مضامین

تکبر‘ خدا کے مقابل سراسر حماقت اور جہنم کی طرف لے جانے کاراستہ 

مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی (حیدرآباد)
فون نمبر:  9849099228
ای میل:  [email protected]
جو شخص بھی اپنی جھوٹی شان اور بڑائی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو وہ ’’متکبر‘‘بن جاتا ہے پھر اس کے بعد اپنی بڑائی اور برتر ی کے سواء اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا یہاں تک کہ اگر اس کے سامنے حق پیش کردیا جائے تو بھی اس کے آگے اپنے کو جھکا دینے پر آمادہ نہیں ہوتا بلکہ اسے اپنی حیثیت سے گری ہوئی چیز سمجھ کر ٹھکرادیتا ہے۔ پھر اسی طرح جباریت ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کسی پر اپنا فضل و کرم کرتے ہوئے ہر طرح کی قوت و طاقت سے نوازتا ہے تو وہ اپنے منعم کو فراموش کردیتا ہے اور اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے جباریت کے اعمال اختیار کرتا ہے اور ایسے شخص کے نزدیک شریعت الٰہیہ کی پابندیاں کوئی وزن نہیں رکھتی بلکہ اسے قبول کرنے سے فراری اس کا طرہ امتیاز بن جاتا ہے حالانکہ تکبر تو خالق کائنات کو زیب دیتا ہے اور اسی طرح جبار کی صفت بھی اللہ تعالیٰ ہی کے شایان شان ہے۔ کائنات میں اولین طور پر اللہ کے اگے تکبر کا اظہارکرنے والا ابلیس ہے جو کہ اللہ نے اس پر قیامت تک کیلئے لعنت فرمادی ہے،قرآن اس کاذکر یوں کرتا ہے۔
ابی و استکبر و کان من الکفرین یعنی ابلیس نے انکار کیا، بڑائی میں مبتلا ہوکر گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کا مرض اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور گھمنڈ میںمبتلا ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ ابلیس اپنے کو بڑا اس لے سمجھا کہ اللہ نے اسے آگ سے بنایا اور جس چیز (آدم علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کیلے کہا جارہا ہے یہ مٹی سے بنائے گئے ہیں اور آگ مٹی سے اونچی چیز ہے، اس طرح اس کے دماغ میں تکبر کی ہو ا بھر گئی اور اپنے مالک کی نافرمانی کر بیٹھا۔
تکبر کی مذکورہ کیفیت صرف ابلیس تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ انسانوں کو اپنے خلیفہ کی حیثیت سے دنیا میںجو پھیلایا ہے ان کے اپنے ’’نسیان‘‘ کی بناء پر ابلیس لعین کے بھکاوے میں آکر، متکبر بن جاتا ہے البتہ اس کی نوعیت الگ ہوتی ہے۔ مثلاً لوگوں سے منہ پھر کر بات کرنا، زمین میں اکڑ کر چلنا، خود پسندی اور فخر جتانا اپنی چال میں اعتدال نہ رکھنا اور گلے پھاڑ کر بات کرنا اور اس طرح کی اورچیزیں ہیں جو تکبر کے مظاہر میں شامل ہیں،قرآن حکیم ان چیزوں کی مذمت کرتا ہے۔
حضرت حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت فرمائی تھی اس کا ذکر قرآن میں یوں آیا ہے۔ ( جس کا خلاصہ یہ ہے ) انہوںنے سب سے پہلے اپنے بیٹے کو اس بات کی نصیحت فرمائی کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور یہ بات بھی بتلائی کہ اللہ ہر پوشیدہ سے پوشیدہ چیز سے باخبر،رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز اس کی نگاہ سے چھپی ہوئی نہیں ہے، اس طرح خوف خدا اور اعمال کی جوابدہی کا احساس دلانے کے بعد ایک اور نصیحت یوں فرماتے ہیں،بیٹا نماز قائم کر،نیکی کا حکم کر اور بدی سے منع کر اور ہر مصیبت کے موقع پر صبر کا دامن پکڑے رکھ اور آگے اعمال متکبر سے اپنے بیٹے کو بچانے کیلئے مزیدتاکید یوں کرتے ہیں، اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیںکرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔ (سورہ لقمان)
حضرت حکیم لقمان کی نصیحت اور تاکید پر غور کرنے اور اپنے اطراف کے ماحول پر نگاہ ڈالنے سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ موجودہ دور کے معاشرے کے اندر بھی وہ تمام باتیں موجود ہیں جو اصلاح طلب ہیں۔
