جنرل نیوز

عربی زبان و ادب عالمی تہذیبی ورثہ، نئی نسل اس کے فروغ میں کردار ادا کرے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشا قادری کا عالمی یومِ عربی زبان پر پیغام 

عربی زبان و ادب عالمی تہذیبی ورثہ، نئی نسل اس کے فروغ میں کردار ادا کرے

مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشا قادری کا عالمی یومِ عربی زبان پر پیغام

حیدرآباد، 18؍دسمبر (پریس ریلیز):عالمی یومِ عربی زبان کے موقع پر چیئرمین لینگویج ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشا قادری نے تمام یونیورسٹیوں، کالجوں، مدارس،جامعات و اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں عربی زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ اساتذۂ کرام، محققین، طلبہ اور عربی زبان سے شغف رکھنے والے تمام افراد کو دلی مبارک باد پیش کی ہے۔

اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ عربی زبان محض ایک زبان نہیں بلکہ علم، حکمت، تہذیب اور اسلامی ثقافت کا عظیم خزانہ ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ ﷺ کی زبان ہونے کے ناطے عربی کو ایک منفرد عالمی مقام حاصل ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے بھی عربی کو عالمی زبانوں میں شامل کر رکھا ہے۔

 

مولانا قادری نے اساتذۂ کرام سے اپیل کی کہ وہ عربی زبان کی تدریس کو جدید اسلوب، تحقیقی ذوق اور عملی افادیت کے ساتھ پیش کریں تاکہ نئی نسل اس زبان کی طرف رغبت محسوس کرے۔ انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عربی زبان سیکھنا نہ صرف دینی فہم کو گہرا کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر علمی و تحقیقی مواقع کے دروازے بھی کھولتا ہے۔

 

انہوں نے اس موقع پر حکومت سے پُرزور مطالبہ کیا کہ عربی زبان و ادب کے فروغ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں، تعلیمی اداروں میں عربی شعبہ جات کو مضبوط کیا جائے، اساتذہ کی تقرری، نصاب کی ترقی اور تحقیقی مراکز کے قیام پر توجہ دی جائے تاکہ یہ عالمی زبان اپنی اصل شان کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے مذید بتلایا کہ

زبانوں کی ترویج وتشہیر اور ترسیل وتسہیل ، ان کے بولنےاور برتنے   والوں کی دلچسپی اور ذوق وشوق پر منحصر ہے، کسی بھی زبان کو آفاقیت عطا کرنے کے لیے اس کے ساتھ گہری وابستگی ووارفتگی  اور اس کی ترویج وتشہیر پر بھی غیر معمولی محنت درکار ہوتی ہے۔وہی زبان اپنا تشخص اور وجود برقرار رکھ پاتی جس کے بولنے ، لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد روز افزوں ہوتی ہے۔

 

اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ عربی زبان کی حفاظت کی ذمہ داری خود خالق کائنات نے لے لی ہے، اس لیے یہ زبان ہمیشہ زندہ وپائندہ رہے گی، لیکن اس کو آفاقیت بخشنے کے لیے اس زبان سے وابستہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے وہ اپنے حصے کا فرض ادا کرے۔یہ سچائی ہے کہ ہندستان کے طول عرض میں پھیلے مدارس ومکاتب میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات اپنے بنیادی سبق کا آغاز ہی عربی کی ابتدائی کتاب سے کرتے ہیں، یہاں کی بنیادی تعلیم میں درجہ بہ درجہ دیگر کتابوں کے ساتھ عربی قواعدوزبان کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں، لیکن بحیثیت زبان وادب اس معیار پر توجہ نہیں دی جاتی کہ یہاں کے مروجہ نصاب کوپڑھ کر وہ خود کوعربی زبان وادب کے ماہرین کی صف میں شامل کراسکیں، البتہ وہ اس حد تک زبان سے واقف ضرور ہوجاتے ہیں کہ عربی زبان میں لکھی ہوئیں متداول کتابوں کو پڑھ کر سمجھ لیں،بالفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مدارس میں عربی کی تعلیم بحیثیت زبان وادب نہیں دی جاتی ، بلکہ عربی زبان کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے قدیم نصاب کے طور پر داخل کتب کے ذریعے ان کو عربی سے اس حد تک واقفیت ہوجاتی ہے کہ عربی زبان میں لکھی ہوئیں نصابی کتب کو بہ آسانی سمجھ لیتے ہیں، لیکن وہ عربی زبان میں ارتجالاً با ت چیت اور عربی زبان میں تحریری طور پر اپنے ما فی الضمیر کو ادا کرنے سےقاصرہوتےہیں۔ہاں یہاں ہم ان مدارس کا استثنا کرسکتے ہیں ،جہاں عالمیت یا فضیلت کے بعد عربی زبان میں اختصاص کے شعبے قائم ہیں ، یہاں سے مستفید ہونے والے طلبہ اس حد تک عربی زبان وادب پر عبور حاصل کرلیتے ہیں کہ وہ عربی زبان وادب کو بخوبی سمجھ بھی لیتے ہیں اور اپنے مافی الضمیر کو تحریری شکل دینے میں بھی کامیاب نظرآتے ہیں۔

