مضامین

مسجد نور اتحاد بین المسلمین کا مرکز ، جہاں 40 سے زائد ممالک کے مسلمان ایک ساتھ نماز، افطار اور تراویح پڑھتے ہیں.

ڈاکٹر محمد قطب الدین ،(ماہر نفسیات ،شکاگو امریکہ:

 

مسجد نور ساؤتھن بینڈ انڈیانا،امریکہ ،اتحاد بین المسلمین کا مثالی مرکز. ڈاکٹر محمد قطب الدین

 

بتان رنگ و بو چھوڑ کر اپنی ملت میں گم ہو جا

مسجد میں افطار کے وقت جو منظر ہوتا ہے وہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم گویا حرمین شریفین کے صحن میں بیٹھ کر افطار کررہے ہیں جہاں دنیا بھر سے مسلمان جمع ہوتے ہیں اور دسترخوان پر اللہ کی وہ تمام نعتیں جس میں انواع و اقسام اور دنیا بھر کے پھل فروٹ دسترخوان پر سجے ہوتے ہیں..

اخوت کی جہاں گیری محبت کی فراوانی

کیا شعیہ کیا سنی، کیا حنفی کیا شافعی، کیا کالے کیا گورے، کیا چھوٹے کیا موٹے سب ایسے بیٹھے ہیں جیسے ایک خاندان و گھر افراد ہو اور وہ بہت دنوں کے بعد مل رہیں ہوں. علامہ اقبال نے شاید انہی کے لیے کہا ہو

*بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے*

*تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے*

رمضان المبارک کی برکتیں،رحمتیں اپنی آنکھوں سے اترتیں ہوئی ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو خلوص و محبت سے کبھی کھجور پیش کررہا ہے تو کبھی کوئی پھل تو کبھی کوئی مشروب پلا رہا ہے..

یہی کچھ منظر صبح سحر میں بھی ہوتا ہے..

بڑے خشوع و خضوع سے تراویح کی نمازیں بھی پڑھی جارہی ہیں قیام لیل بھی کیا جارہا ہے.

بوڑھے اور ضعیف حضرات تو نوجوانوں سے ہر معاملہ میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں. عبادت میں بھی اور خدمت میں بھی..

نوجوانوں کو کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت، ذکر و اذکار، کرتے دیکھ رشک آرہا ہے.

عبادت سے فارغ ہونے کے بعد تمام لوگ اپنے اپنے علاقوں، ملکوں کے حالات و واقعات پر تبصرہ بھی کرتے ہیں. دنیا بھر میں مسلمانوں کی حالات زار اور اس سے باہر نکلنے کی تدابیر بھی سوچتے دکھائی دیتے ہیں. معاشی ومعاشرتی، تعلیمی و سماجی ،ملی و مذہبی مسائل کا صرف رونا نہیں روتے بلکہ ٹھوس و مثبت اقدامات کے ساتھ بہترین نتائج کا عزم و ارادہ بھی کرتے ہیں.

تین یونیورسٹیوں میں چالیس سے زائد ممالک کے مسلمانوں کاایک ماہ تک دینی و روحانی ماحول میں جمع ہونا آپس میں مل بیٹھنا قوم و ملت کے بارے میں سوچنا بہت بڑا کام ہے بلکہ اللہ کا خصوصی فضل و کرم ہے اور رہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے.

افطار، نماز روزہ میں مقامی غیر مسلم آبادی کی شمولیت قابل دیدنی ہوتی ہے.. مقامی باشندے جس میں اکثریت عیسائیوں کی ہوتی ہیں اپنے اہل و اعیال کے ساتھ بڑے شوق و ذوق کے ساتھ شریک ہوتے ہیں بلکہ انہیں شدت سے رمضان المبارک کی آمد کا انتظار رہتا ہے..

سب سے زیادہ جو بات ان کو متاثر کرتی ہے وہ یہ کہ مسلمان ایک صف میں بیٹھ کر افطار کرتے ہیں، محبت و خلوص سے پیش آتے ہیں، خود کھانے سے زیادہ دوسروں کو کھانے پر ترجیح و خوشی محسوس کرتے ہیں.

افطار کا دسترخوان تو بین الاقوامی کھانوں گویا مقابلہ ہوتا ہے.. مراکش، فلسطینی، عربی و ہندوستانی کھانوں کی ایک سے ایک سے ایک ڈیس وہاں ہوتی ہے اور ان کھانوں میں سب سے اہم بات ایمان اخلاص و محبت کا جذبہ کار فرما ہونا ہے..

جس طرح رمضان المبارک کے مہینے میں ہم نمازوں کی پابندی کرتے ہیں دوسری عبادتوں اور نیک اعمال کا اہتمام کرتے ہیں یہ عمل سال بھر ہونا چاہیے. کوشش یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے ساتھ کام کرنے والے دیگر مذاہب و ادیان کے لوگوں کو بھی شامل کریں.

آج پوری دنیا شدید ذہنی آزمائش میں مبتلا ہے ہزاروں لوگ خود کشی کررہے ہیں، پاگلوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں، زبردست نشے کے عادی ہوگئے ہیں وہ ہمدردی و محبت کے دو میٹھے بول سننے کے لیے ترس گئے ہیں،انہیں دولت سے زیادہ پیار، محبت، انسانی ہمدردی کی ضرورت ہے اور اس یہ صرف اسلام اور مسلمان دے سکتے ہیں. اس لیے دنیا کے مسلمانوں پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں سے خالص اللہ کی خوشنودی کے لئے محبت کریں اپنی جتنی گنجائش ہو اتنی دوسروں کی مدد کریں. میں سمجھتا ہوں کہ انسانیت کی خدمت کا اس سے بڑا اور اچھا موقع کبھی تاریخ میں مسلمانوں کو نہیں ملا ہوگا..

متعلقہ خبریں

Back to top button