نیشنل

یونیفارم سول کوڈ سے متعلق اہم گذارشات

 

ایک مسلمان نماز، روزہ اور حج وزکوۃ کے مسائل میں حکم شرعی کا پابند ہے، اسی طرح معاشرتی مسائل نکاح، طلاق، خلع، عدت، میراث، ولایت وحصانت وغیرہ میں بھی شریعت کے حکم کا پابند ہے، اور یہ سب احکامات براہ راست قرآن وسنت سے ماخوذ ہیں، اس لئے ان احکامات کی دین میں بنیادی اہمیت ہے، دستور ہند میں بنیادی حقوق کے طور پر دفعہ 25/26 کے تحت تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے،

یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ شریعت کے اکثر عائلی قوانین سے ٹکراؤ پیدا کرتا ہے، جو دینی نقطہء نظر سے قطعاً ناقابل قبول ہے، نیز چونکہ ہمارا ملک بھارت جو مختلف مذاہب اور مختلف تہذیبوں کا گلدستہ ہونے کی وجہ سے سونے کی چڑیا کا مقام رکھتا ہے، اگر یہاں یکساں سول کوڈ نافذ ہوگا تو بالیقین اس سے قومی یکجہتی متاثر ہوگی، نیز دستور ہند میں موجود معاہدہ کی خلاف ورزی بھی ہوگی؛ اس لئے ہر ایک مذہب کے پرسنل لاء کی رعایت کرنا بہرحال ضروری ہے، اور یہی دستور کی روح ہے، ہمارے ملک کی لاء کمیشن نے گذشتہ 14 جون 2023ء کو اپنے ویب سائٹ پر یکساں سول کوڈ کے متعلق رائے عامہ حاصل کرنے کیلئے سوالنامہ جاری کیا ہے اور قوم سے خواہش کی کہ 14 جولائی 2023ء تک اپنی رائے داخل کریں،

لہذا مساجد کے صدور و متولیان کے علاوہ دینی فلاحی سماجی کمیٹیوں کے ذمہ داران سنجیدہ سوشل ورکر نوجوانوں کی ایک کمیٹی تشکیل دیں اور یہ کمیٹی محلہ کے سنجیدہ بارسوخ علماء و حفاظ کرام کے ذریعہ لاء کمیشن تک یہ بات پہونچائیں کہ ہم ملکی گنگا جمنی تہذیب کا نقصان اور معاشرتی زندگی میں اپنے اپنے مذہب کے متعلق عمل کرنے میں مشکلات کھڑی ہوں گی اس وجہ سے یونیفارم اور یکساں سول کوڈ کے حق میں نہیں ہیں، اور اسکی پرزور تردید کرتے ہیں،

اپنا تردیدی پیغام لاء کمیشن کو اس طرح میل کریں۔

 

 

لاء کمیشن گورنمنٹ آف انڈیا (بہ سلسلۂ عدمِ اتفاق مجوزّہ قانون یونیفارم سول کوڈ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بخدمت ممبرسکریٹری لاء کمیشن گورنمنٹ آف انڈیا !

 

میں: _____________ ولد: ____________ عمر : ___ سال ساکن: _______ ___انڈیا.

بھارت کے وفادار اور پابند قانون شہری ہونے کی حیثیت سے ’’یونیفارم سول کوڈ کےمجوزہ قانون‘‘ کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہوں۔

اس لئے کہ :

الف: دستورِ ہند میں’’ بنیادی شہری حقوق ‘‘کے ذیل میں دفعہ 25 کے تحت بھارت کے ہر شہری کو مذہبی آزادی کا حق حاصل ہے، مجوزہ ’’یونیفارم سول کوڈ قانون‘‘ کی وجہ سے آزادیٔ ضمیر کی بنیاد پر اختیار کردہ اپنے مذہب کے مذہبی قوانین اور تعلیمات پر چلنے کا حق یقینی طور پر ختم ہوجائے گا۔

ب: اقوام متحدہ نے 1948ء میں "انسانی حقوق کا عالمی منشور” منظور کیا، اس منشور میں بھی آرٹیکل 48 کے تحت مذہبی آزادی کی مکمل ضمانت دی گئی، ہمارا ملک اقوام متحدہ کا نہایت ہی اہم اور باوقار رکن ہے، اس رکن کی حیثیت سے بھارت نے اقوام متحدہ کے منظور کردہ انسانی حقوق کے عالمی منشور پر دستخط کی ہے۔

یونیفارم سول کوڈ قانون بنانے سے اس دستخط کی خلاف ورزی ہوگی، اور "وش گرو ” بننے کا عزم و حوصلہ رکھنے والے بھارت کی شبیہ شدید متاثر اور مجروح ہوگی، یہی نہیں بلکہ بادی النظر میں اقوام متحدہ میں بھارت کی باوقار رکنیت بھی خطرہ میں پڑجائے گی۔

 

ج: جس طرح کسی باغ کی خوبصورتی صرف ایک ہی قسم کے پھولوں سے نہیں بلکہ مختلف رنگوں اور ہمہ اقسام کے پھولوں سے ہوتی ہے، اسی طرح ہمارے ملک کی خوبصورتی اور اس کی پہچان مختلف مذاہب کے پیرو کاروں کی الگ الگ تہذیبوں، رواجوں، تیوہاروں اور عبادت کے طور طریقوں سے ہے، اسکو ’’وحدت میں کثرت ’’یا ’’کثرت میں وحدت ‘‘ (Unity In Diversity) کہتے ہیں؛ ’’ مجوزہ یونیفارم سول کوڈ قانون ‘‘ کیوجہ سے ملک کی یہ خوبصورتی اور دنیا میں اُس کی یہ خاص پہچان باقی نہیں رہے گی۔

 

د: ہمارے ملک کو ’’مادر جمہوریت‘‘ کہا اور مانا جاتا ہے، لیکن جمہوری نظام کتنا زیادہ مضبوط و مستحکم ہے؟ اس کا اندازہ معاشی خوشحالی، داخلی سلامتی، دفاعی ترقی اورمتوازن خارجہ پالیسی سے زیادہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہاں کی اقلیتیں اپنی تمام مذہبی خصوصیات اور رسومات کے ساتھ خود کو کتنا زیادہ باوقار اور قابلِ احترام طریقہ پر محفوظ تصور کرتی ہیں.؟

’’مجوزہ یونیفارم سول کوڈ قانون‘‘ لانے سے بھارت کی اقلیتیں بجا طور پر اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کریں گی؛ اور اس قانون کو اپنے مذہبی معاملات میں ریاست کی مداخلت سمجھیں گی۔

 

آپ کا مخلص :

نام: ________________

مذہبی اسکالر/تنظیم کا عہدہ: __________

تاریخ: _______________

مکمل پوسٹل ایڈریس: _________________

______________________________

Email Address: [email protected] جمع وترتیب مفتی محمد خواجہ شریف مظاہری

9396949590

متعلقہ خبریں

Back to top button