منہ پھیر کر بات کرنا تکبر کے مظاہر میں سے ہے جس شخص کے اندر یہ بیماری ہوتی ہے وہ سامنے والے سے گفتگو کرتے وقت اس پر نظر التفات نہیں ڈالتا اور اسے کمتر جانتے ہوئے خاطر میں نہیں لاتا۔ اس سلسلہ میں ارشاد نبی ﷺ یوں آیا ہے ’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا ’’جنت میں وہ شخص داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر و غرور ہوگا۔اور اس حدیث میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ’’کبر تو حق کے مقابل میں اترانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ علاوہ ازیں زمین میں اکڑ کر چلنا بھی کبر میں شامل ہے،آدمی کے اندر یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے دماغ میں اپنی بڑائی و بزرگی کا بت بیٹھ جاتا ہے اور اپنی اس خود ساختہ شان کے اظہار کیلئے اپنی چال میںاکڑ اور اتراہٹ پیدا کرتے ہوئے لوگوں میں نمایاں طور پربڑائی محسو س کروانے کیلئے وہ سب کام کر گذرتا ہے جو ایک بندے مومن کو زیب نہیںدیتا۔ سورہ فرقان میںاللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’وہ زمین پر نرم چال چلتے ہیں۔ (آیت ۳۶)
صاحب تفسیر،تفہیم القرآن نے اس سلسلہ میں دل کو چھولینے والی تشریح فرمائی ہے وہ لکھتے ہی کہ ’’یعنی تکبر کے ساتھ اکڑتے اور اینٹھنے ہوئے نہیں چلتے،جباروں اور مفسدوں کی طرح اپنی رفتار سے اپنا زور جتانے کی کوشیش نہیںکرتے،بلکہ ان کی چال ایک شریف اور سلیم الطبع اور نیک مزاج آدمی کی سی چال ہوتی ہے۔’’نرم چال‘‘ سے مراد ضعیفانہ اور مریضانہ چال نہیںہے، اور نہ وہ چال ہے جو ایک ریا کار آدمی اپنے انکسار کی نمائش کرنے یا اپنی خدا ترسی کا مظاہرہ کرنے کیلئے تصنع سے اختیار کرتا ہے۔ نبی ﷺ خود اس طرح مضبوط قدم رکھتے ہوئے چلتے تھے کہ گویا نشیب کی طرف اتر رہے ہیں۔حضرت عمرؓ کے متعلق روایات میںآیا ہے کہ انہوں نے ایک جوان آدمی کو مریل چال چلتے دیکھا تو روک کر پوچھا کیا تم بیمار ہو؟اس نے عرض کیا نہیں۔ آپؐ نے درہ اٹھاکر اسے دھمکایا اور بولے قوت کے ساتھ چلو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نرم چال سے مراد ایک بھلے مانس کی سی فطری چال ہے نہ کہ وہ بناوٹ سے منکسرانہ بنائی گئی ہو یا جس سے خواہ مخواہ کی مسکنت اور ضعیفی ٹپکتی ہو‘‘ ’’پس آیت کا مدعا یہ ہے کہ رحمان کے بندوں کو تو تم عام آدمیوں کے درمیان چلتے پھرتے دیکھ کر ہی بغیر کسی سابقہ تعارف کے الگ پہچان لوگے کہ یہ کس طرز کے لوگ ہیں، اس بندگی نے ان کی ذہنیت اور ان کی سیرت کو جیسا کچھ بنادیا ہے اس کا اثر ان کی چال تک میں نمایاں ہے۔ ایک آدمی انہیں پہلی نظر میں جان سکتا ہے کہ یہ شریف اور حلیم اور ہمدرد لوگ ہیں، ان سے کسی شر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ (جلد سوم صفحہ 462)
تکبر کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہمارے سامنے یوں آتی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’بزرگی میری چادر ہے اور عظمت میرا اِزار (تہبند) ہے پس جو شخص ان میں سے کسی ایک کو بھی مجھ سے چھیننا چاہے تو میں اسے دوزخ کی آگ میں ڈالوں گا‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ ’’میں اسے دوزخ کی آگ میں پھینک دو گا ( مسلم) حقیقت یہ ہے کہ کبریائی بڑائی و بزرگی صرف اور صرف اللہ جل شانہ کی عظیم صفات میں سے ہے اور بندوں کو جو چیز زیب دیتی ہے وہ ہے عجز و انکساری اور خدائے تعالیٰ کے احکام کے آگے ہر وقت اپنی گردن کوجھکائے رکھنا اور اسی طرح فخر جتانا خود پسندی میں مبتلا ہوجانا بھی ایک، مسلمان کی شان کے خلاف بات ہے۔ قرآن حکیم میںآیا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا کسی گھمنڈ کرنے والے اور فخر کرنے والے کو ’’مختال فخور‘‘
مختال :اس متکبر کو کہتے ہیں جس میں تکبر کے علاوہ خود پسندی کا عیب بھی پایا جاتا ہو۔ علامہ ابن منظورؒ نے اس لفظ کی تشریح کے ضمن میں ابو اسحق کا یہ قول بھی نقل کیا ہے،(ترجمہ )یعنی مختال اس لاف زنی کرنے والے نادان کو کہتے ہیں جو اپنے غریب رشتہ داروں سے نفرت کرتا ہے اور مفلس پڑوسیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتا۔
