مضامین

مولانا انیس الرحمن قاسمی بھاگلپور ی ؒ  ✍️

 

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے سابق رکن ، خانقاہ رحمانی اور امارت شرعیہ کے اکابر کے معتمد خاص، جامع العلوم پٹکا پور کان پور، دار العلوم اسلام نگر رانچی ، جامعہ ام سلمہ دھنباد، مدرسہ احیاءالعلوم ناتھ نگر بھاگلپور کے سابق استاذ، ماہنامہ خورشید بریلی، ماہنامہ الفاروق بھاگلپور اور دیش بدیش بھاگلپور کے سابق مدیرمحترم، آل انڈیا ملی کونسل کے سابق سکریٹری مولانا انیس الرحمن قاسمی ناتھ نگر بھاگلپور کا 7 فروری 2023 بروز منگل تین بجے صبح انتقال ہو گیا، جنازہ کی ادائیگی اسی دن بعد نماز عصر ناتھ نگر میں ہوئی ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مولانا مفتی محمد الیاس صاحب شیخ الحدیث مدرسہ اصلاح المسلمین چمپا نگر بھاگلپور نے پڑھائی ، اور ناتھ نگر کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کا پیغام تعزیت قاضی شریعت بھاگلپور مولانا خورشیدعالم صاحب نے پڑھ کر سنایا اور جامعہ رحمانی مونگیر کی نمائندگی کرتے ہوئے حافظ محمد امتیاز رحمانی نے مرحوم کے اوصاف وکمالات کا ذکر کیا، پس ماندگان میں دو لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں، جن میں ایک صاحب زادہ مولانا خالد فیصل ندوی دار العلوم ندوة العلماءمیں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اہلیہ 2016میں وفات پا چکی تھیں

مولانا انیس الرحمن قاسمی کی ولادت یکم جنوری 1931 کو ناتھ نگر بھاگلپور میں جناب عبد الغنی بن حاجی خورشیدکے گھر ہوئی، مولانا کی نانی ہال صاحب گنج تھی، ابتدائی تعلیم ناتھ نگر ہی میں مولانا عبد الماجد صاحب سے پائی ، آگے کی تعلیم کے لیے دارالعلوم مﺅ تشریف لے گیے اور وہاں سے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا اور1956میں سند فراغ پائی ، فن قرأت وتجوید کی تعلیم مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ سے حاصل کیا، تدریسی خدمات مختلف مدارس میں انجام دیتے رہے، جس کا ذکر اجمالا اوپر آچکا ہے، فطری انسیت صحافت سے تھی، جس کی تربیت انہوں نے عبد الوحید صدیقی غازی پوری ثم دہلوی سے پائی تھی ، بعد میں یہ ذوق ان کے اوپر غالب ہو گیا، چنانچہ کئی رسائل اور اخبارات کے مدیر رہے، روزنامہ دیش بدیش کے لیے مسلسل لکھتے رہے، الفاروق کا بھاگلپور فساد نمبر نکالا؛ جو لوگوں کے لیے فساد کے مضمرات اور حقیقی تجزیہ میں بڑا معاون ثابت ہوا، صحافی ہونے کی حیثیت سے ان کی نگاہ بڑی دور رس تھی ، وہ ملکی اور غیر ملکی خبروں پر یکساں نظر رکھتے تھے، اور حسب موقع لکھتے بھی تھے اور مجلسی گفتگو میں اس پر سیر حاصل بحث بھی کیا کرتے تھے۔

صحافت ان کے لیے خدمت کا ذریعہ تھا وہ اسے پیشہ کہنا بڑا سمجھتے تھے، خدمت ہی کے نقطہ نظر سے انہوں نے ہندوستان کی مرکزی اور ملی تنظیموں سے اپنا رشتہ آخری دم تک استوار رکھا، خانقاہ رحمانی مونگیر، امارت شرعیہ ، آل انڈیا ملی کونسل، تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کی تحریکات اور کاموں کوآگے بڑھانے میں وہ ان کے دست وبازو بن کر کام کرتے ، وہ مختلف ملی تنظیموں میں تفریق کے قائل نہیں تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ نام الگ ہے، طریقہ کار اور ترجیحات میں فرق ہے، لیکن سب ملت کی سر بلندی اور سماج میں مسلمانوں کو با وقار مقام دلانے کے لیے سر گرم عمل ہیں، اس لیے ان کے کاموں میں رفیق بننا چاہیے، فریق نہیں، فریق بننے سے کام بگڑتا ہے اور رفیق بننے سے کام آگے بڑھتا ہے ، اپنے اس فکر کی وجہ سے وہ بھاگلپور ہی نہیں، ہندوستان کی مرکزی ملی تنظیموں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، مختلف وقتوں میں وہ تعلیمی اداروں کے منظم اور تنظیموں کے رکن رہے اور اپنی بہتر خدمات ان کے لیے فراہم کیں۔

