مضامین

عنوان…. ” ہمیں اپنی آزادی کا ازسرنو جایزہ لینے کی ضرورت کیوں ہے ؟

 

        یہ بات عیاں ہیکہ ھمارا ملک ھندوستان 15 اگست 1947 کو انگریزوں کی غلامی سے مکمل آزادی حاصل کیا جو ذہنی- طبعی- جغرافیائ – معاشرتی- ثقافتی- معاشی- اور تہذیبی امور کا احاطہ کیے ہوے تھی. اس آزادی کو حاصل کرنیکے لیے بلا تفریق مذہب و فرقہ نہ صرف ستیہ گرہ بلکہ تحریری- تقریری-صحافتی- احتجاجی کوشش کی گئ.  نتیجہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذارتے ہوے  اپنی قیمتی جانوں کو قربان کرنا پڑا. اس آزادی کے حصول کا عین مقصد یہی تھا کہ ھندوستانی اپنے ملک میں آزادانہ تعلیم حاصل کرسکیں- اپنے تعلیمی ادارے قایم کرسکیں- اپنی پسند کے مذہب کو  اختیار کرسکیں-مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرسکیں- اپنی قابلیت کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرسکیں- اپنی پسند کی تجارت کرسکیں- اپنے پسند کے علاقہ میں سکونت اختیار کرسکیں- ملک کی ریاستوں اور دنیا کے دیگر ممالک میں آزادانہ حمل و نقل کرسکیں- ریاست و ملک کے انتظامیہ کو سنبھالنے کیلیے اپنی پسند کے نمایندوں کا انتخاب کرسکیں- اپنی پسند کی تہذیب یعنی لباس- وضع قطع اختیار کرسکیں- اپنے پسندیدہ کھانے پینے کو اپنا سکیں- ملک کے” آئین” کو مرتب کرسکیں-
آئین کے دایرہ میں حکومت کے خلاف آواز اٹھا سکیں اگر  حکمرانوں کیجانب سےکسی قسم کی ذیادتی یا ظلم کیا جارہا ہو-
     کیا آج ھمارے آزاد ملک میں ہم ھندوستانیوں کو مذکورہ بالا امور پر آزادی حاصل ہے؟ ایک سوالیہ نشان ہے؟ اسی لیے ان حالات کے پیش نظر
    ” ھمیں اپنی آزادی کا از سرنو جایزہ لینیکی شدید ضرورت ہے” چیونکہ ھمارا ملک ھندوستان حسب ذیل حالات سے گذر رہا ہے اور
آزادی کے ترہتر سال کے بعد بھی ملک کے باشندوں کو کبھی قومیت ثابت کرنیکے لیے کاغذات پیش کرنیکے لیے جبر کیا جارہا ہے – کبھی قانون کے دایرہ میں رہکر جانوروں کو ذبح کرنے سے روکا جارہا ہے- کبھی جانوروں کی حمل و نقل کو روکتے ہوے ہجومی تشدد برپا کرتے ہوے ایک طرف زخمی کیا جارہا ہے تو دوسری جانب موت کے گھات اتارا جارہا ہے- کبھی ایک خاص مذہب کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں مداخلت کی جارہی ہے اور منتظمین کی ظاہری وضع قطع کو نشانہ بنایا جارہا ہے- کبھی مذہب کی اشاعت و تبلیغ کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے- کبھی عبادتگاہوں کو محض مذہبی مخالفت کی بنیاد پر مسمار کیا جارہا ہے- کبھی کسی "خاص تجارت” کی برآمدات و درآمدات میں رکاوٹ پیدا کرتے ہوے اس پر دیجانیوالی ترغیبی رقم میں تخفیف کیجارہی ہے تو کبھی اسکو بالکلیہ کلعدم قرار دیجارہی جس سے متعلقہ تاجرین کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہورہا ہے وہ بھی اسلیے کہ اس تجارت سے ایک خاص مذہب کے افراد کی اکثریت وابستہ ہے.