مضامین

خواتین پر رسول اکرم ﷺ کے احسانات


عبدالغفار صدیقی
9897565066
رسول رحمت ؐ کی سیرت اور ہدایات کے مطالعے سے آپ یہ محسوس کریں گے کہ نبی اکرم ؐ کی بعثت اگر کسی طبقہ ئ انسانیت کے لیے سب سے زیادہ مفید ہے تو وہ خواتین کا طبقہ ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ ؐ عورت کو عزت اور آزادی دلانے کے لیے ہی مبعوث کیے گئے تھے۔عورت کو دور جاہلیت میں عام انسانی حقوق بھی حاصل نہیں تھے،ایسا صرف عرب میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں تھا۔وہ صرف خادمہ تھی،اسے رائے دینے کا کوئی حق نہ تھا،اس کو تعلیم حاصل کرنے کے آزادی نہ تھی،کاروبار کرنے اور قیادت کرنے کے بارے میں تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔اللہ کے رسول ؐ نے خدائی ہدایات کی روشنی میں ان کو وہ حقو ق عطا فرمائے جن کے بارے میں نام نہاد آزاد خیال اورآج کے روشن خیال دانشور سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔مگر افسوس ہے کہ اسی اسلام کے ماننے والے اور اسی رسول سے محبت کرنے والے ان تعلیمات کو بیان کرتے ہیں،سنتے ہیں،فخر کرتے ہیں مگر عملی جامہ نہیں پہناتے اگر مسلم معاشرہ خواتین کے حقوق کے معاملے میں ایماندارانہ عمل کرتا تو کسی باطل نظام کو ان کو بہکانے،ورغلانے اور خود کو ان کا خیر خواہ ثابت کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
سب سے پہلا احسان جو اللہ کے رسول ؐ نے خواتین پر کیا وہ انھیں زندہ رہنے کا حق دے کر کیا۔دور جاہلیت میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی ماردیا جاتا تھا۔آج کی متمدن دنیا میں ماں کے پیٹ میں ماردیا جاتا ہے۔لڑکیوں کو مارنے کے پیچھے بعض عرب قبائل کی سوچ یہ تھی کہ بڑی ہونے کے بعد اس کی شادی ہوگی اور ہمارا کوئی داماد بنے گا۔انھیں داماد بنانے کا عمل ذلت بھرا دکھائی دیتا تھا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ لڑکیاں معاشی بھاگ دوڑ میں باپ کا سہارا نہیں بن سکتی تھیں،بلکہ ان پر خرچ کرنا پڑتا تھا،تیسری وجہ یہ تھی کہ وہ میدان جنگ میں مردوں کی طرح مقابلہ کرنا تو کجا ان کی حفاظت بھی مردوں کوکرنا پڑتی تھی۔لیکن رحمۃ اللعٰلمین ؐ کی آمد نے انھیں جینے کا حق دیا۔آپ ؐ نے اعلان فرمادیا کہ ”جس نے دو لڑکیوں کی پرورش وتربیت کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) ہوں گے“۔ (یہ کہہ کر) آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ملا لیا(مسلم)دوسری حدیث میں آپ ؐ نے فرمایا:”جس شخص کے پاس دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے جب تک کہ وہ دونوں اس کے ساتھ رہیں، یا وہ ان دونوں کے ساتھ رہے تو وہ دونوں لڑکیاں اسے جنت میں پہنچائیں گی۔“(ابن ماجہ)بعض روایات میں آتا ہے کہ اگر رسول اکرم ؐ سے ایک لڑکی کے بارے میں بھی معلوم کیا جاتا تو آپ یہی جواب دیتے۔آپ ؐ کے اس اعلان سے بیٹیوں کی پرورش نے عبادت کی شکل اختیار کرلی اور اہل ایمان نے خوشی خوشی ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ ادا کی۔آج بھی مسلم معاشرے میں باپ کو اپنی بیٹیوں سے بہت محبت ہوتی ہے۔
