Uncategorized

خواتین پر بربریت، اقلیتوں کی تذلیل اورشہریوں کو بے گھر کرنا جمہوری اقدار کے منافی: جماعت اسلامی ہند  

 

نئی دہلی: ”اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے ہلدوانی معاملے میں انخلائی کارروائی کے فیصلے پر سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے اسٹے آرڈر لگانا ایک اچھا قدم ہے۔ اس اسٹے آرڈر کی وجہ سے ان ہزاروں خاندانوں کو بڑی راحت ملی ہے جو اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے بے گھر ہونے والے تھے۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں عدلیہ کا اعتماد مضبوط ہوا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے متعلقہ علاقے کا دورہ کرکے جو رپورٹ پیش کی ہے،

 

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں انخلائی کارروائی انجام دینے کے لئے انتظامیہ کی جانب سے کئی بے ضابطگیاں کی گئی ہیں“۔یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے میڈیا کانفرنس میں کہیں۔ یہ کانفرنس جماعت کے مرکز میں منعقد کی گئی تھی۔ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کے تئیں بڑھتی ہوئی بے حسی پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسرسلیم نے کہا کہ ” خواتین کے خلاف واقع ہونے والے متعدد مجرمانہ واقعات، ایک عورت کی زندگی اور اس کے وقار کے خلاف معاشرے کی بڑھتی ہوئی بے حسی اور عدم توجہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔خواتین کے تئیں نقطہ نظر بدلنے اور معاشرے میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔

 

اس کا آغاز اسکولی تعلیم کی سطح سے ہونا چاہئے“۔ ملک کی موجودہ حالات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” کرناٹک و دیگر کچھ ریاستوں میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف نفرت و تعصب پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، یہاں تک کہ کچھ لیڈروں کی طرف سے شہری سہولیات اور گڈ ورننس جیسے اہم مسائل سے توجہ ہٹا کر ’لوجہاد‘ جیسے غیر ضروری و فرضی ایشو کی تشہیرکرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ مسلم طبقے کے جان و مال کو نقصان پہچانے کے بہانے تلاش کئے جاتے ہیں۔یہ رجحان قومی مفاد کو نقصان پہنچانے والا ہے۔ یہ ہماری جمہوریت اور آئینی اقدار کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔اس رجحان کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے“۔ نئے سال کی ابتدا ء پر بات کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ ” ہم پُرامید ہیں کہ یہ سال ہمارے ملک کے لئے بہترین ثابت ہوگا اور گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بہتر ہوگا۔ پچھلے برس حکومت نے دو اہم شعبے صحت اور تعلیم پر بہت معمولی توجہ دی۔

 

صحت پر جی ڈی پی کا تقریبا دو فیصد اور تعلیم پر تقریبا 3.1 فیصد بجٹ ہی مختص کیا جو کہ نہایت ہی کم ہے۔ توقع ہے کہ حکومت امسال ان دونوں شعبوں پر خصوصی توجہ دے گی“۔

 

ہلدوانی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں شامل نیشنل سکریٹری ایسوسی ایشن فار پرویکشن آف سول رائٹس ندیم خان نے اپنی رپورٹ اور وہاں کی اراضی کے حقائق پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ”جس علاقے کو خالی کرنے کی بات کہی جارہی ہے، اس کی ملکیت کے دستاویزات نہ تو ریاستی حکومت کے پاس ہیں اور نہ ہی ریلوے کے پاس۔جبکہ وہاں پر آباد لوگوں کے پاس رہائش کے قدیم ترین دستاویز ات موجود ہیں۔بلکہ جہاں سے یہ آبادی شروع ہوتی ہے، ابتدا میں ہی ایک ایسا مزار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں تب وہاں ریلوے یا ریلوے لائن کا کوئی تصور نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ سب ایک مخصوص طبقے کو ہراساں کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔کانفرنس کی نظامت کے فرائض میڈیا اسسٹنٹ سکریٹری سید خلیق احمد نے انجام دیا۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button