مضامین

شیخ الحدیث علامہ محمد سلیمان شمسی رحمۃ االلہ علیہ!

تحریر: جاوید اختر بھارتی

ہندوستان کی زبردست شخصیت بزرگ عالم دین علامہ محمد سلیمان شمسی 1988 سے آخری سانس تک ہندوستان کی عظیم ترین درسگاہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں شیخ الحدیث رہے جبکہ اس سے قبل فضیلۃ الشیخ حضرت علامہ محمد سلیمان شمسی شیخ الحدیث رحمۃ االلہ علیہ ضلع ناسک کے شہر مالیگاوں کی مشہور و معروف دینی درسگاہ دارالعلوم محمدیہ میں درس حدیث کی خدمات پر معمور تھے۔ مولانا کا اسم گرامی محمد سلیمان اعظمی ابن احمد علی ابن عنایت اللہ ہے۔ مولانا کی پیدائش ماہ جولائ 1918 میں اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے صنعتی قصبہ خیرآباد میں ہوئ۔ خیرآباد ضلع اعظم گڑھ کا ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم و تمدن کا گہوارا بھی ہے۔ جو اب مئو ضلع بن جانے کی وجہ سے مئو کا علاقہ مانا جاتا ہے مولانا کی ابتدائ تعلیم کا نظم والد محترم نے مقامی مدرسہ سے ہی کیا۔ مولانا والدین کے اکلوتے فزند اور ان کی تین بہنیں تھیں۔ لیکن آپ کو اللہ نے کثیر العیال سے مالا مال کیا۔

 

 

 

حضرت مولانا شمسی صاحب 1955 میں شہر مالیگاوں جو مسلم اکثریتی اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے۔ جہاں دینی اداروں کی بہتات ہے ۔ جہاں مایہ ناز شخصیتوں کا بول بالا رہا ہے۔ جہاں سے علم دین کی شعایں چہاروطرف روشن ہوئ وہ مالیگاؤں جسے میناروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، مساجد و مدارس کا شہر بھی کہا جاتا ہے اور اسی عظیم الشان شہر میں مولانا سکونت پزیر ہوے۔ اور معروف دینی درسگاہ بیت العلوم میں درس و تدریس کی خدمات بحسن خوبی انجام دیے ۔ اور صدر المدرسین کی حیثیت سے بھی معمور ہوے ۔ جہاں ان سے سیکڑوں علماء و حفاظ علوم دینیہ سے فیض یاب ہوے 1979 میں قدوائ روڈ مالیگاوں میں ہی دار العلوم محمدیہ کی بنیاد ڈالی جو کم عرصہ میں حضرت اور ان کے معاونین کی کاوشوں سے دارالعلوم محمدیہ کی شکل میں مشہور و معروف ادار بن گیا جہاں سے سیکڑوں تشنہ لبوں نے علم دین سے سیراب ہوکر اطراف و اکناف میں دین کی خدمت بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں۔

 

 

 

علامہ سلیمان شمسی صاحب نے دارالعلوم محمدیہ کی تعمیر و ترقی معیار تعلیم کو مستحکم کرنے کے لیے بے انتہا جد و جہد کی۔ حضرت کا مزاج اقدس نہایت ہی سادہ لوح اور کم سخن تھا۔ علم کا سمندر ہونے کے باوجود علامہ شمسی نے اپنے آپ کو شہرت سے الگ تھلگ رکھا۔ اور علم دین کی اشاعت میں تا حیات کوشاں رہے۔ مولانا شمسی صاحب کی شخصیت صوبہ مہاراشٹر کی جانی مانی اور معروف اور معتبر شخصیت ہے۔ مہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں آج جو مدارس اسلامیہ قائم ہیں تو اس میں حضرت شمسی رحمۃ اللہ علیہ کا انتہائی اہم کردار ہے آج لاتور، عثمان آباد، ناندیڑ، حمایت نگر، پربھنی، اورنگ آباد وغیرہ اضلاع و علاقوں میں جو مدارس ہیں وہ حضرت شمسی کے ایثار و قربانی اور ان کی تقاریر اور اسفار کی دین ہے ،، وہ ریاست گجرات میں بھی کچھ عرصہ قیام پذیر رہے ہیں وہاں پر بھی انہوں نے قرآن وحدیث کا درس دیا ہے اور لوگ بڑی تعداد میں مستفیض ہوئے،،

 

 

 

