مضامین

موربی سانحہ 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 موربی شہر گجرات کا ایک قدیم شہر ہے ، جس کے بیچوں بیچ ماچھوندی بہتی ہے، شہر کے مختلف علاقوںکو جوڑنے کے لیے اس ندی پر کئی پل ہیں، لیکن انگریزوں نے ۱۸۷۹ء میں ایک جھولتا ہوا پل بنایا تھا، جو ہندوستان کے اندرونی عجائبات میں سے ایک سمجھاجاتا ہے ، موربی شہر گھڑی اور چینی مٹی کے برتنوں کی صنعت کے لیے مشہور ہے ، لیکن سیاحوں کی دلکشی ودل چسپی کا بڑا ذریعہ یہ جھولا پل ہے، اس پر جانے کے لیے ٹکٹ لینا ہوتا ہے اور با ضابطہ اس کی نگرانی کی جاتی رہی ہے، سات آٹھ مہینہ سے یہ پل مرمت کی غرض سے عوام کے لیے بند رکھا گیا تھا، چھٹھ کے موقع سے بغیر فٹ نس کے اسے کھول دیا گیا ، ایک سو لوگوں کے بیک وقت اس پل سے گذرنے اور جھولا کے لطف لینے کی صلاحیت تھی، ٹکٹ چھ سو پچہتر(۶۷۵) افراد کوفروخت کر دیے گیے، صلاحیت سے زیادہ افراد کے پل پر چڑھ جانے کی وجہ سے یہ جھولا پل ٹوٹ گیا اور لوگ ندی میں جا گرے، کچھ دھارے میں بہہ گیے، ایک سو اکتالیس (۱۴۱) لوگ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق موت کی نیند سو گیے، بہت سارے زخمی حالت میں اسپتال میں داخل ہوئے، سترہ تو اب بھی زندگی کی جنگ اسپتال میں لڑ رہے ہیں، بقیہ کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے ۔اس موقع سے تین مسلمانوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لوگوں کو بچانے کا کام نہیں کیا ہوتا تو یہ تعداد اور بڑھ جاتی۔
 گجرات میں انتخابات ہونے ہیں اور وہاں بی جے پی کی حکومت ہے، اس لیے میڈیا والے اس سانحہ کے لیے پُل کے ٹھیکیدار اور ایجنسی کے بجائے عوام کو ہی مورد الزام ٹھہرانے لگے کہ یہ زیادہ کی تعداد میں پل پر گیے ہی کیوں، گویا مرنے والے پر ہی ہلاکت کا الزام ڈال دیا گیا ، اب کون شہادت پیش کرے اور کون منصفی کرے ۔
 الکٹرونک میڈیا جس قدر بھی لیپا پوتی کرے، حقیقت یہ ہے کہ اس سانحہ میں سارا قصور موبی نگر پالیکا کا ہے ، اس نے اس پل کی مرمت اور دیکھ ریکھ کا کام اور ریواکمپنی کو پندرہ سال کے لیے بغیر کسی ٹنڈر کے دے دیا ، یہ کمپنی گھڑی ، سی ایف ایل بلب اور مچھر بھگا نے والے کوائل بناتی ہے، سڑک اور پل کی مرمت اور نگرانی کا اس کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہے ، لیکن تعلقات بی جے پی کے بڑے لوگوں سے ہیں، اس لیے مقامی بلدیہ ، ضلع انتظامیہ ، گجرات حکومت اور مرکزی وزارت سیاحت اس بات پر متفق ہو گئی کہ تجربہ ہویا نہ ہو، ہمارا وفادار تو ہے ، وفاداری ہو تو صلاحیت بے معنی ہوجاتی ہے ، یہاں بھی یہی ہوا اور اور یوا کمپنی کے نام قرعۂ فال نکل آیا ، پھر کیا تھا مرمت کا کام جسے آٹھ مہینہ میں مکمل ہوناتھا پانچ ماہ میں ہی جیسے تیسے مرمت کرکے پُل کو کھول دیا گیا، کمپنی کو ٹکٹ سے روپے حاصل ہو گیے، لیکن ان کو کیا ملا، جن کا خاندان اس سانحہ سے گذرا ، حکومت نے دکھانے کے لیے اس کمپنی کے نوافراد کو گرفتار کر لیا، گاج ملازموں پر گری، کمپنی کے ڈائرکٹر اور پُل کے نگراں افسران اور کمپنی کے مالک جے سکھ پٹیل کو ایس ایف آئی آر سے الگ رکھا گیا ہے، وجہ ظاہر ہے ، ’’سیاں بھئے کوتوال، اب ڈر کا ہے کا‘‘گرفتار شدہ کمپنی کے ایک منیجر دیپک پاریکھ نے مقامی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ اور ایڈیشنل سینئر سول جج ایم جے خان کے سامنے جب وہ اسباب کے درجہ میں کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا ، کہا کہ یہ بھگوان کی مرضی تھی، اس لیے اس واقعہ کو ٹالا نہیں جا سکتا تھا، یہ ہونی تھی جو ہو کر رہی، گذشتہ کچھ سالوں سے ملک کا مزاج یہ بن گیا ہے کہ اپنی ہر کمی، خامی، کمزوری، غلطی حتی کہ جرم تک کو بھوان کی مرضی کہہ کر دامن بچالیا جاتا ہے، وزیر خزانہ بھی معاشی بدحالی کو ایکٹ آف گاڈ کہہ کر صاف بچ جاتی ہیں۔
 وزیر اعظم نریندر مودی ان دنوں گجرات میں ہی تھے، دو دن بعد منہہ بھرائی کے لیے موبی زخمیوں کو دیکھنے آئے، ہلاک شدگان کے وارثوں سے ملے، لیکن چالیس مسلمان جو اس حادثہ کی نظر ہوئے ان کے اقربا تک نہیں پہونچ پائے، ان کے موبی پہونچنے سے قبل بڑی عجلت میں اسپتال کی مرتب، رنگ وروغن اور تزئین کاری کا کام کیا گیا، مریضوں کے پاؤں پر نیا پلاسٹر چڑھاکر یہ بتایا گیا کہ بڑا خیال مریضوں کا رکھا جا رہا ہے ، اعلیٰ سطحی میٹنگ کے بعد تحقیقات کے لیے ایک جانچ کمیٹی بھی بنا دی گئی اور ۱۴؍ نومبر کو مفاد عامہ کی ایک عرضی پر سپریم کورٹ نے سماعت کی حامی بھر لی ہے ۔
یہ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے، جس نے پورے ملک کو سو گوار کر دیا ہے اور گجرات ماڈل کی پول کھول کر رکھ دی ہے، وزیر اعظم کے لیے البتہ یہ اطمینان کی بات ہوگی کہ ایک سو تینتالیس (۱۴۳) سال پرانا غلامی کایہ نشان خود ہی گر کر ختم ہو گیا، مودی جی کو اس نشان کو مٹانے کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑا، وزیر اعظم نے مغربی بنگال میں ۲۰۱۶ء میں ایک ، فلائی اوور کے گرنے پر کہا تھا کہ یہ ممتا حکومت کے گرنے کا ایشورکی جانب سے اشارہ ہے، کیا جھولاپُل کے اس طرح گرنے اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے بلی چڑھنے میں اگلے انتخاب میں گجرات حکومت کے گرنے کا اشارہ تو نہیں ہے ۔

متعلقہ خبریں

Back to top button