مضامین

پروفیسر سید نسیم احمد صاحب موتی ہاری مشرقی چمپارن کو خراج

پروفیسر نسیم احمد 

✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ

پروفیسر سید نسیم احمد صاحب موتی ہاری مشرقی چمپارن نے کینسر کے موذ ی مرض سے طویل جنگ کے بعد 5 اپریل 2023ءبروز اتور بوقت ایک بجے دن سی ایم سی ہوسپیٹل ویلور میں اس دنیا کو الوداع کہا، جنازہ بذریعہ ہوائی جہاز پٹنہ اور پھر پٹنہ سے موتی ہاری لے جایا گیا، موتی ہاری روانہ کرنے سے پہلے راشٹریہ جنتا دل کے پارٹی آفس میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا، موتی ہاری میں ان کی نماز جنازہ ان کے داماد مولانا اسامہ شمیم ندوی نے 7 اپریل کو بعد نماز جمعہ پڑھائی اور انجمن اسلامیہ کے صدر قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، اس طرح ایک علمی، ملی، سماجی اور سیاسی شخصیت کی حیات وخدمات کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہو گیا، پس ماندگان میں دوسری اہلیہ چھ لڑکا اور دس لڑکی کو چھوڑا۔

 

 

پروفیسر سید نسیم احمد بن محمد یونس (ولادت 1904) بن سید امانت حسین بن سید ریاست حسین کی ولادت 7 جنوری 1938ءکو ان کے آبائی وطن بارو، برونی موجودہ ضلع بیگو سرائے میں ہوئی، مرحوم کی والدہ کا نام بی بی فضل النساء(ولادت1912) تھا، پروفیسرصاحب نوبھائی، بہن تھے، جن میں سے دو بھائی کا انتقال ایام طفلی میں ہو چکا تھا، ابتدا سے ہائی اسکول تک کی تعلیم رادھا کرشنن چمریا اسکول برونی ضلع مونگیر سے پائی، آئی اس سی اوربی اس سی راجندر کالج چھپرہ سے کیا، ایم ایس سی کی ڈگری ال اس کالج مظفر پور سے حاصل کیا۔

 

 

محمد یونس صاحب کی شادی سید جواد حسین رئیس رانی کوٹھی موتی ہاری کی دختر نیک اختر بی بی فضل النساءسے ہوئی تھی، اس لیے پروفیسر صاحب کے والد1944ءمیں رابی کوٹھی لوہر پٹی ، موتی ہاری، بارو سے نقل مکانی کرکے آبسے،1960ءمیں یہ خاندان نشاط منزل بلواٹولہ موتی ہاری منتقل ہو گیا، ان دنوں پروفیسر صاحب کی رہائش یہں تھی۔

 

 

پروفیسر نسیم احمد صاحب نے دوشادیاں کیں، پہلی بی بی زینب النساءتھیں، جن سے اللہ رب العزت نے چھ لڑکیاں اور تین لڑکے کل نو اولاد عطا فرمائی، دوسری اہلیہ مہر النساءبیگم سے تین لڑکے اور پانچ لڑکیاں کل آٹھ بچے ہوئے، یعنی دونوں اہلیہ سے سترہ بچے تھے، جن میں ایک لڑکی بچپن میں فو ت ہو گئی، اب دونوں اہلیہ کے تین تین لڑکے اور پانچ پانچ لڑکیاں کل سولہ اولاد حی القائم ہیں، پروفیسر صاحب کی زندگی اس دور میں اہل وعیال کے اعتبار سے بھی نمونہ تھی، کیوں کہ آج کل تو دو یا تین بچے کے اچھے ہونے کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔تدریسی زندگی کا آغاز انہوں نے گوپال شاہ ہائی اسکول موتی ہاری سے سائنس ٹیچر کی حیثیت سے کیا، یہ 1963ءکا سال تھا، صرف تین ماہ کے بعد آپ کی بحالی ایم اس کالج موتیہاری میں فزکس کے لکچرر کے طور پر ہوگئی، ترقی کرتے ہوئے آپ پروفیسر کے عہدہ تک پہونچے اور2001ءمیں یہیں سے سبکدوش ہوئے۔

 

 