علامہ سلیمان شمسی کی ذات سے فیضیاب ہونے والے پورے ہندوستان میں موجود ہیں مقرر،مفکر، محدث و مناظر کی شکل میں دین کی خدمت کررہے ہیں یوں تو ہر مدرسہ میں بخاری پڑھائی جاتی ہے اور ہر سیخ الحدیث بخاری پڑھا تا ہے لیکن ان کا انداز نرالا ہی تھا بخاری پڑھانے کا تبھی تو ہر طالب علم کو ان سے حدیث پڑھنے کی خواہش رہتی تھی جب وہ درسگاہ میں طلباء کو سبق پڑھاتے تھے تو ان طلباء کی بیاض پر سوال و جواب بھی لکھواتے تھے اور جس طلبہ کو سوال لکھا تے تو اس کا جواب اسی کتاب میں ہوتا جو وہ کتاب پڑھتا تھا اور دوسرے دن اس بیاض کی جانچ کرتے تھے علامہ سلیمان شمسی دور طالب علمی میں ہی اپنے وطن عزیز کی جامع مسجد میں جمعہ کے دن خطاب بھی کرتے تھے گویا زمانہ طالب علمی سے انہیں تقریر کا شوق تھا اور مہارت بھی تھی جو بعد میں چل کر زبردست عالم دین بنے، مختلف مدارس کے شیخ الحدیث و صدر المدرسین بنے ہزاروں ہزار افراد کے سروں پر دستار باندھی اور حضرت کی تقریر ایسی نہیں ہوا کرتی تھی کہ جو بولیں وہ سروں کے اوپر سے گذرجائے نہیں بلکہ ان کی تقریر دلوں میں اترا کرتی تھی خود مالیگاؤں کے چونا بھٹی علاقے میں واقع غربید جامع مسجد میں جمعہ و نماز پنجگانہ کی امامت کرتے تھے

 

 

 

اور جمعہ کے دن لوگوں کو ان کا خطاب سننے کا بے صبری سے انتظار رہاکرتاتھا علامہ سلیمان شمسی کا خطاب نایاب بڑاہی جامع و مستند ہوا کرتا تھا وہ ہمیشہ معتبر و مستند روایات بیان کرتے تھے ان کو اللہ نے خوب نوازا تھا کپڑے بھی اپنے ہی ہاتھوں سے سل کر پہنا کرتے تھے اور گھر کے دوسرے افراد کا کپڑا بھی حضرت ہی سلا کرتے تھے آج بھی جب غربید جامع مسجد سے آگے بڑھنے پر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ بھی ایک وقت تھا جب ہندوستان کی ایک عظیم ترین شخصیت یہاں رہا کرتی تھی جس کی شکل و صورت اور چال ڈھال سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہ علم کا سمندر ہے جنہوں نے مالیگاؤں میں ان کو دیکھا ہے انہیں آج بھی حضرت کی کمی محسوس ہوتی ہے جن جن مدارس میں انہوں نے درس و تدریس کی خدمات انجام دی ہیں ان مدارس میں آج بھی ان کی کمی محسوس کی جاتی ہے-

 

 

 

 

مولانا شمسی صاحب کے علم و فضل اور تقوی سے متاثر ہوکر حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رئیس جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا نے شمسی صاحب کو اشاعت العلوم میں درس و تدریس کی پیش کش کی ۔ حضرت مولانا سلیمان شمسی نوراللہ مرقدہ نے کم و بیش پندرہ سال اشاعت العلوم میں درس حدیث بحسن خوبی انجام دیے۔ سیکڑوں علماء و حفاظ آپ کے فیوض اور علوم و فنون سے مستفید ہوے۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ مولانا 1999 میں تعطیلات کے بعد اپنے وطن عزیز تشریف لے گئے تاکہ رشتہ داروں اور اقارب سے ملاقات ہو۔ اور وہاں سے لوٹنے کے بعد مولانا ناندیڑ تشریف لاے جو ان کے چھوٹے صاحبزاے مولانا شاہد جمال صاحب کی سسرال ہے۔ پھر مولانا یہی مقیم رہے اور 28 ڈسمبر 1999بروز منگل مطابق 19 رمضان 1421 ھجری کو فضیلة الشیخ شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا محمد سلیمان شمسی نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے،، ناندیڑ سے لے کر اکل کوا اور مالیگاؤں میں غم کی لہر دوڑ گئی ملت اسلامیہ ایک بے مثال شیخ الحدیث اور بزرگ عالم دین سے محروم ہوگئی۔

اللہ حضرت والا کے قبر کو نور سے بھر دے آمین۔ سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاوں گا۔ میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاوں گا-

( مضمون نگار علامہ سلیمان شمسی رح کے نواسے ہیں)

++++++++++++++++++++++++++++++++

جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئویو پی

 

متعلقہ خبریں

Back to top button