونا”۔ بعض مؤرخین کے مطابق چونکہ عرب لوگ اس مہینے میں سفر پر روانہ ہوتے تھے، اس لیے اس مہینے کو "صفر” کہا جانے لگا۔ بعض کے نزدیک چونکہ اس مہینے میں اکثر مکانات خالی ہوتے تھے (کیونکہ لوگ جنگوں یا تجارتی قافلوں کے لیے نکلتے تھے)، اس لیے یہ نام رکھا گیا۔مولاناڈاکٹرحافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے مذید بتلایا کہ فقہاء و علماء نے اس مہینے کو "صفر المظفر” (یعنی کامیابی والا سفر) بھی لکھا ہے تاکہ اس نام میں برکت کا پہلو پیدا ہو۔ یہ بھی ایک اسلامی روایت ہے کہ نحوست کی نفی کر کے مثبت نام اختیار کیے جائیں۔عوام الناس میں یہ خیال عام ہے کہ ماہِ سفر نحوست والا مہینہ ہے، شادی بیاہ یا خوشی کے کام اس مہینے میں نہیں کرنے چاہییں، خصوصاً ماہِ صفر کی 13، 14 اور 27 تاریخ کو بدشگونی کا دن سمجھا جاتا ہے۔ مگر ان تمام باتوں کی نہ صرف قرآن و حدیث میں کوئی بنیاد نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے توہمات کو سختی سے رد کیا ہے۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:ترجمہ: "نہ کوئی بیماری خود بخود لگتی ہے، نہ بدشگونی ہے، نہ اُلو کی نحوست ہے اور نہ ماہِ صفر کی نحوست۔”یہ حدیث مبارکہ واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ ماہِ صفر کی طرف نحوست منسوب کرنا سراسر جہالت ہے۔ماہِ صفر میں رسول اللہ ﷺ کی سیرت:ماہِ صفر میں رسول اللہ ﷺ نے مختلف غزوات (جیسے غزوۂ ابواء، غزوۂ بحران وغیرہ) میں شرکت فرمائی، جن میں کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ اگر یہ مہینہ منحوس ہوتا تو کیا آپ ﷺ کسی بھی اہم اسلامی اقدام کے لیے اس مہینے کا انتخاب فرماتے؟
اولیائے کرام اور سلفِ صالحین نے بھی کبھی ماہِ صفر کو منحوس نہیں سمجھا، بلکہ اس میں معمول کے مطابق عبادات، نکاح اور دیگر امور انجام دیے۔ہمارے معاشرے کو بدشگونی، توہم پرستی اور غیر اسلامی رسم و رواج سے نکال کر قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔ سفر المظفر کا مہینہ دیگر مہینوں کی طرح ایک عمومی مہینہ ہے، جس میں خوشی، نکاح، کاروبار، سفر، حج، عمرہ اور عبادات انجام دینا جائز ہے۔: ماہِ صفر المظفر کو منحوس سمجھنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس مہینے کو بھی اللہ کی دیگر نعمتوں کی طرح شکر اور عبادت کے ساتھ گزاریں۔ عوام کو اس حوالے سے تعلیم دینا، خطبے دینا، مضامین شائع کرنا، اور دینی شعور کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔انھوں نے شان صحابہ پر روشنی ڈالی اور بتلایا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا شرف صحابیت اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت و سنگت اتنا بڑا اعزاز ہے کہ دنیا کے سارے اعزازات اس اعزاز کے بعد ہیچ ہیں۔ اس صحبتِ محمدی ﷺ نے ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرتوں پر یہ رنگ چڑھایا ہے کہ ان کو اپنے زمانے کا مقتدا، راہنما اور رہبر بنادیا ہے۔ ان کی پیروی لوگوں کو راهِ ہدایت پر گامزن کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’میں نہیں جانتا کہ میں تم میں کب تک رہوں۔ پس تم ان کی پیروی کرنا جو میرے بعد ہوں اور آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا۔‘‘’’پس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت علیہم السلام کہ تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل اور شک و نقص کی گرد تک دور کردے اور تمہیں کامل طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کردے۔‘‘(القرآن)یہ وہ ذواتِ اقدس ہیں کہ ان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمارے لیے باعثِ ہدایت اور باعثِ نجات بنایا ہے۔ ہم ان کی پیروی کریں اور ان کی شخصیتوں میں سیرتِ رسول اور اسوۂ حسنہ کے آثار تلاش کریں۔ صحبتِ رسول ﷺ نے ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس مقام پر پہنچایا ہے کہ ان سے محبت کا تعلق استوار کیا جائے اور اپنے دلوں کو ان کے بغض و حسد سے پاک کیا جائے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! میرے اصحاب کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ ان کو میرے بعد طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی، اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے دراصل میرے ساتھ اپنے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں طعن و شتم سے تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس نے اللہ کو ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذ دی، قریب ہے کہ اللہ تعالی اسے اچک لے اور اسے عذاب دے۔‘‘صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین جو اختلافات رسول اللہ ﷺ کی وفات و وصال کے بعد وقوع پذیر ہوئے اور جن اختلافات، تنازعات اور باہمی مشاجرات نے ان کی قدر و منزلت کو مجروح ہونے کا تاثر دیا، ایسے تمام تاریخی وقائع اور باہمی مشاجرات کو نگاهِ نبوت دیکھ رہی تھی، اس لیے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تم عنقریب میرے بعد شدید اختلاف دیکھو گے پس تم پر میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کی پیروی لازم ہے اور اس پیروی کو مضبوطی سے اختیار کرلو۔‘‘
ان کی پیروی سے اللہ کی رحمت اور اللہ کا فضل و کرم بندے کے شامل حال ہوتا ہے۔ ان کی عدم پیروی بندے کو ان سے دور لے جاتی ہے اور پھر وہ ان کی عظمت شان سے بے خبر ہوکر زبان درازی کرنے لگتا ہے۔ اس کا یہ عمل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذواتِ اقدس کے احترام کو بھی مجروح کردیتا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:’’جس نے میری صحبتوں سے سرفراز ہونے والے کو برا بھلا کہا، اس پر اللہ کے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘ان ساری روایات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کا مشترکہ بیان اس طرح ہے جس طرح قرآن حکیم کا صیغۂ مذکر یایھا الذین امنوا تمام مومنین اور مومنات کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ علاوہ ازیں ہم کلامِ رسول میں بیانِ اختصاص بھی دیکھتے ہیں اور شخصی فضائل بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔ کتاب المناقب صحابہؓ و اہل بیتؓ کے شخصی فضائل سے معمور ہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی اختصاصی شان کا ذکر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ’’حضور نبی اکرم ﷺ صبح کے وقت اس حال میں تشریف لائے کہ آپ نے ایک چادر مبارک اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اون سے کجاووں کے نقوش بنے ہوئے تھے۔ حضرت امام حسن بن علیؓ آئے تو آپ ﷺ نے انہیں چادر میں داخل فرمالیا پھر حضرت امام حسینؓ تشریف لائے تو وہ بھی ان کے ساتھ چادر میں داخل ہوگئے پھر سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراؓ تشریف لائیں تو آپ ﷺ نے انہيں بھی چادر میں داخل فرمالیا پھر حضرت علیؓ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے انہیں بھی چادر میں داخل فرمالیا پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی۔’’ پس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت علیہم السلام کہ تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل اور شک و نقص کی گرد تک دور کردے اور تمہیں کامل طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کردے۔‘‘اس آیت کریمہ میں لفظ ’’اہل البیت‘‘میں ازواج مطہرات اور ذریات طیبات تو داخل تھے مگر اس آیت کریمہ میں بطور خاص رسول اللہ ﷺ نے حسنین کریمین، سیدہ کائنات اور حضرت علی علیہم السلام کو اپنے اہل بیت میں داخل کرنے کا صریح اعلان فرمایا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:’’جب آیت مباہلہ نازل ہوئی کہ ’’آپ فرمادیں کہ آؤ ہم مل کر اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو ایک جگہ پر بلاتے ہیں۔‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کو بلایا ان ساروں کو جمع کرکے فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب اور اپنے اہل بیت کی تنقیص کو ناپسند کرتے تھے۔