مضامین

کیا اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے کیے گئے وعدوں کو بھول گیا ہے؟

اللہ نے عزت اور غلبہ کا وعدہ ان مومنین سے کیا ہے جن کا ہر عمل ان کے ایمان کی گواہی دیتا ہے

عبدالغفارصدیقی
چیرمین راشدہ ایجوکیشنل اینڈ سوشل ٹرسٹ
9897565066
موجودہ زمانے میں یوں تو مسلمان ساری دنیامیں حیران و پریشان ہیں لیکن بھارت کے مسلمان کچھ زیادہ ہی ستائے جارہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ زوال کا دورانیہ ختم ہوگیا ہے اور اب غلامی کا دور شروع ہورہا ہے۔جب کسی خطہئ زمین پرخدا کانام لینے پر بھی ایف آئی آردرج ہونے لگے تو اسے ہم آزادی کہہ کر آزادی کو رسوا نہیں کرسکتے۔اس وقت حال یہ ہے کہ مسجد کو چھوڑ کر اگر آپ کہیں بھی نماز پڑھتے ہیں تو ایف آئی آر ہوجاتی ہے۔بلکہ گزشتہ دنوں مرادآباد کے ایک گاؤں میں گھر پر جماعت سے نماز پڑھنے پر بھی پولس کارروائی ہوگئی تھی۔پچھلے ہفتے اسپتال کے ایک کونے میں ایک خاتون کے نمازپر بھی قانونی کارروائی کی گئی تھی،جب کہ اسی ملک کے سرکاری دفاتر میں اپنی اپنی آستھا کے مطابق بھگوان براجمان ہیں،جن پر کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا اور نہ کرنا چاہئے،اللہ اور ایشور سے انسان کاتعلق جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر وہ نیکی اور بھلائی کے کام کرے گا۔مگراس موقع پر اکبر الٰہ آبادی کا شعر یاد آتا ہے۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجاکے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
دوسری طرف مسلمان اللہ کے سامنے رورو کر دعائیں مانگ رہے ہیں۔فاقہ کشی بھلے ہی نہ کررہے ہوں مگرچلہ کشی خوب کر رہے ہیں۔حالات کو خراب ہوتا دیکھ کر اب خواتین بھی جماعتوں میں نکل رہی ہیں،مسلمان اللہ کو خوش کرنے کے لیے اس کے نیک بندوں کے مزارات پر چادریں چڑھارہے ہیں۔کوئی چادر کو گناہ سمجھتا ہے توفاتحہ خوانی یاسیمینار کرکے یہ خواہش پوری کرلیتا ہے۔گیارہویں شریف اور بارہویں شریف کی نیازیں بدستور چلی آرہی ہیں۔قرآن بھلے ہی نہ پڑھتے ہوں یا پڑھنے والے سمجھتے نہ ہوں لیکن بطور تعویذ اس کا خوب استعمال کیا جارہا ہے،داڑھی والوں کی کثرت ہے،مختلف رنگ اور ڈیزائن کی ٹوپیاں پہنی اور پہنائی جارہی ہیں،ہر شخص محو دعاہے۔جو خود نہیں کرتا امام صاحب سے کرالیتا ہے،ویسے تو ہر جمعہ کو امام صاحب اتنی جامع دعا کراتے ہیں کہ کوئی چیز مانگنے سے نہیں چھوڑتے،بلکہ جو مانگنے سے رہ گیا ہو وہ بھی مانگ لیتے ہیں،وسیلے والے سارے وسیلوں کا استعمال کررہے ہیں،بغیر وسیلے والے بھی حبیب خدا کا وسیلہ دے ہی دیتے ہیں۔ان سب کے باوجود بھی اگر اللہ میاں ہمیں مومن نہیں سمجھتے تو اس میں بھلا ہم کیا کرسکتے ہیں۔؟(ہوسکتا ہے کچھ لوگ میرے اللہ میاں کہنے پر فتویٰ لگادیں)
اللہ میاں عرش پر بیٹھ کر (نعوذ باللہ) مسلمانوں کو ذلیل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔پہلے زبان،پھر پرسنل لاء،پھر مسجدیں،داڑھیاں،حجاب،اب مدرسے،آئیندہ اوقاف و قبرستان ہر چیز پر ابلیس کی ذریت نظر بد ڈال رہی ہے،اس کے باوجود رحمت خداوندی کو جوش نہیں آرہا ہے۔جب کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ ”اور سست نہ ہو اور غم نہ کھاؤ اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔“(آل عمران 139)”عزت تو اللہ،اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے“ (االمنافقون8)پھر بھارت کے مومنین کو ہرقدم پر کیوں ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے۔ یہاں تو ایک مسلک کے لوگ خود کو مسلمان کے بجائے مومنین کہتے ہیں،ایک گروہ نے مومن کے ساتھ انصار بھی لگارکھا ہے۔ان کی عزت بھی خاک میں ملی جارہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اللہ اپنا وعدہ بھول گیا ہے؟جب کہ وہ اپنے بارے میں کہتا ہے۔”اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے“ (التوبہ111)میں نے جب اس سوال کا جواب قرآن مجید میں تلاش کیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہم بھارت کے مسلمان جن کاموں کو دین کا جزو لاینفک سمجھ رہے ہیں،ان میں سے بیشتر کا وہاں ذکر تک نہیں،بلکہ بعض کام تو گناہ کے زمرے میں درج کیے جانے کے لائق ہیں۔سب سے پہلی بات تو قرآن نے یہ بتائی کہ اللہ کا وعدہ زبانی دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہے،خواہ ان کی داڑھی،کرتے کتنے ہی لمبے ہوں،وہ پانچ وقت کے بجائے نو وقت کی نمازیں پڑھتے ہوں۔بلکہ یہ وعدہ عملی مسلمانوں سے ہے،یہ وعدہ ان سے نہیں کہ جن کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترا،بلکہ اللہ نے عزت اور غلبہ کا وعدہ ان مومنین سے کیا ہے جن کا ہر عمل ان کے ایمان کی گواہی دیتا ہے۔جس نماز اور روزے کو ہم عمل سمجھ رہے ہیں وہ تو قرآن کی نظر میں منزل تک پہنچانے والے ذرائع ہیں۔”اے اہل ایمان صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو“ (البقرہ 153)جس روزے کو رکھ کر اللہ پر ہم احسان جتاتے ہیں،وہ تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ہے اور تقویٰ قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)،باقی رہے ہمارے عرس،چلے،گنڈے،تعویذ،بڑے اور چھوٹے پیرو مرشد ان کا تو ذکر خیر تک بھی نہیں۔
یہ وعدہ ان مومنین سے ہے جن کو اللہ نے جب بھائی بھائی بنایا تو انھوں نے اپنے بھائی سے پہلے پانی پینا گوارہ نہیں کیا،جب ان سے کہا گیا کہ ”بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے جنت ہے، اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اور قتل بھی کیے جاتے ہیں، یہ سچا وعدہ ہے“(التوبہ 111)تو انھوں نے اپنے ہاتھ کی کھجوریں تک بھی یہ کہہ کر پھینک دیں کہ مجھے احد کے پیچھے سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔یہ وعدہ رشوت اور سودخوروں،ملاوٹ کرنے والوں،کم ناپنے اور کم تولنے والوں،اپنے بھائیوں کی مخبری کرنے والوں،محض اپنے ذوق کی تسکین کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے والوں،مسجدوں،مدرسوں کے اوقاف کو بیچ کر کھانے والوں،چندے میں کمیشن کھانے والوں،قرآن سنا کر پیسہ بٹورنے والوں،تقریر کے پیسے طے کرنے والوں،پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قوم کا سودا کرنے والوں،کفر وضلالت کے اماموں کا استقبال کرنے والوں سے نہیں کیاگیا ہے۔یہ وعدہ ان سے ہے جنھوں نے اللہ کے لیے اپنی ہر چیز قربان کردی۔اللہ نے ان کے ساتھ کیا گیا ایک ایک وعدہ پورا کیا۔انھیں دنیا میں بھی حکومت و اقتدار اور غلبہ عطافرمایا اور جنت کی بشارتیں بھی دیں۔
مگر ان میں سے کسی کے ہاتھ میں تسبیح کی وہ مالا نہیں تھی جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے،ان کے پاس بدن چھپانے کو ہی کپڑے میسر تھے،قیمتی شیروانیاں نہیں تھیں،ان کی پیٹھیں دن بھر گھوڑے پر رہتی تھیں اور راتیں اللہ کے حضور سجدے میں گذرتی تھیں۔وہ کانفرنسیں،سمیناراورجلسے نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے عمل سے دین پہنچاتے تھے۔ان میں سے کوئی کسی نابینا کے گھر جھاڑو لگاتا تھا،کوئی کسی یتیم اور بیوہ کی بکریاں دوہتا تھا،کوئی حاکم بن کر بھی رات کو صرف اس لیے گشت لگاتا تھا کہ اس کی رعایا بھوکی تو نہیں سورہی ہے،وہ ہماری طرح نہیں تھے کہ تین دن کی جماعت کا امیر بھی اپنے پاؤں دبواتا ہے،اور چار مریدوں کا پیر بھی اپنے معتقدین سے مالش کراتا ہے۔ مجھے قرآن نے بتایاکہ یہ وعدہ عمل کی بنیاد پر کیا گیا تھا”اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو عطا کی تھی۔(النور55)