دوسرا احسان یہ ہے کہ تعلیم کے حصول،تحائف کے لین اور پرورش میں مساوات کا حق دیا۔آپ نے علم کے حصول کو مردو عورت دونوں پر فرض کیا،آپ جس طرح مرد صحابہؓ کی تعلیم دیتے اسی طرح صحابیاتؓ کو بھی مجلس میں شریک کرتے،آپ نے ان کے لیے الگ سے ایک دن بھی خاص فرمایاتھا،جس دن صرف خواتین سے ہی خطاب ہوتا اور ان کے سوالوں کے جواب دیے جاتے،جمعہ و عیدین میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی شریک ہوتیں اور ارشادات نبویؐ سے فیضیاب ہوتیں،مساوات کے ضمن میں نبی اکرم ﷺ کو یہ بھی پسند نہیں تھا کہ کوئی باپ تحائف کے لین دین میں فرق کرے۔ایک بار حضرت بشیرؓ اپنے بیٹے کو لے کر آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا:”اے اللہ کے رسولؐ!میرے پاس ایک غلام تھا وہ میں نے اپنے اِس لڑکے کو دے دیا ہے۔ نبی کریم ؐ نے پوچھا: اے بشیر ؓ کیا تم نے اپنے ہر لڑکے کو ایک ایک غلام دیا ہے۔حضرت بشیرؓ بولے:”نہیں۔“ پیارے نبیؐ نے فرمایا:”اس غلام کو تم واپس لے لو، اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان مساوات وبرابری اختیار کرو۔“ (بخاری ومسلم)
ایک بار نبی کریم ؐ تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آکر آپؐکے پاس بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعداس کا ایک بچہ اور ایک بچی آئی۔اس نے بچہ کو اپنی گود میں بٹھالیا اور بچی کو نیچے زمین پر۔ آپؐ نے یہ دیکھ کر اس آدمی کو مخاطب کرکے فرمایا:”جب تمہاری یہ بچی بے انصافی لے کر کل تمہارے سامنے آئے گی تو تم اللہ کو کیا جواب دوگے؟“
آپ ؐ نے خواتین کو ”ماں“کی حیثیت میں وہ عظمت و بلندی عطافرمائی کہ آسمان کی رفعتیں بھی کم پڑگئیں،جنت کو ان کے قدموں میں لاکر رکھ دیا۔باپ کے مقابلے ماں کی آواز پر پہلے لبیک کہنے کی ہدایت فرمائی۔حالت ضعف میں ”اف“ تک کہنے کی ممانعت فرمائی۔جب ایک صحابی ؓ نے دریافت فرمایا کہ میرے سب سے اچھے سلوک کا مستحق کون ہے؟ تو جواب میں آپ نے فرمایا ”تیری ماں“۔یہ سوال صحابی نے چار مرتبہ کیا،آپ نے اول تین بار جواب میں تیری ماں کہا اور چوتھی باردریافت کرنے پر فرمایا ”تیراباپ“
آپ کا یہ احسان ہے کہ آپ نے عورت کو غلامی سے آزاد کرایا۔باندیوں کو آزاد کرنے پر اجروثواب اور جنت کی نعمتوں کی بشارتوں کا اعلان کیا۔آپ ؐ نے تاکید فرمائی کہ انھیں وہی کھلاؤ،وہی پہناؤ جو تم کھاتے اور پہنتے ہو۔ان سے نکاح کی ترغیب دے کر باعزت زندگی عطا فرمائی بلکہ اللہ تعالیٰ نے مشرک حسینہ کے مقابلے مسلمان باندی کے ساتھ نکاح کا حکم دے کر باندیوں کو ملکہ بنادیا۔
