مضامین

ہمار امام کیسا ہو؟

نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب

امام اگر امامت کی ذمہ داریوں اور اس کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہے تو وہ امام کبھی بھی امامت کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ امام اگر سمجھتا ہے کہ اسے پنچ وقتہ نماز کی امامت اور مسجد کی رکھوالی کے لئے چند ہزار روپئے پر رکھا گیا ہے تو یہ اس کی بھول اور فاش غلطی ہے۔ امام دارصل اپنی مسجد کا قائد، اپنے محلے کا دینی سپہ سالار اور وہاں کی تمام سماجی، دینی، اور رفاہی امور کا نگہبان ہے جسکی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ اس علاقہ کے مسلمانوں کی صورتحال کو بہتر سے بہتر بنانے میں اپنا رول ادا کرے۔ اور سب سے بڑھ کر وہ نبی ﷺ کا نائب ہے۔لہٰذا جو آپ ﷺکی ذمہ داریاں تھیں وہی ذمہ داریاں ایک امام کی بھی ہوتی ہیں۔

جہاں تک امام کی اہلیت وقابلیت اور شرعی شروط کا تعلق ہے، ہمارے بیشتر امام ان پر کھرے اترتے ہیں، مگر امامت وقیادت کرنے کے لئے جو دوسری صفات ہونی چاہیں اس میں وہ کمزور ہوتے ہیں، ہم یہاں پر شرعی اہلیت پر روشنی ڈالنے کے بجائے چند ایسے اہم نکات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جنھیں اپناکر ایک امام صرف ایک مسجد کا امام نہیں رہ جاتا بلکہ وہ اپنی مسجد کے علاقہ کا حقیقی قائد، رہنما اور پیشوا بن سکتا ہے۔

۱۔ مطالعہ کریں

ائمہ مختلف مدرسوں سے پڑھنے کے بعد مسجدوں کی امامت کرنے آتے ہیں تو انکا علمی معیار مختلف ہوتا ہے، بعض بڑے بڑے مدارس سے فراغت حاصل کرنے کے بعد امامت کا پیشہ اختیار کرتے ہیں تو بعض نا مساعد حالات کے باعث ادھوری پڑھائی کرپاتے ہیں۔ علمی صلاحیت کا کم ہونا بری بات نہیں، مگر علمی صلاحیت میں اضافہ نہ کرنا اور مطالعہ جاری نہ رکھنا بر ی بات ہے۔ عام طور پر ائمہ کے اندرشرعی علوم کی بھی صلاحیت اچھی نہیں ہوتی، اس کے اسباب سے قطع نظر ائمہ کو امامت اختیار کرنے کے بعد شرعی علوم کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ امامت مسجد میں کرلی، نوکری مل گئی پھر کتابوں سے رشتہ ختم۔ سالوں سال گذر گئے مگر کسی ایک کتاب کا بھی مطالعہ نہیں کیا، بیشتر ائمہ کا یہی حال ہوتا ہے۔صرف دینی اور شرعی علوم کی کتابیں مطالعہ کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ دوران امامت، جنرل نالج کی کتابوں اور  عصری علوم کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ملک کے حالات سے واقفیت اور دوسرے علوم وفنون سے آشنائی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ لیڈرس ریڈرس ہوتے ہیں، اگر آپ مسجد کی امامت سے بڑھ کر اپنے محلہ کی قیادت کرنا  چاہتے ہیں  تو آپ کو اپنامطالعہ جاری رکھنا ہوگا اور اپنی علمی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا، تبھی آپ اپنی مسجد اور اس کے علاقہ کے لئے زیادہ مفید اور کارآمد ہوسکتے ہیں۔

مطالعہ کرنے سے نئے نئے افکار وخیالات کا جنم ہوتا ہے، دوسروں سے کمیونیکشن کرنے میں آسانی اور بہتری پیدا ہوتی ہے، فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور آپ کی شخصیت میں نکھار آتا ہے جو آپ اور آپ کی مسجد دونوں کے لئے انتہائی ضروری ہے۔

۲۔ انگریزی میں مہارت پیدا کریں

آپ مانیں یا نہ مانیں، آج بھیہمارے سماج میں انگریزی زبان کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر کوئی انگریزی لکھتا بولتا اور سمجھتا ہے تو چاہے اس کے اندر علم نہ ہو مگر اس کے علم کا رعب لوگوں کے ذہن میں ضرور بیٹھ جاتا ہے، یہ ہمارے سماج کی ایک کڑوی حقیتت ہے جس کاانکار نہیں کرنا  چاہیے۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے ائمہ انگریزی زبان سے نا بلد ہوتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ارے امام صاحب کو کیا معلوم وہ تو چند مذہبی کتابیں پڑھ کر آئے ہوئے ہیں، مگر وہی امام اگر فراٹے کی انگریزی بولنے لگے تو بہت سے لوگوں کی بولتی بند ہوجاتی ہے، اس سچائی کا اعتراف کرتے ہوئے ہر امام کو اپنی انگریزی زبان اچھی کرنی چاہیے۔ اس کے لئے کسی عمر یا اسکول کی قید نہیں۔ آپ کو اپنے ہی محلہ میں کتنے ایسے انگریزی ٹیچر مل جائیں گے جو خوشی خوشی آپ کو انگریزی سکھانے کے لئے تیار ہوجائیں گے۔ اس سے جہاں ایک طرف آپ کے اندر احساس کمتری ختم ہونی شروع ہوگی تو دوسری طرف اسکول کالجز اور یونیورسٹیز کے فارغین اور طلباء سے کمیونیکیشن میں آسانی پیدا ہوگی۔ مزید برآں اگر انگریزی اچھی ہوگئی تو اس کے ٹیوشن سے بھی آپ کو اپنی آمدنی بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

