مضامین

آمدِ مصطفیٰ سے انسانیت کو مسیحاٸی مل گٸی

ازقلم۔ابوشحمہ انصاری
سعادت گنج،بارہ بنکی
یہ کون سے شاہ بالا کی آمد آمد ہے
بولو مرحبا! بولو مرحبا!
١٢ ربیع الاول کا وہ مقدس، حسین، پرنور اور خوبصورت دن کہ جب ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔ عید منانے کا دن، خوش ہونے، خوشیاں بانٹنے کا دن، جب عرب کی ہر شے نے کلمہ پڑھا۔ انہیں بھی خبر تھی آج اللہ کے چہیتے اور آخری رسولﷺ کی ولادت کا دن ہے۔
آپﷺ کی شان میں اگر کوئی قصیدہ لب پر چڑھ جائے تو من میں سرور کی کیفیت اور ڈھیروں اطمینان اتر جاتا ہے ایسے لگتا ہے کہ مرحبا کہہ دینے سے آپﷺ کی آمد کا جو جذبہ جو ١٤ سو سال پہلے کائنات کی ہر شے نے محسوس کیا تھا وہی جذبہ اس وقت ہمارے دلوں سے گزرتا ہوا اس دنیا کی ہر شے کو اپنی چاشنی میں لے لیتا ہے۔ لگتا ہے کہ جیسے سچ میں سرکارﷺ کی ذات کا نزول ہوا چاہتا ہے۔
اور یہ واقعی میں ہو سکتا ہے کیونکہ جب بھی ہم دلی شدت سے کسی شے کو پانے کے لیے تڑپ دکھاتے ہیں تو وہ شے اللہ کی ذات ہمیں عطا کر دیتی ہے تو جب عاشق رسولﷺ ہونے کے ناطے، محافل سجا سجا کر، درود اور صلوٰۃ کے ہدیے پیش کرتے ہوتے حسرتاً یہ آرزو کرتے ہیں کہ
"کاش مولا! ہم بھی اس دور میں ہوتے کہ جب تیرے پیارے رسولﷺ کا مقدس اور حسین چہرے کا دیدار سب نے کیا تھا۔ ان کی بڑی اور روشن آنکھوں میں ان کے چاہنے والوں کا عکس نمودار ہوا تھا۔ کہ جب جہالت میں ڈوبے لوگ آپﷺ کی دی راہ نمائی سے فیضیاب ہوکر سراپا بدل گئے تھے۔ وہ آپ کو دیکھ سکتے تھے چھو سکتے تھے اور اس حد تک خوش قسمت تھے کہ ان میں بعض کی ہدایت، صحتیابی اور بخشش تک کی دعا آپﷺ نے فرمائی تھی۔ کاش کہ میرے اللہ ہم جیسے گناہگار بھی اس دور سے تعلق رکھتے۔ روز تیرے پیارے نبیﷺ کا دیدار کرتے اور ہر گناہ سے پاک ہو جاتے کہ دنیا میں ہی جنت کے حقدار ٹھہرتے۔”
یہ دعا کرتے ہوئے دور حاضر کے امتی کا ہر عضو سراپا التجا بن جاتا ہے اور اس کی شدت سے کی دعا پر فرشتے بھی آمین کہنے لگتے ہیں۔
ہوسکتا ہے تب رب العالمین فرماتے ہوں کہ "اے میرے بندے! تیری یہ دعا قبول کی جاتی ہے۔ تم دنیا چھوڑنے کے بعد جس ہستی سے ملو گے وہ میرے بعد میرے نبیﷺ کی ہی ہوگی۔”
مگر اس کے لیے سنت نبویﷺ پر چلنا اہم ہے تاکہ اپنے پیارے رسولﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم امتی زندگی کی ہر گھڑی کو اچھے پل کی طرح جیتے چلے جائیں۔
اللہ پاک خود فرماتے ہیں:
"اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میرے نبیﷺ کی اطاعت کرو.”