بھاگلپور فساد کے موقع سے انہوں نے امارت شرعیہ کے وفد کے ساتھ ریلیف کا کام کیا اور کہنا چاہیے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کیا، فساد کے حوالہ سے جو مقدمات ہوئے تھے اس کی پیروی میں بھی انہوں نے اپنی توانائی لگائی، اور جو کچھ بن پڑا کرتے رہے۔ان کی کوششوں سے کئی مجرمین جیل تک پہونچے اور انہیں سزا ہوئی۔

حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ نے آل انڈیا ملی کونسل قائم کیا تو وہ اس کو استحکام بخشنے میں لگ گیے، مئی 2001ءمیں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے انہیں مرکزی دفتر دہلی میں ہمہ وقتی سکریٹری مقرر کیا تھا، بہت دنوں تک وہ آل انڈیا ملی کونسل کے دفتر کے سکریٹری رہے، اس حیثیت سے انہوں نے دفتری نظم ونسق کو مزید بہتر بنانے کے لیے کام کیا، ریاستی تنظیموں سے روابط مضبوط کیے، تنظیموں کے استحکام وتوسیع کے لیے کام کیا تنظیمی دور ے کیے، لیکن دہلی کی سیاسی فضا انہیں راس نہیں آئی اس کے اثرات کو قبول کرنا انہیں منظور نہیں تھا، چنانچہ دہلی چھوڑ کر وہ پھر بھاگلپور چلے آئے، اور آخری دم تک بھاگلپور کوہی اپنا میدان عمل بنائے رکھا، قاضی صاحب ؒنے آزادی کے پچاس سال مکمل ہونے پر کاروان آزادی نکالا تو بہت جگہوں پر وہ کارواں کے رفیق سفر رہے۔

میری ملاقات ان سے ملی کونسل کے قیام کے بعد ہوئی ، ایک زمانہ میں ، میں بھی بہار ملی کونسل کا سکریٹری تھا، اس عہدہ کی وجہ سے بار بار ان سے ملاقاتیں رہیں، مختلف موضوعات پر ہم لوگوں نے لکھا اور کئی موقع سے اسٹیج پر ایک ساتھ تقریر کا موقع ملا۔

بھاگل پور جب بھی جانا ہوا، مولانا مرحوم سے ملاقات کی کوشش کی، کبھی ملاقات ہوئی اور کبھی نہیں ، جب تک اعضاءوجوارح کام کرتے رہے خانقاہ رحمانی اور امارت شرعیہ آنا جانا ہوتا رہا ، قویٰ نے جواب دے دیا اس کے با وجود کوئی آتا توامارت کے خدام کی خیریت دریافت کرتے۔

دیش بدیش بھاگل پور کی اشاعت بہت نہیں تھی ، لیکن جو لوگ خبروں کے پیچھے جھانکنے اور تجزیہ کاذوق رکھتے ہیں وہ مولانا کی تحریروں کو پڑھنے کے لیے ہی یہ اخبار دیکھا کرتے تھے، اس سے قارئین کو مختلف مسائل پر بھر پور واقفیت ملتی تھی ، ملی مسائل کے ساتھ انہوں نے خصوصیت سے مسلم معاشرہ میں پھیلی بے راہ روی پر لکھا اور خوب لکھا، انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تحریک اصلاح معاشرہ کے لیے کام کیا اور قدم سے قدم ملا کر چلتے رہے۔

مولانا کی شخصیت کئی اعتبار سے قابل قدر تھی،ایسی با فیض شخصیت کا جدا ہوجانا ہم سب کے لیے افسوس کا باعث ہے، ایسے موقع سے لوگ رنج وغم کی بات کرتے ہیں، غم تو فطری ہے ہوتا ہے، اور ہونا چاہیے، لیکن رنج کا کوئی موقع نہیں ہے، کیوں کہ موت تو اللہ کی جانب سے ہے ، بندوں کو اللہ کے کسی عمل پر رنج ہونے کا حق نہیں ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل بخشے آمین یا رب العالمین۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button