لہٰذا ائمہ کو اپنی اردو زبان کے ساتھ ساتھ اپنی انگریزی زبان کو نہ صرف درست کرنے بلکہ اس میں مہارت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

۳۔ مسلکی اختلافات دور کرنے کی کوشش کریں

ایک قائد اور امام کا مشن امت کو جوڑنے کا ہوتا ہے نہ کہ توڑنے کا۔ آپ خواہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں مگرآپ کو دوسرے مسلک کا نہ صرف احترام کرنا چاہئے بلکہ تمام مسالک کے احترام کی تبلیغ کرنی چاہیے، ورنہ آپ اپنی مسجد کے ایک تنگ نظر مسلکی امام تو ہوسکتے ہیں مگر حضور اقدس ﷺ کے نائب اورایک قائد اور امام کا مشن امت کو جوڑنے کا ہوتا ہے نہ کہ توڑنے کا۔ آپ خواہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں مگرآپ کو دوسرے مسلک کا نہ صرف احترام کرنا چاہئے بلکہ تمام مسالک کے احترام کی تبلیغ کرنی چاہیے، ورنہ آپ اپنی مسجد کے ایک تنگ نظر مسلکی امام تو ہوسکتے ہیں مگر حضور اقدس ﷺ کے نائب اور امین نہیں۔ شیعہ، سنی،بریلوی، اہل حدیث اور شافعی اور حنبلی سبھی کے اپنے اپنے نظریات ہیں، مگر مسجد اللہ کا گھر ہے کسی مسلک اور مذہب کی تبلیغ گاہ نہیں۔ اگر آپ کی مسجد میں دوسرے مسلک کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے اور دوسرے مسلک کے لوگ آپ کی مسجد میں آنا پسند نہیں کرتے یا آپ کسی دوسرے مسلک کے لوگوں اپنی مسجدوں میں آنے نہیں دیتے توایسی مسجدیں مسجد ضرار کے حکم میں آتی ہیں۔ ایک قائد اور امام کا فرض ہے کہ وہ امت کے اندر صرف کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اتحاد واتفاق پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ مسلکی منافرت کی بیج بو کر ان کو ٹکڑوں میں بانٹنے والا ایک امام کبھی بھی آقائے نامدار محمد عربی ﷺ کا وارث اور نائب نہیں ہوسکتا۔

۴۔سماجی اور رفاہی کام کریں

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آپ اپنی مسجد کے اطراف میں لوگوں کے دکھ درد میں شامل ہوتے ہیں۔ انکے اور انکے بچوں کی فکر کرتے ہیں اور انکی تعمیر وترقی کے ہر مشن کو اپنا مشن سمجھتے ہیں تو گویا آپ ایک پیشہ ور امام نہیں بلکہ حقیقی قائد اور لیڈر ہیں۔ ایک مسجد سے اپنے معاشرہ کی تعمیر وترقی کے لئے کون کون سی سرگرمیاں انجام دی جاسکتی ہیں، ان کو کرنے کی کوشش اور ان پر تبادلۂ خیال اور پھر مسجد کے ذمہ داروں سے ان کو بروئے کار لانے کی مخلصانہ جدوجہد نہ صرف یہ کہ آپ کی عزت ووقعت میں اضافے کا باعث ہوگی، بلکہ مسجد کے علاقہ میں ایک انقلاب پیدا کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوگی جس کی اپنے ملک میں اس امت کو سخت ضرورت ہے۔

۵۔ عملی نمونہ پیش کریں۔

نبی اکرم ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں جس جس چیز کی دعوت دی، اس پر عمل کرکے دکھایا، اگر کوئی امام جن امور کی تبلیغ کرتا ہے اگر اس پر خود ہی عمل نہیں کرتا تو پھر اسکی کوششیں بارآور نہیں ہوسکتیں۔ اس لئے آپ اپنے سماج میں جو بھی تبدیلی لانا  چاہتے ہیں اس کا عملی نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریں۔

اگر آپ واقعی مخلص اور صحیح عالم دین ہیں تو آپ کو مسجد کی پنچ وقتہ نماز کی امامت سے اپنی قوم کی قیادت کی طرف بڑھنا چاہیے اور اسکے لئے جو کچھ کرنا پڑے کرنا چاہیے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button