اسپشل اسٹوری

سعودی پکوان اور عربی زبان میں مہارت رکھنے والی امریکی خاتون

ریاض ۔ کے این واصف

سعودی عرب میں جب سے روزگار کے دروازے کھلے تب سے دنیا کے کونے کونے سے کرڑہا لوگ یہاں آئے برسہا برس گزارے اور لوٹ گئے۔ آج بھی خارجی باشندوں کے یہاں رہنے اور آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں برسوں گزارنے بعد بھی غیر عرب باشندے عربی زبان پر عبور حاصل کر پاتے ہیں بس کام چلاؤ قسم کی یا ٹوٹی پھوٹی عربی ہی بول پاتے ہیں ایک معمولی سی تعداد ہی عربی میں گفتگو پر مہارت ضھاصل کر پاتے ہیں۔

یہاں ایک مقامی اخبار میں شائع خبر کے مطابق سعودی عرب میں مقیم امریکی خاتون ’ہیڈی‘ نے ریکارڈ وقت میں عربی پر عبور حاصل کرکے ریاض کے شہریوں کو حیران کردیا۔العربیہ چینل سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی خاتون نے کہا کہ ’وہ ڈیڑھ برس قبل یہاں آئی تھیں۔ یہاں کی زبان اور ثقافت سے آگاہی کے لیے مملکت آمد کا خواب کافی عرصے سے دیکھ رہی تھی‘۔

ہیڈی نے کہا کہ ’مجھے اپنے وطن امریکہ سے بہت محبت ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سعودی عرب، امریکہ سے مختلف ہے۔ ہمارے یہاں ہمسایوں سے تعارف کی روایت نہیں۔ یہاں فلیٹ میں منتقل ہوئی تو ہمسائے ملنے کے لیے آئے ساتھ ہی تحائف بھی لے کر آئے‘۔ہیڈی نے بتایا کہ ’وہ اپنے ہمسایوں سے گپ شپ بھی کرتی ہیں کھاتی پیتی بھی ہیں۔ سعودی عرب میں جہاں بھی جاتی ہیں خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں‘۔امریکی خاتون نے کہا کہ ’وہ عربی ٹی وی سیریل بے حد شوق سے دیکھتی ہیں۔ مقامی لہجے کو جاننے سمجھنے میں اس سے بے حد مدد ملتی ہے‘۔

خاتون کا کہنا تھا کہ ’نجدی لہجہ سیکھ چکی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر سہیلیاں نجد کی ہیں۔ جدہ کے ٹی وی سیریل اور فلموں سے حجازی لہجہ سیکھ رہی ہیں۔ مملکت کے مختلف علاقوں کے لہجے سیکھنا چاہتی ہیں‘۔اس نے کہا کہ وہ ڈیوٹی پر جاتی ہیں ۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے لیے جانا ہوتا ہے۔ انھون نے بتایا کہ پڑوسن سے مقامی مٹھائی بسبوسہ اور مقبول ترین سعودی ڈش کبسہ بنانا سیکھ چکی ہوں۔

واضح رہے کہ دنیا کے بعض ممالک میں آبسنے والوں پر مقامی زبان سیکھنے کی پابندی عائد ہوتی ہے۔ اگر ایسا سعودی عرب میں بھی ہوتا تو آج دنیا کے بیشتر ممالک میں عربی بولنے والے موجود ہوتے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button