فخور: مبالغہ کا صیغہ ہے بہت اترانے والا۔ فخر کرنے والا خصوصاً وہ شخص جو ایسی چیزوں پر فخر کرے جو اس کے ذاتی کمالات سے نہیں، بلکہ خارجی امور کی بناء پر اترائے مثلاً دولت،جاہ و منصب وغیرہ۔ (ضیا القرآن) بیہقی فی شعب الایمان سے ایک روایت ابو ہریرہؓ سے ہمیں ملتی ہے جس میں خود پسندی کو نبی ﷺ نے سب سے بڑھ کر سنگین اور مہلک قرار دیا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد فاروق خان صاحب اپنی معروف تالیف‘‘ کلام نبوت میں خود پسندی کی مختصر مگر جامع تشریح فرمائی ہے وہ تحریر کرتے ہیںکہ۔
’’ایک تو خود پسندی بذات خود ایک نہایت گھناونی چیزہے۔ دوسرے یہ کہ جس کسی شخص کے اندر خود پسندی کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے اس کی اصلاح کی امید بہت کم کی جاسکتی ہے۔ خود پسندی ایک ایسا فریب ہے جس کے جال سے نکل پانا حد درجہ دشوار اورمشکل ہوتا ہے خود پسندی میں مبتلا شخص کیلئے ہدایت کی راہیں عام طور پر مسدود ہوتی ہیں۔ وہ اپنی غلطیوں پر متنبہ نہیں ہوتا۔ نہ اس کے اندر کچھ جاننے اور سمجھنے کی طلب اور تڑپ باقی رہتی ہے۔
جسمانی توانائی یا صحت ہو یا مال و دولت یا اپنے زہد و تقوی کا زعم، وہ ان ہی پر نازاں ہوتا ہے اور یہی کبر اور خودپسندی اس کے جینے کا نفسیاتی سہارا بن جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اس کی اصلاح کا کام کتنا دشوار اورمشکل ہوتا ہے اس کا اندازہ ہر صاحبِ فکر و نظر بہآسانی کرسکتا ہے۔ (جلد اول صفحہ 442 تا 443)
سامنے والے کو ذلیل کرنے محفل میں دھونس جمانے کیلئے اور سامعین پر رعب ڈالنے کی نیت سے خوب زور زور سے چیخنا چلانا اور اپنا گلا پھاڑنا یہ بھی تکبر کی نشانیوں میں سے ہے اور یہ ساری چیزیں قابل اعتراض ہیں۔
اللہ تبارک تعالیٰ جو خالق کائنات ہے، رب اعلی عظیم ہے جس کے قبضہ قدرت میں سارا عالم ہے وہ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ’’زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو‘‘۔(بنی اسرائیل آیت 37)
حاصل کلام
قرآن حکیم کے مطالعہ سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ گذری ہوئی قوموں میں سے جنہوں نے بھی تکبر کیا اللہ تعالیٰ نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دیا، ان میں کسی کو اپنی طاقت وقوت کا گھمنڈ تھا کسی کو اقتدار کا اور کسی کو مال و دولت اور اپنی کوٹھیوں و محلات پر ناز تھا اور کوئی اس میں اتنا کچھ آگے بڑھ گیا کہ خدائی دعوی کربیٹھا۔ اللہ کاعذاب جب نازل ہوا تو ان کی یہ ساری چیزیں کچھ کام نہ آئیں۔
موجودہ معاشرے میں بھی تکبر، غرور و گھمنڈ کی کیفیت پائی جاتی ہے، اللہ نے تھوڑا بہت مال کیا نواز دیا بس اسی کے ذریعہ سے تکبر کیا جاتا ہے، تکبر کی مختلف صورتیں ہیں جو لوگوں کو اللہ کی ناراضگی کی طرف لے جاتیں ہیں،کسی کو حسن و جمال پر فخر ہے تو کسی کو حسب نسب کا نشہ چڑھا ہوا ہے کسی کو علم کا گھمنڈ ہے تو کسی کو زہد و تقوی کے زعم نے کبر میں مبتلا کردیا،کوئی اپنی آواز کے ذریعہ اس کا اظہارکرتاہے تو کوئی اپنی تقریر سے تکبر ظاہر کرتا ہے،کسی کواپنے بازوں کی مضبوطی پر تو کسی کو اپنی اولاد نرینہ پر فخر و گھمنڈ نے متکبر بنا ڈالا علاوہ اس کے کرسی،صدارت،اقتدار کے ذریعہ سے بھی آدمی تکبر کا اظہارکرتا ہے اور اس کے آگے یہ بھی ہوتا ہے کہ آدمی جبار بن جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جباروں و متکبروں کو ہر گز پسند نہیںفرماتا کیونکہ بزرگی و بڑائی، کبریائی و شان و شوکت اور عظمت یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی چادر اور اس کا ازار ہے اور جو کوئی اسے پہنے اور اوڑھنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ متکبر ٹھہر ے گا اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ مومن میں،متکبروں کے سلسلہ میں یہ صاف اعلان کرچکا کہ فبئس مثوی المتکبرین پس بہت ہی برا ٹھکانا متکبروں کا! غرض کہ استکبار کرکے آدمی خدائے تعالیٰ کے غضب میں گھر جاتا اور آخرت میں بھی نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوکر جہنم کا اندھن بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو غرور و تکبر سے محفوظ رکھے آمین۔

متعلقہ خبریں

Back to top button