مضامین

ادب اطفال کا تابندہ ستارہ متین اچل پوری

متین اچل پوری افادی ادب کے نمائندہ تھے۔انھوں نے جو لکھا بامقصد لکھا

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
9897334419
ریاست مہاراشٹربھارت کی وہ اکلوتی ریاست ہے جہاں اس وقت سب سے زیادہ اردو میڈیم اسکول اور کالج ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں طبع آزمائی کرنے والے افراد بھی یہاں زیادہ ہیں۔دہلی،لکھنو اور حیدرآباد جنھیں اردو کا مسکن ومولد ہونے کا شرف حاصل ہے،لگتا ہے انھیں ہی اردو کا مدفن ہونے کا الزام بھی برداشت کرنا پڑے گا۔دہلی اور لکھنو سمیت پورے اترپردیش میں اردو کا جنازہ نکل رہا ہے۔اردو قارئین کی تعداد روزانہ گھٹ رہی ہے۔تلنگانہ کے قیام سے حیدرآباد میں کچھ امکانات روشن ہوئے ہیں۔مہاراشٹر میں ودربھ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہاں اردو ادب کی تمام اصناف پر کام ہوا ہے اور ہورہا ہے۔جہاں تک بچوں کے ادب کی بات ہے تو موجودہ زمانے میں ریاست مہاراشٹر کو برتری حاصل ہے۔یہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی اپنی قابلیت، صلاحیت، تجربات، مشاہدات اور ذہانت کے جوہر دکھائے ہیں اور ناول، ناولٹ، افسانہ نگاری، افسانچہ نگاری اور شاعری کے ساتھ ساتھ ادبِ اطفال میں بھی اپنی ہنرمندی کے ثبوت پیش کیے ہیں۔اس فہرست میں ایک اہم نام متین اچل پوری کا ہے۔
متین اچل پوری جن کا اصل نام محمد متین ہے اچل پور ضلع امراؤتی (مہاراشٹر)میں 18 جنوری 1950کو پیدا ہوئے۔72سال کی عمر میں 18اکتوبر 2022کو انتقال ہوگیا۔آپ کے والد کا نام شیخ محمد اور والدہ کا نام حنیفہ بانو ہے۔اللہ تعالیٰ جسے بہت زیادہ کامیابی دینا چاہتا ہے تو اس کے سر سے والدین کا سایہ ہٹادیتا ہے۔تاریخ میں ایسے ہزاروں نام ہیں جنھوں نے حالت یتیمی میں پرورش پاکر کمال حاصل کیا ہے۔اللہ ان کی براہ راست سرپرستی فرماتا ہے۔اللہ نے صرف نو سال کی عمر میں آپ کو یتیم کردیا۔والد اور والدہ کا سایہ یک بعد دیگرے سر سے اٹھ گیا ۔متین اچل پوری کی پرائمری تعلیم مقامی اسکول میں ہوئی،بعد میں امراؤتی کے”سنت گاڈ گے بابا یونیورسٹی“ سے آپ نے ایم اے بی ایڈ کیا۔ ایم اے میں آپ نے ٹاپ کیا،یونیورسٹی کی جانب سے میڈل دیا گیا،تعلیم سے فراغت کے بعد آپ شعبہئ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔پہلے کچھ پرائیوٹ اسکولوں میں یہ خدمت انجام دی۔1990میں سرکاری اسکول سے وابستہ ہوئے 2007میں آپ ملازمت سے ریٹائرہوئے۔
طالب علمی کے زمانے سے ہی ادب سے دل چسپی پیدا ہوئی،ابن صفی کے ناول پڑھنے لگے۔اس کی زبان کی چاشنی اور کلائمکس نے کہانیاں لکھنے کی صلاحیت پیدا کی۔مسلسل محنت اور مشق نے کہانی کار بنادیا۔1970میں شعر و شاعری سے شغف ہوا۔پہلے پہل غزلوں میں طبع آزمائی کی۔لیکن جلد ہی بچوں کے ادب کی طرف مائل ہوگئے اور آخر کار اسی کو اوڑھنا بچھونا بنالیا۔آپ کی تخلیقات ملک بھر کے اردو رسائل و اخبارات میں شائع ہونے لگیں۔