ملک کی بیشترعصری جامعات اوربعض اسکولوں میں بھی عربی زبان داخل نصاب ہے ،جن یونیورسٹیوں میں عربی زبان وادب کی تعلیم کاسلسلہ جاری ہے ، ان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی، سینٹ اسٹیفنزکالج، دہلی یونیورسٹی، ذاکر حسین دہلی کالج، دہلی یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی، دہلی، لکھنؤ یونیورسٹی، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی، کشمیر یونیورسٹی، لکھنؤ،بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، جموں وکشمیر، بنارس ہندویونیورسٹی،ممبئی یونیورسٹی، ممبئی، الٰہ آباد یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی، حیدر آباد، افلو یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی، مولانا ابوالکلام آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد گوروبنگار یونیورسٹی، مالدہ، مغربی بنگال، بردوان یونیورسٹی، آسام یونیورسٹی، برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ،مولانامظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی، پٹنہ،  اور ایم ایس یونیورسٹی، برودہ گجرات   بطور خاص قابل ذکر ہیں ، جہاں پیشہ ورانہ طور پر عربی زبان وادب کی تعلیم دی جاتی ہے، یہاں گریجویشن ، پوسٹ گریجویشن ، ڈاکٹریٹ کے علاوہ شارٹ ٹائم اور پارٹ ٹائم کورسیز کے طور پر عربی زبان میں سرٹیفیکٹ، ڈپلوما، اڈوانسڈ ڈپلوما کرائے جاتے ہیں، یہاں فنکشنل عربی پر خاص توجہ دی جاتی ہے اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق عربی زبان پڑھائی جاتی ہے، یہاں زیر تعلیم طلبہ وطالبات میں برادران وطن بھی شامل ہوتے ہیں اور وہ عربی زبان کی تعلیم حاصل کرکے روزگار کے مواقع بھی حاصل کرتے ہیں ۔

 

یہ سچائی ہے کہ عربی زبان صرف ایک مذہبی زبان نہیں ہے ، بلکہ یہ آج معاش کی زبان بھی بن چکی ہے ، بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں عربی زبان بولنے والوں کو ہائر کررہی ہیں، سافٹ ویئر کمپنیاں بھی عربی زبان جاننے والوں کو روزگار کے مواقع فراہم کررہی ہیں، ہندوستان میں سستا علاج دستیاب ہونے کی وجہ سے بیرون ممالک بطور خاص عرب ممالک کے سیکڑوں مریض دہلی واطراف میں موجود ملٹی اسپیشلٹی ہاسپیٹلز کا رخ کرتے ہیں، یہاں مریض اور طبی عملہ کے درمیان رابطے کے لیے مترجم کی ضرورت پیش آتی ہے، اس لیے مڈیکل ٹورزم(السیاحۃ الطبیۃ) میں بھی سیکڑوں کی تعداد میں دہلی واطراف میں عربی مترجم روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔عالمی مارکیٹ میں بھی عربی زبان کے جاننے والوں کی ضرورت پیش آتی ہے، یہاں بھی کال سینٹرس اور کسٹمر کیئرس کے لیے  عربی داں افراد کو ہزاروں کی تعداد میں روزگار ملتے ہیں ۔امیزون، منترا، فلپ کارٹجیسی آن لائن کمپنیوں کو عربی داں افراد کی ضرورت پیش آتی ہے اور یہاں بھی بڑی تعداد میں عربی زبان جاننے والے ملازمت کرتے ہیں۔

 

یہ بھی حقیقت ہےکہ عربی زبان اپنی جائے پیدائش کی حد تک غیر ملکی زبان ہے، اس کے استعمال کی شرح ، اس  کی ترویج واشاعت اور اس کے سیکھنے سکھانے والوں کے تاریخی تسلسل پر نظر دوڑائی جائے تو اس کو بھی ہندستان میں فروغ  پانے والی زبان کا نام دیا جاسکتا ہے۔اکیسویں صدی میں بھی عربی زبان کا جادو صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلموں کے بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

 

یہ حقیقت ہے کہ   عربی زبان کی معاشی اور تجارتی دنیا میں بھی اہمیت بڑھتی  جارہی  ہے۔ عربی زبان ہمیں عرب ممالک اور مشرق وسطی سے مربوط رکھتی ہے جو عالمی سیاسی منظر نامے پر مستحکم شناخت کے حامل ہیں۔پٹرول ، گیس اور دوسری قدرتی اشیاء کی پیداوار صرف عرب ملکوں میں ہوتی ہے، جس کے لین دین کے لیے عربی زبان میں بہترین مترجم اور معاہدہ کار کی ضرورت پڑتی ہے، یہ کام ایک اچھا عربی داں ہی انجام دے سکتاہے۔کیا انھیں یہ معلوم نہیں کہ عربی زبان صرف قرآن و حدیث اور مذہب کی زبان نہیں، بلکہ وہ آج صنعت و حرفت اور تجارت کی زبان بھی بن گئی ہے۔ بڑے بڑے تجارتی اور سیاسی ڈیل اس زبان میں انجام پاتے ہیں۔موجودہ عہد گلوبلائزیشن کا عہد ہے۔ پوری دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ایسے میں زبانوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ عربی زبان کے ذریعے ہم عربی بولنے والے ممالک سے اپنا سیاسی اور تجارتی رشتہ استورا کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس زبان کی ترویج واشاعت میں مخلصانہ رول ادا کرنے کےلیے ضروری ہے کہ ان افراد کی حوصلہ افزائی بھی جائے جو واقعی اس زبان کی آبیاری میں روز وشب کو ایک کیے ہوئے ہیں۔کسی بھی ادارے میں اہل افراد کو موقع دیا جانا چاہیے ،تاکہ وہ خوش اسلوبی سے اس پاکیزہ زبان کی ترویج واشاعت میں اپنا فرض ادا کرےتبھی اس زبان کو وہ حق ملے گا، جس کا یہ زبان متقاضی

آخر میں مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشا قادری نے ایک مرتبہ پھر عالمی یومِ عربی زبان کے موقع پر تمام اہلِ علم، اساتذہ، طلبہ اور عربی زبان سے محبت رکھنے والوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ دن عربی زبان و ادب کے فروغ کے لیے ایک نئی تحریک کا سبب بنے گا۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button