عمر خالد اور شرجیل امام کی ضمانت کی سماعت موخر ، 22 ستمبر کو ہوگی سماعت

سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز دہلی فسادات کیس میں گرفتار سماجی کارکنان عمر خالد، شرجیل امام، گل فشاں فاطمہ اور میران حیدر کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت 22 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔ یہ کیس فروری 2020 میں دہلی فسادات کی مبینہ سازش سے متعلق ہے۔
جسٹس ارویند کمار اور جسٹس منموہن کی بنچ نے درخواستوں کی سماعت ملتوی کرنے کا فیصلہ سنایا۔
ان کارکنوں نے دہلی ہائی کورٹ کے اُس فیصلے کو چیلنج کیا ہے جو 2 ستمبر کو سنایا گیا تھا، جس میں 9 افراد کو ضمانت دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ "سازشی نوعیت کا تشدد” کسی احتجاج یا مظاہرے کی آڑ میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
ضمانت سے محروم ہونے والوں میں عمر خالد اور شرجیل امام کے ساتھ ساتھ گل فشاں فاطمہ، میران حیدر، محمد سلیم خان، شفیع الرحمٰن، اطہر خان، عبدالخالد سیفی اور شاداب احمد شامل ہیں۔ ایک اور ملزم تسلیم احمد کی ضمانت بھی اسی دن ایک اور بنچ نے مسترد کردی تھی۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آئین شہریوں کو پرامن احتجاج اور مظاہرے کا حق دیتا ہے، بشرطیکہ وہ پُرامن اور قانون کے دائرے میں ہوں۔ تاہم عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ حق "مطلق” نہیں بلکہ "مناسب پابندیوں” کے ساتھ مشروط ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اگر احتجاج کے غیر محدود حق کی اجازت دے دی جائے تو اس سے آئینی ڈھانچہ متاثر ہوگا اور امن و قانون کی صورتحال کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ خالد، امام اور دیگر افراد کے خلاف یو اے پی اے اور تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ 2020 کے دہلی فسادات کے "ماسٹر مائنڈ” تھے جن میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ یہ فسادات شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) کے خلاف احتجاج کے دوران بھڑکے تھے۔
تمام ملزمین 2020 سے جیل میں ہیں۔ ٹرائل کورٹ کی جانب سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے ہائی کورٹ اور اب سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