آپ کی اب تک 13/ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔3زیر طبع ہیں۔اکشر دھارا کے گیت ہندی (1991ء)قلم کے موتی (1992ء) الفاظ کے شگوفے(2007)، حرفوں کا پیغام (2007ء)،ننھی منی استانی (2010ء) عکس رواں (2015 ء)،لاڈلے جانور (2015ء) تجلی زار (2016ء)، یتیم کی آواز (2016ء)، دنیا کی ضرورت بن جاؤں (2020ء)، کام کے گیت(2020ء)، صحرا میں نخلستان(2020ء)، ممتا کی ڈور (2020ء)، ماحول نامہ (زیر طبع)، بنتِ حوا کی فریاد (زیرِ طبع)، نقشِ نوک قلم (زیر طبع)
متین اچل پوری کو اللہ نے عزت اور شہرت دونوں سے نوازا،انھیں ادبی سمیناروں میں شرکت کا موقع ملا،ادبی پروگراموں میں ان کی شرکت کامیابی کی ضمانت بن گئی۔تعلیم وتربیت اور ادب کے لیے آپ کی ان بے لوث خدمات کے اعزاز میں حکومت ہند نے صدر جمہوریہ ہند کے ہاتھوں آپ کو 1990ء میں مثالی مدرس کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا۔اردو کے ادبی رسائل میں ماہنامہ شاعر کا اپنا ایک مقام ہے۔ماہنامہ شاعرنے 2016میں نومبر کا شمارہ آپ کی شخصیت کے تعارف اور آپ کی ادبی خدمات کے تعلق سے شائع کیا۔ماہنامہ ”گلشن اطفال“نے اپریل 2016میں آپ پر خصوصی گوشہ شائع کرکے آپ کی ادبی کاوشوں کو سراہا۔سن 1980 کا جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا اعزاز اور سن 1988 میں ضلع امراوتی کا مثالی معلم ایوارڈ آپ کے حصے میں آیا، ”قلم کے مو تی“ اور ”حرفوں کا پیغام“ سن 2008 میں حکومتِ مہاراشٹر اور اتر پردیش اردو اکیڈمی کے انعامات کی حق دار قرار دی گئیں۔
متین اچل پوری افادی ادب کے نمائندہ تھے۔انھوں نے جو لکھا بامقصد لکھا۔چونکہ وہ بچوں کے استاذ تھے اور استاذ معمار ہوتا ہے،معمار کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ تعمیر کرتا ہے اگر اسے کسی وجہ سے کوئی تخریب بھی کرنا ہوتی ہے تو اس کی وجہ بھی تعمیر نو ہوتی ہے۔اس لیے متین اچل پوری کا قلم ایک مصلح کا قلم ہے،کہیں کہیں وہ سرجن کا نشتر بن گیا ہے لیکن وہاں بھی اس کا مقصد اصلاح ہے۔انھوں نے زندگی کے تمام شعبوں کو اپنی نظموں اور کہانیوں میں سمیٹا ہے۔وہ جہاں بچوں کے عقائد درست کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،جہاں انھیں اخلاقی تعلیم دیتے ہیں،وہیں وہ سائنسی ایجادات کی افادیت سے آگاہ کرکے انھیں تحقیق و تجسس کی طرف راغب کرتے ہیں۔وہ ماحولیات کے تحفظ کی خاطر درختوں کی افادیت اور پالتھن کے مضرات پر روشنی ڈالتے ہیں۔انھوں نے جانوروں پر اتنی نظمیں لکھیں کہ ایک مجموعہ لاڈلے جانور کے نام سے منظر عام پر آگیا۔ان کی چند نظموں کے نمونہ ملاحظہ کیجیے۔
درختوں کی افادیت کو اس طرح الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں۔
درخت راہوں میں جو کھڑے ہیں
مسافرو! قدر داں بڑے ہیں
یہ پیڑ فطرت کے ہم زباں ہیں
یہ پیڑ صدیوں سے میزباں ہیں