وراثت میں حق دار بنا کر خواتین پر احسان عظیم کیا گیا۔بیٹی کا باپ کی جائداد مین حصہ،بیوی کی حیثیت میں شوہر کے ترکہ میں حصہ اور اولاد کی کمائی میں ماں کا حصہ مقررکیا گیا میت کے ترکے کا وارث بنا کر عورت کو معاشی سطح پر طاقتور بنایا گیا۔نکاح میں مہر کو لازمی کرکے عورت کو مال کا مالک بنایا گیا۔انھیں عبادت گاہوں میں جانے کی اجازت دی گئی،ہر نیک عمل میں انھیں مردوں کے برابر اجرو ثواب کا مژدہ سنایا گیا۔غرض اس دور میں جب کہ اسے نہ جینے کا اختیار تھا،نہ مال رکھنے کا،بلکہ وہ خود ایک ترکہ تھی جو شوہر کے مرنے کے بعد تقسیم ہوجاتی تھی اور بعض مذاہب میں تو اپنے بڑے بیٹے کے حرم کی زینت بن جاتی تھی،جس دورمیں ”ڈھول،گنوار،شودر اور ناری“ کو اذیت کا مستحق قرار دیا جارہا تھا۔اس دور میں نبی اکرم ﷺ کی یہ انقلابی تعلیمات کسی معجزے سے کم نہ تھیں۔ انھیں تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ دور رسالت میں خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا۔حضرت عائشہ ؓ وہ خاتون ہیں جنھوں نے اکیلے زندگی کے ہر میدان میں نمایاں رول ادا کیا، انھوں نے علم حدیث میں خواتین میں سب سے زیادہ احادیث روایت کیں،میراث کا علم سیکھا،مرد بھی ان سے علم سیکھتے تھے،وہ علم طب کی بھی ماہر تھیں،وہ شاعرہ بھی تھیں۔حضرت زینب ؓ چمڑے کی دستکار تھیں،ام مبشر انصاریہؓ زراعت کی ماہر تھیں،ام عطیہؓ طبیب اور جراح تھیں یعنی آج کل کی زبان میں سرجن تھیں،حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ بڑی تاجرہ تھیں،حضرت خنساء ؓ کی شاعری مجاہدین کے حوصلوں کو بڑھاتی تھی،حضرت ام عمارہ ؓمیدان جنگ میں خواتین کی قیادت کرتی تھیں،تمام جنگوں میں نرسنگ کاکام خواتین کے ذمہ ہوتا تھا وہی زخمیوں کو پانی پلانے کا کام کرتی تھیں،وہ تیر انداز بھی تھی اور تلوار بھی چلاتی تھیں،وہ خیمے بناتیں،تیر بناتیں اور تلواریں تیز کرتی تھیں۔حضرت اسماء بنت مخزمہ ؓ عطر کا کاروبار کرتی تھیں،حضرت خولہ خود کماتیں اور اپنے شوہر پر خرچ کرتی تھیں۔حضرت شفاء ؓعہد رسالت میں مدینہ مارکیٹ کی نگراں مقرر کی گئی تھیں۔
ماہ ربیع الاول میں سیرت رسول اکرم ؐ کا بیان کرنے والوں،محفل نعت سجانے والوں اور میلاد کی مجلس منعقدکرنے والوں سے میری گزارش ہے کہ حضور اکرم ٌ کی محبت میں آپ جلسے کیجیے،جلوس نکالیے،حلوہ کھائیے،گھر اور آنگن کو سجائیے،شہر کے کوچوں میں چراغاں کیجیے۔لیکن ایک بار ذرا اپنے اعمال پر بھی نظر ڈال لیجیے۔ایسا نہ ہو کہ ہمارا کوئی عمل سیرت رسول ؐ اور اسوہ ئ نبی سے میل ہی نہ کھاتا ہو،بلکہ ان کی تعلیم کے خلاف ہو،اگر ایسا ہوا تو جلسے،جلوس،نعرے اور چراغاں کسی کام نہ آسکیں گے۔وہ خواتین جو باطل کی چکا چوندھ سے متاثر ہوکر دامن رحمت چھوڑ کر شیطان کے جال میں پھنس رہی ہیں انھیں ایک بار اپنے نبی ؐ کی تعلیمات کا مطالعہ کرنا چاہئے،واعظین کرام جو ہر وقت اہل ایمان کی داڑھی اور پاجامے ناپتے رہتے ہیں،مسواک اور سرمے کی سنتیں بیان کرتے ہیں،ہر نماز میں،دین کی بات اور دین کا مشورہ کرتے ہیں،اپنے مقتدی و متبعین کو حضور اکرم ﷺ اور اسلام کی اُن تعلیمات سے بھی آگاہ فرمائیں جو خواتین کے حقوق و اختیارات سے متعلق ہیں۔
ذلیل تھی ہر سمت عورت اسے عطا کی زہے عنایت
نقاب عفت،حیاکی چادر،درود تم پر سلام تم پر
٭٭٭

متعلقہ خبریں

Back to top button