اللہ نے یہ وعدہ ان لوگوں سے کیا تھا جو اپنے حصے کا کام خود کرتے تھے،نہ کہ ان لوگوں سے جو سارے کام خدا سے کرانا چاہتے ہیں،جو خود کو بدلنے کے لیے ذرہ برابر کوشش نہیں کرتے۔”بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے“(الرعد11)اس نے یہ نہیں کہا کہ تم زبانی کلمہ پڑھ لو میں تمہیں بادشاہت دے دوں گا بلکہ اس نے کہا”اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا“(الحج 40)”اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمائے رکھے گا۔“(محمد7)اللہ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ تم جس چیز کو پانے کی کوشش کروگے میں وہ تمہیں دوں گا۔”اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔“(النجم39)
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مقابل قومیں،اپنی جانوں کا نذرانہ دیں،اپنا مال بھی خرچ کریں،تکلیفیں بھی اٹھائیں اور ہم محض زبانی دعوائے ایمان پر اللہ سے دنیا میں غلبہ و عزت اور آخرت میں جام کوثر و جنت کی امید رکھیں۔کیا اللہ ظالم ہے کہ وہ کسی کوبغیر کچھ کرے سب کچھ دے دے،اگر اسے ایسا کرنا ہوتا تو پھر اپنے نبیوں کو کیوں شہید کراتا۔اللہ کے نظام انصاف کا تقاضا ہے کہ خدا کے دین کا مذاق اڑانے والوں،قرآن کو پس پشت ڈال کر خواہشوں کی پیروی کرنے والوں، رسول کی اتباع کے بجائے خود ساختہ اماموں،مرشدوں،اور رہنماؤں کے پیچھے چلنے والے مسلمانوں کوذلیل و رسوا کردے۔اس وقت جو کچھ بھی بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے وہ عین خدا کا انصاف ہے۔
بھارت میں ہندو ازم کے احیاء کے لیے جس قدر کوششیں اس کے علمبرداروں نے کی ہیں،جس تعداد میں انھوں نے قربانیاں دی ہیں،جس مقدار میں مال خرچ کیا اور تکلیفیں جھیلی ہیں اگر اس کا دسواں حصہ بھی بھارت کے مسلمان کرتے تو ان کی سلطنتیں کبھی ختم نہ ہوتیں،اگر آج سے بھی شروع کردیں تو آج سے ہی حالات بدلنے لگیں گے۔”اگر تم تکلیف اٹھاتے ہو تو وہ بھی تمہاری طرح تکلیف اٹھاتے ہیں، حالانکہ تم اللہ سے جس چیز کے امیدوار ہو وہ نہیں ہیں، اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔“(النساء 104)ساری دنیا میں اگر عیسائیوں کا غلبہ ہے تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ انھوں نے جنگ عظیم میں کس قدر جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔جرمنوں نے 20لاکھ،فرانسیسیوں نے 24لاکھ،انگریزوں نے چھ لاکھ اور اطالویوں نے ساڑھے چار لاکھ کی تعداد میں اپنے پیاروں کے جنازے اٹھائے ہیں۔ اس کے علاوہ اربوں پونڈ رقم خرچ کی ہے،تب جاکر انھیں کچھ علاقوں پر غلبہ دیکھنے کو نصیب ہوا ہے۔آج بھی ان کے یہاں کے بڑے تاجر اپنے منافع کا قابل ذکر حصہ رفاہی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔جب کہ ہم صرف ڈھائی فیصد زکوٰۃ دینے میں بھی سو طرح کے سوال کرتے ہیں۔اللہ کا وعدہ سچا ہے مگرایمان کے مطابق عمل کرنے والوں سے،نہ کہ صرف زبانی نام لینے والوں سے۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button