آپ ایک اچھے استاذ کے ساتھ اچھے سیاست داں بھی تھے، زندگی کے مختلف ادوار میں وہ سینوکت سوشل پارٹی(SSP)جنتا پارٹی، جنتا دل اور راشٹریہ جنتا دل سے وابستہ رہے، انہوں نے 1968ءمیں جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر بتیا پارلیمانی حلقہ، اور1985ءمیں اسی پارٹی کے ٹکٹ پر سوگولی حلقہ اسمبلی اور 1996میں جنتادل کے ٹکٹ پر پارلیامنٹ کی رکنیت کے لیے انتخاب لڑا، لیکن کسی بھی انتخاب میں انہیں کامیابی نہیں ملی، بعض انتخابات میں آپ دوسرے نمبر تک پہونچ سکے۔

 

 

آپ کی شناخت سماجی خدمت گار کے طور پر بھی تھی، وہ بہت سارے تعلیمی اداروں کے قیام میں شریک رہے، انہوں نے ہریندر کشور کالج موتی ہاری کے صدر کے طور پر کام کیا، وہ انجمن اسلامیہ موتی ہاری کے قیام میں بھی شریک وسہیم رہے، انہوں نے انجمن اسلامیہ ، اس کے مدرسہ، یتیم خانہ، لڑکیوں کے اسکول مسجد اور صدر قبرستان موتی ہاری کی خدمات کو وقیع اور ان اداروں کی تعمیر وترقی میں نمایاں رول ادا کیا۔ وہ 1972ءسے 2023ءتک انجمن اسلامیہ کے صدر منتخب ہوتے رہے، وہ مدرسہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا اور مدرسہ منبع العلوم مادھو پور مشرقی چمپارن کے لیے بھی جو کچھ بن پڑتا، کر گذرتے تھے، اس طرح دیکھیں تو ان کی زندگی علمی ، سماجی ، سیاسی اور ملی تھی، وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، جس کی وجہ سے وہ لوگوں میں مقبول ومحبوب رہے، ان کے گذر جانے سے موتی ہاری، بلکہ مشرقی چمپارن میں بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔

 

 

پروفیسر نسیم احمد صاحب امارت شرعیہ اور ان کے اکابر سے بہت قریب رہے، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے وہ گرویدہ تھے، اور قاضی صاحب نے جب آل انڈیا ملی کونسل قائم کیا تو وہ علاقہ میں اس کے دست وبازو بنے، امارت شرعیہ کے ایک زمانہ میں مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے، اور مٹنگوں میں پابندی سے شریک ہوا کرتے تھے، آخری بار امارت شرعیہ وہ امیر شریعت سابع کو انجمن اسلامیہ تشریف لانے کی دعوت دینے کے لیے آئے تھے، ان کے ساتھ قاری جلال صاحب قاسمی امام جامع مسجد موتی ہاری بھی تھے، حضرت کا سفر ایک نکاح پڑھانے کے سلسلے میں موتی ہاری کاہو ا تھا۔

 

 

میری ملاقات ان سے امارت شرعیہ میرے آنے سے پہلے سے تھی، ایم، ایس کالج موتی ہاری بعض ضرورتوں کی وجہ سے بھی جانا آنا رہا، ابا بکر پور کے ایک پروفیسر بھی وہاں تھے، ان کی قربت کی وجہ سے بھی پروفیسر صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، بعد میں جب کبھی موتی ہاری جانا ہوتا، جامع مسجد میں حاضری ہوتی اور پروفیسر صاحب سے بھی ملاقات ہوجایا کرتی تھی، آل انڈیا ملی کونسل کے اُس علاقہ کے دورہ اور بعض مدارس کے جلسے میں بھی ان کا ساتھ رہا، جانا ایک دن سب کو ہےپروفیسر صاحب نے الحمد للہ لا نبی عمر پائی، لیکن ان کا فیض اس قدر عام تھا کہ ان کے جانے کے بعد خلا محسوس ہونا فطری ہے، یوں کسی کے جانے سے نہ تو کاروبار زندگی میں رکاوٹ آتی ہے اور نہ ہی روئے زمین پر اندھیرا چھاتا ہے، وہ جو کسی کے مرنے پر کہتے ہیں کہ ایک چراغ اور بجھا ، تاریکی اور بڑھی، یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، ہم سب کا عقیدہ ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ آسمان وزمین کا نور ہے، اور اس کو فنا نہیں ہے، اس لیے آسمان وزمین میں تاریکی کیسے پھیلے گی، اللہ سے دعا ہے کہ وہ پروفیسر صاحب کی خدمات کو قبول کرے اور ان کے سیئات کو در گذر کرکے جنت کے فیصلہ فرمادے ۔ آمین یارب العالمین

متعلقہ خبریں

Back to top button