اور بیشک نبیﷺ کی اطاعت، اس کی پیروی کے بنا تو رب کی محبت حاصل کرنا ممکن ہی نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیا کریں کہ ہمیں لگے ہمارے اس کام سے اللہ اور اس کا رسولﷺ خوش ہوئے ہیں۔ تو اس کے بارے میں بھی حضرت عائشہ( رضی تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے کہ کسی نے آنحضورﷺ کی ذات کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا : "اگر آپ کی ذات کے بارے میں جاننا چاہتے ہو تو قرآن پاک اٹھا کر دیکھ لو۔”
مطلب یہ کہ حضور اکرمﷺ کی ذات قرآن پاک کا عملی نمونہ تھی تو آج کے دور میں یہ کہنا تو بنتا ہی نہیں ہے کہ جب رسولﷺ اس وقت ہمارے پاس نہیں ہیں تو ہم ان کی باتوں پر عمل کیسے کریں۔ ارے آپﷺ ہمیشہ موجود ہیں انہوں نے دنیا سے پردہ فرمایا ہے مگر آج بھی دل سے درود پاک پڑھ کر آپﷺ کے وسیلے سے کوئی دعا مانگو تو وہ بہت جلد قبول ہوگی۔ ان شاءاللہ عزوجل۔
اور یہ بات میری آزمودہ ہے۔ زندگی میں جب بھی کوئی مشکل پیش آئے تو دس مرتبہ خلوص نیت سے درود پاک پڑھیں اور اللہ پاک کے سامنے دعا کریں کہ اس کے پیاری حبیبﷺ پر بھیجے گئے اس سلام کے صدقے یہ جائز حاجت پوری ہو اور پریشانی دور ہو۔ یقین مانیں ابھی وہ ٹینشن ذہن سے دور بھی نہ ہوئی ہوگی کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور لگے گا جیسے کوئی پریشانی تھی ہی نہیں۔
مگر یہ صرف ان کے لیے ہے جو من و کامل یقین رکھیں۔
دعا اور التجا میں ہر چیز کا علاج ہے جب ایک مریض بہت زیادہ بیمار ہو جاتا ہے اور اس کے لواحقین کو ڈاکٹر ایک آخری تسلی دیتا ہے کہ "دوا ہم کر رہے ہیں دعا آپ کیجے” تو ہو سکتا ہے خلوص نیت سے کی ایک دعا کے بل پر موت میں گئے کسی مریض کو خدا نئی زندگی دان کردے۔ اور یہی دعا آفر درود پاک پڑھ کر مانگی جائے تو اللہ پاک فیکون کہنے میں دیر نہ لگائیں۔
رسولﷺ کی زندگی کے بارے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو ہم سے پوشیدہ ہو۔ آپ کی ذات کی ہر بات ہر ہر آیت میں واضح طور پر بیان کی ہوئی ہے۔
اگر آج ہم بھٹک رہے ہیں تو یہ ہماری غلطی ہے کیونکہ ہم اپنی دینی تعلیمات سے دور ہوئے ہیں۔ بہت سے کاموں میں ہم نے بدعت نکال لی ہے۔ جو دعائیں ہم نے اللہ سے اس کے رسولﷺ کا واسطہ دے کر ہم نے مانگنا تھیں وہی ہم بطور منت ہر جگہ نیازیں پکوا کر اور چادریں چڑھا کر مانگ رہے ہیں۔ اگر ایک بار دل سے کہہ دیں کہ ہمیں سوائے اللہ کے کسی اور سے کچھ طلب نہیں تو ہماری زندگی سے بے تحاشا ان دیکھے مسئلے ختم ہو جائیں۔
درود پاک کی کثرت سے دلوں کی میل دور ہوتی ہے اور جب دل صاف ہوگا تبھی اچھے اور برے کی تمیز کا فرق نظر آئے گا۔ اچھے برے کی پہچان ہوگی تب کوئی فساد، کوئی فتنہ برپا نہیں ہوگا۔
ربیع الاول کی آمد پر جتنا دکھاوا ہم میلاد منانے اور خود کو اچھا عاشق رسولﷺ ظاہر کرنے میں لگاتے ہیں اتنا ہم سنت نبویﷺ پر عمل کر لیں تو نہ صرف دنیاوی زندگی سنور سکتی ہے بلکہ آخرت میں بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button