مضامین

نہ کوئی بارات اور نہ ہی طعام _ نظام آباد کے پرکٹ کے مفتی رفیق ذاکر قاسمی کی دختر کا مثالی نکاح 

Representative image 

نکاح کو آسان کرو شادی سادی کرو

مفتی رفیق ذاکر قاسمی کی دختر کا مثالی نکاح 

رشحات قلم 

عبدالقیوم شاکر القاسمی

جنرل سکریٹری جمعیة علماء امام وخطیب مسجد اسلامیہ

نظام آباد. تلنگانہ

9505057866

شریعت اسلامیہ کا یہ نعرہ ہیکہ نکاح کو آسان کرو تاکہ زنا مشکل ہوجاے اورتقریب شادی کو سادگی کے ساتھ انجام دیاجاے تاکہ سماج اورمعاشرہ میں یہ احساس وشعور آجاے کہ بناکسی خرچ کے لڑکی کی شادی ہوجاتی ہے

برسہابرس سے یہ نعرہ لگایاجارہاہے علماء ائمہ وخطباء اس کی ترغیب بھی دیتے آرہے ہیں نیز قوم وملت کے دانشوران بھی اس تحریک کے لےء فکرمند وکوشاں ہیں لیکن عملی طورپر اس حکم کی تعمیل کو دیکھنے کے لےء ہنوز آنکھیں ترس ہی رہی ہیں مگر خوش آئند بات ہیکہ سماج اس جانب آہستہ آہستہ قدم بڑھارہاہے جس کی ایک زندہ مثال پرکٹ کے بڑے عالم دین مولانامفتی رفیق ذاکر قاسمی کی دخترنیک اختر کی تقریب نکاح میں دیکھنے کو ملی اور ڈھارس بندھی کہ الحمد للہ دنیا کو سادگی کے ساتھ نکاح کرنے کی ترغین وتعلیم دینے والے اک عالم دین کے گھرانہ میں ہر قسم کی رسم ورواج سے اجتناب کرتے ہوے انتہای سادگی اورآسانی سے لڑکی کے نکاح کو انجام دیا گیا

میری اپنی دانست کے مطابق دلہے والوں کے پاس سے صرف چارافراد نے لڑکی کو دلہن بناکر اپنے گھر لے گےء نہ کوی بارات تھی نہ کوی دعوت طعام مسجد میں نکاح ہوا اورلڑکی کو اس کے گھر سے ہی رخصت کیا گیا قابل مبارکباد ہیں وہ دلہے والے بھی جنہوں نے اس موقع پر اسلامی احکامات اورارشادات نبوی کی تعمیل میں دلہن والوں کاساتھ دیا اورہر قسم کی رسوم کا بائیکاٹ کیا

تفصیلات کے مطابق لین دین سامان جہیز اورضروریات زندگی کا نہ کوی مطالبہ ہوا نہ اس کی کوی مانگ کی گیء جو عموما سماج میں ہوتاہے

ہر قسم کی تقریبات اور فضول خرچیوں سے اجتناب کرتے ہوے محض معدودے چند افراد نے اس تقریب کو انجام دیا مفتی صاحب سے راست حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق آپ یہ چاہتے تھے کہ جس بات کی ترغیب وتاکید ہم منبرومحراب سے دیتے آرہے ہیں اس پر سب سے پہلے ہم عامل بن جائیں اور سادگی کے ساتھ نکاح کرکے اک عملی اقدام کیا جاے اورمثال پیش کی جاے اوراس حوالہ سے ادنی کوشش کی جاے لہذا اللہ پاک نے اس سلسلہ میں ہماری مدد بھی فرمای اور دلہے والوں نے ہماراساتھ بھی دیا اوریہ شادی انتہای سادگی کے ساتھ انجام پای گرچیکہ تقریب نکاح میں سینکڑوں کی تعداد شریک رہی جس میں علماء حفاظ ائمہ مساجد اور شہر واطراف کی دینی تنظیموں اوردینی مدارس سے وابستہ افراد اورنامی گرامی شخصیات شریک رہیں مگر ان احباب کے لےء بھی باضابطہ کسی قسم کاانتظام یا کھانے وغیرہ کااہتمام نہیں کیا گیا یہاں تک سادگی اپنای گئ کہ ولہے کی نشست کے لےء بھی کوی مخصوص جگہ نہیں تیارکی گئ جس سے اندازہ ہواکہ اگر ہر مسلمان اس بات کی فکر کرلیں اور اپنی خواہشات کو بالاے طاق رکھ کر احکام شرع پر عمل پیرا ہوجاے اور دوقدم اصلاح کی جانب بڑھالے تو کوی بعید نہیں کہ مددونصرت خداوندی شامل ہوجاے اور معاشرہ کی جانب سے بھی اس کوشش کو سراہا جاے گا اور اک صالح انقلاب سماج ومعاشرہ میں آے گا

