جنرل نیوز

ظہیر الدین علی خان ______ملّت کا ایک درخشاں ستارہ

از : محمد منظور احمد

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رات ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

کسی شاعر کا مذکورہ شعر مرحوم ظہیر الدین علی خان پر صادق آتا ہے، جن کو مرحوم کہتے ہوئے دل مضطرب ہے آنکھ پُرنم ہے اور دماغ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ ظہیر صاحب حقیقت میں ایک شخصیت نہیں تھی بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھی جس کا قلب ملت کی فلاح و ترقی کے لئے دھڑکتا تھا جس کا دماغ ملت کی تعمیر اور فلاح وبہبود کے منصوبے بناتا تھا ، یتیم یسیر بیواو ¿ں کے لئے جو ہمیشہ بے چین رہتا اور اُن کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتا۔نوجوانوں کی ہمت افزائی ان کی رہنمائی اور دین ودنیا کی ترقی کے لئے جو ہمیشہ مصروف رہتا ۔ ظہیر الدین علی خان درویش اور ولی صفت شخصیت جو سادگی کا پیکر، نام ونمود اور شہرت سے کوسوں دور او خاموش خدمت گذار، آج میں نہیں ہے ۔۔۔ خالقِ کائنات کی سنت ہے ”کُلُّ نَف ±سٍ ذَائقَةُ ال ±مَو ±ت“ ہر انسانوں کو ایک مقررہ مدت کے بعد رخصت ہونا ہے لیکن قابل فخر موت ان کی ہے جنہوں نے مظلوموں، محرموں اور بے سہارہ لوگوں کے لئے زندگی بسر کی۔

 

 

 

اُن کی فلاح وبہبود کے لئے اپنی عمر لگادی، جنہوں نے ہر قسم کے آرام اور عیش وعشرت کو بندگانِ خدا کے لئے تیج دیا جنہوں نے دولت وثروت کو ٹھکرا کر خالقِ کائنات کی خوشنودی کے لئے اپنی زندگی وقف کردی ۔ جس کی زندگی میں غرور و تکبر کے بجائے عاجزی وانکساری نمایاں تھی جس نے بڑی بڑی باتوں، خوشنما نعروں اور عظیم الشان منصوبوں کے خواب کے مقابلے میں عملی کاموں کا جال بچھایا اور ملت کی تعمیر وترقی کے بیج بوکر مسکراتا اپنے مالکِ حقیقی کے پاس رروانہ ہوگیا۔جناب ظہیر الدین علی خان صاحب یوں تو ”سیاست“ اخبار کے مینجنگ ایڈیٹر تھے اور اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور ویژن کے ذریعہ اخبار کو آسمان کی بلندی تک پہنچادئیے اور ہر اُردو قاری کے لئے سیاست کے مطالعہ کو لازم بنادیا ۔ ساتھ ہی ساتھ عابد علی خان ایجوکیشنل ٹرسٹ ، ادبی ٹرسٹ، اور سیاست ملت فنڈ کے بھی سکریٹری تھے ۔ جن کے ذریعہ لاکھوں نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کی رہنمائی اور اسکالر شپ کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ کوئی 4 لاکھ سے زائد طلبا وطالبات کو اب تک اسکالر شپ جاری کی جاچکی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں نوجوانوں نے اعلی تعلیم حاصل کی اور ملک وبیرون ملک بہترین ملازمتوں کو حاصل کرسکے ہیں۔

 

 

بے روزگار نوجوان، لڑکے ولڑکیوں کو روزگار دلانے کے لئے کمپیوٹر سنٹرس، سلائی سنٹرس، روزگار پر مبنی مختلف کورسس کی رہنمائی کے لئے ماہرین کے لکچرز اور ورکشاپ کا اہتمام ان کا بیش قیمت کارنامہ ہے ۔ جس کی وجہ سے ہزاروں نوجوانوں کو باعزت روزی کمانے کی راہیں مل سکیں ۔ کال سنٹر کی ٹریننگ، پولیس میں تقررات کیلئے ٹریننگ، اساتذہ کو ملازمت کے لئے رہنمائی مختلف Competitive امتحانات کے لئے Syllabus اور مواد کی فراہمی بھی ان ہی کے ذہن وفکر کی اپج تھی ۔معاشرہ میں شادی بیاہ کے بڑھتے مسائل اور اخلاقی خرابیوں کے خاتمہ کے لئے ایک منفرد پروگرام ” دوبدو“ کا آغاز کیا جس سے لڑکے اور لڑکیوں کے سرپرستوں کو رشتوں کے سلسلہ میں کافی مدد حاصل ہوئی ، لاوارث نعشوں کی تدفین بھی ایک اہم کارنامہ ہے جس کی جانب عموماً کسی کی نظر نہیں جاتی ۔جناب ظہیر الدین علی خان صاحب دورس نگاہوں کی حامل شخصیت تھی اورر وسیع النظری و بُردباری ان کا خاص وصف تھا ۔

 

 

ملت کی فلاح بہبود کے ہر کام کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ ملت کی تعمیر وترقی کے لئے جو بھی جماعت، ادارہ انجمن کام کرتے وہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ، ممکنہ تعاون کے ذریعہ ہمت افزائی کرتے ۔ فسادات کے موقع پر بے قصور نوجوانوں کی گرفتاری پر کافی متفکر رہتے تھے ان مظلوموں کی مدد کے لئے ماہر وکلاءکی خدمات حاصل کیں اور ملک کے مختلف شہروں کے مظلوم نوجوانوں کی رہائی کے لئے اقدمات کئے ۔ اسی طرح ملک میں کبھی بھی فسادات ہوتے تو منظم انداز میں رہائش وبازآباد کاری کے لئے زبردست کام انجام دیتے ، چنانچہ ممبئی، گجرات، اور کشمیر میں تاریخی ریلیف کا کام ان کی نگرانی میں انجام پایا ۔ جماعت اسلامی کے خدمت خلق کے کاموں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ہمیشہ جماعت کے پروگراموں میں شریک ہوتے ۔ گرمائی تعطیلات میں دینی کلاسس کا بڑے پیمانے پر انتظام وانصرام کرنا ان کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے ۔ ہر سال سینکڑوں مراکز پر بنیادی دینی تعلیم کا انتظام جس میں ہزاروں طلبا وطالبات کی شرکت انتہائی مفید اور موثر ذریعہ ثابت ہوا ۔ جس سے ہزاروں نوجوانوں نے دین سے واقفیت اور وابستگی اختیار کی۔

 

 

جناب ظہیر الدین علی خان صاحب آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کے شروع کردہ Projects ان کے چاہنے والوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ ان پروجیکٹس کو مزید موثر بنانا اور آگے بڑھانا چاہیے ۔ انہوں نے اپنا حق ادا کردیا اب ہم سب کا فریضہ ہے کہ ان کے شروع کردہ کاموں کو آگے بڑھائیں اور محض اپنی ذات کے لئے زندہ رہنے کے بجائے قوم و ملک کے لئے جینا سیکھیں !! ۔

ہائے اب تجھ سے کہاں لوگ ہیں دنیا میں

جن کے قدموں پہ سرِ ناز خم ملتے ہیں

 

 

 

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button