موحولیات کی آلودگی میں پالتھین سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں تو کہتے ہیں۔
دلّی ہو یا ہو برلن
گھاتک ہے یہ پالی تھن
شہر ہیں اس کے اس کے گاوں
لیکن میں اس سے گھبراؤں
اس سے مجھے آتی ہے گھن
گھاتک ہے یہ پالی تھن
ماحولیات کے تحفظ میں صفائی کی اہمیت اور رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات کا اظہار کس قدر خوبصورت لہجے میں کرتے ہیں۔
صفائی ہے کیا، نصف ایمان ہے
نصیحت یہ فرما رہے ہیں نبیؐ
فضاؤ ں کو آلودگی سے بچائیں
حفاظت کریں ہم بھی ماحول کی
متین اچل پوری نے اگر ”ہوا“پر نظم کہی تو بدلتے زمانے کے ساتھ ”آکسیجن“ کو بھی اپنی نظم کا موضوع بنایا۔ملاحظہ کیجیے۔
تازہ ہوا ہے سب کی ضرورت
ہر پل، ہر لمحے، ہر صورت
بھر دیتی ہے تن میں چستی
نو دو گیارہ ہوتی سستی
تازہ ہوا کلیوں کو کھلاتی
ہر جانب خوشبو پھیلاتی
اب ”آکسیجن“:پر دیکھئے۔
آکسیجن! شان تیری خوب ہے
تو ہراک انسان کی محبوب ہے
لازمی تو سب کے جینے کے لیے
جان کے ہر آبگینے کے لیے
تو نے پوچھی کب کسی کی ذات پات
بانٹتی پھرتی ہے تو سب کو حیات
بزرگوں کی قدرو قیمت اس انداز سے بیان کرتے ہیں۔
عجب اسکول تھے وہ چلتے پھرتے
رخوں پر روشنی سی ملتے پھرتے
برائی کی وہ دیواریں گراتے
چلے تا عمر خوشبوئیں لٹاتے
زمانے میں نہ اپنا نام چھوڑا
اگر چھوڑا تو اپنا کام چھوڑا
بچوں کو تتلی سے بہت محبت ہوتی ہے،وہ اس کو پکڑنے کے دوڑتے ہیں۔ادب اطفال کے بیشتر شعرا نے تتلی پر نظمیں کہی ہیں۔متین اچل پوری کا انداز سب سے نرالا ہے۔انھوں نے تتلی اور طالب علم کا مکالمہ کراکر نظم کا لطف دوبالا کردیا ہے،آخری مصرع میں اہم سبق ہے۔آپ بھی لطف اٹھائیے
تتلی
میں فدا پنے اس گلاب پہ ہوں
حسن اس کا مجھے لبھا تا ہے
دیکھ میرے گلاب کا جادو
اس کی خوبی پہ ہوں میں اتراتی
طالب علم
میں فدا اپنی اس کتاب پہ ہوں
اس کا ہر لفظ مجھ کو بھاتا ہے
دیکھ میری کتاب کا جادو
کیا خزاں علم پر کبھی آتی؟
18اکتوبر2022کو وہ ہم سے رخصت ہوگئے،ان کا قلم ضرور رُک گیا۔لیکن متین اچل پوری ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ان کی نظمیں ہمیشہ پڑھی جاتی رہیں گی۔میرا ان سے قریبی تعلق رہا،ملاقاتیں بھی رہیں اس لیے کہ ادب اطفال ہم دونوں کا میدان رہا۔میں گزشتہ تیس سال سے بچوں کا ماہنامہ ”اچھا ساتھی“ نکال رہا ہوں،اور وہ گزشتہ تیس سال سے ہی اپنی تخلیقات مجھے مسلسل بھیجتے رہے ہیں۔ ان کی تخلیقات نے بچوں میں اردو ادب سے دل چسپی پیدا کی ہے۔ان کی اخلاقی تربیت کی ہے۔ان کو ملک اور سماج کے لیے مفید بننے کی ترغیب دی ہے،متین اچل پوری کا یہی وہ سرمایہ ہے جسے وہ زاد راہ کے طور پر سفر آخرت پر لے کر روانہ ہوئے ہیں۔میری اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے زاد راہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔آمین

مضمون نگار ماہنامہ اچھاساتھی کے مدیر،ملت اکیڈمی کے چیرمین،سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button