قدرت بھی مددکرتی ہے جب کوشش انساں ہوتی ہے مسلم سماج کےایک ایک فرد کی یہ ذمہ داری ہیکہ وہ رسم ورواج سے دور ہے کر اورہرقسم کی فضولیات سے اجتناب کرتے ہوے اپنے اپنے اعتبارسے کوشش کریں اور ہمت وحوصلہ کے ساتھ پیش قدمی کریں تو یقینا اصلاح ممکن ہے اور شادیوں کے مہینگے ہونے کا جو اک عام تصور ذہنوں میں بیٹھا ہواہے وہ نکل جاے اور دلہن والوں پر ہونے والے مالی بوجھ اور ذمہ داریوں میں کمی آسکے

میں اس موقع پر یہی کہوں گا کہ عملی اعتبار سے کوتاہیاں اور نقص ہمارے اندر پایاجاتاہے ہم محض ناموری یا عزت نفس یا خاندانی وجاہت اور شہرت کی خاطر نکاح کو سادگی سے کرنا نہیں چاہتے ہیں عملی میدان سے ہم لوگ کوسوں دور رہ کر محض زبانی جمع خرچ کے عادی ہوچکے ہیں ضرورت اس بات کی ہیکہ ہم عملی میدان میں آئیں اورلوگوں کی چوں چرا اورلومة لائم سے خوف کےء بنا شریعت غرا کے حکم کو مقدم رکھیں اللہ ورسول کے احکامات پر عمل آوری کو ترجیح دیں تو یقینا آج نہ سہی کل یہ سماج بھی ہماراساتھ دے گا لوگوں کی زبانیں بھی بند ہوں گی معاشرہ میں اصلاح کی امید بھی بڑھ جاے گی۔۔۔

*لاطاعة لمخلوق فی معصیة خالقہ*

والی حدیث کو سامنے رکھ کر ہم مرضی مولی پر عمل کریں مخلوق ۔پبلک اورماحول کی اتباع نہ کی جاے بلکہ خالق ومالک کی اطاعت کی نافرمانی سے بچنے کا اہتمام ہوں تو اس نکاح میں برکت بھی ہوگی اورخرچ بھی نہیں آے گا ایسے ہی بابرکت نکاح کے متعلق ارشاد ہے

*ان اعظم النکاح برکة ایسرہ موونة*

برکت کے اعتبارسےسب سے بڑا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہوں بس ضروریات پر مشتمل سازوسامان ہوں اوربس ۔۔۔

راقم الحروف دلی مبارکباد دیتاہے عاقدین اور دونوں خاندان والوں کو کہ انہوں نے باہمی اتحاد واتفاق کے ساتھ طےء کیا اور ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوے رسوم ورواج سے دور ہوکراک مثالی نکاح انجام دیا ان شاء اللہ اس نکاح سے اچھے اثرات دونوں خاندانوں اور سماج پر مرتب ہوں گے

متعلقہ خبریں

Back to top button