کبھی ایک مذہب کے نعروں کو دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو زبردستی کہلوایا جارہا ہے- کبھی تہوار کے جلوس کی آڑ میں فساد برپا کیا جارہا ہے- کبھی کسی مذہب کی "متبرک کتاب” کے مواد میں تخفیف کی جراءت کرنے والے فرد کو قانونی گرفت میں لینے میں کمزوری پائ جارہی ہے.کبھی کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی تعداد کو ملحوظ رکھتے ہوے دو سے ذیادہ بچوں کی پیدایش پرقانونی روک لگانے اور ان افراد کو ملک کے انتخابات میں حصہ لینے اور راےدہی کے حق سے محروم کرنیکا قانون مرتب کیا جارہا ہے تو کبھی سرکاری ملازمتوں سے محروم کرنیکی بات کہی جارہی ہے- کبھی ملک کے ” یونین ٹیری ٹریز” کے انتظامیہ کو قانونی طور پر کھوکھلا کیا جارہا ہے اسلیے کہ وہاں کی اکثریتی آبادی ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کی ہے جس  کے نتیجہ میں وہاں کے باشندوں کے درمیان آپسمیں دشمنی جنم لےرہی ہے اور ریاستوں کا سکون غائب ہوتا پایا جارہا ہے- ملک کے دلت یا بچھڑے طبقہ کو آج بھی حکومتی سطح پر اعلی درجہ کی ملازمتوں سے دور رکھا جارہا ہے اگرچیکہ ان میں تعلیمی قابلیت موجود ہے.
کبھی ایک شہر-ریاست اور قدیم عماروتوں و تعلیمی اداروں اور پراجیکٹس کے بانیوں کے نام ہٹاکر دوسرے نام سے موسوم کیا جارہا ہے چیونکہ یہ بانی حضرات ایک خاص مذہب سے وابستہ تھے . کبھی مذہب کی تبدیلی کی قانونی آزادی کو چھینا جارہا ہے تو کبھی بین مذہبی شادیوں کو "لو جہاد” کا نام دیکر تشدد برپا کیا جارہا ہے.کبھی انتخابات سے قبل مذہبی فرقہ پرستی کو عام کرتے ہوے ریاست و ملک کے سکون کو متاثر کیا جارہا ہے.کبھی کسی ایک زبان کو کسی مذہب کے ساتھ منسوب کرتے ہوے اسکو کمزور اور مٹانیکی کوشش کیجارہی ہے. کبھی کسی ایک مذہب کے مذہبی امور میں مداخلت کرتے ہوے  قانون مرتب کیا جارہا ہے جس سے اس مذہب کے ماننے والوں کی مذہبی آزادی چھنتی نظر آرہی ہے.کبھی "یکساں سیول کوڈ” مرتب کرنیکے آواز اٹھائ جارہی ہے.  کبھی ذات پات کی بنیاد پر دیے گیے تحفظات کو ختم کرنیکی بات کیجارہی ہے. معاشی و تعلیمی کمزوری کی بنیاد پر دیے گیے تحفظات کو مذہب سے جوڑکر کلعدم قرار دینیکا مطالبہ کیا جارہا ہے. کیا یہی آزادی کے معنی ہیں؟ کیا اسطرح کے بالراست ظلم ڈھانے کیلیے بلا تفریق مذہب و ذات جانوں کی قربانیاں دیکر آزادی حاصل کی گئ ؟ کیا آزادی کے حصول کے بعد اسی لیے آئین مرتب کرتے ہوے اسکو قبول و قایم کیا گیا ؟ اس آزادی کا ازسر نو جایزہ لینا ضروری ہے.جایزہ لینے کیلے خاصکر تاریخ اور قانونی تعلیم کا حاصل کرنا اولین ضرورت ہے جبکہ ھمارے آباء و اجداد وسیع تعلیمی ادارے قایم کرچکے ہیں جہاں سے ہم سے ذیادہ دیگر آبناے وطن اور غیر ملکی افراد مستفید ہوتے ہوے ریاست و ملک کے انتظامی عہدوں پر فایز ہورہے ہیں.مگر افسوس کے ہم میں تعلیم کا فقدان ہے جسکی وجہ سے ریاستی و ملکی انتظامیہ یعنی آئ. اے. ایس اور وکلاء کی جائیدادوں پر بہت کم فیصد افراد کا تقرر دیکھنے میں آتا ہے.جب تارخ اور قانون سے وقفیت ہی نہ ہوگی تو اسکا جایزہ لینے اور تحفظ کا احساس کہاں سے ہوگا.
 نیز حاصل کردہ آزادی کے تحفظ کےلیے قانونی دایرہ میں رہکر تحریری و طبعی آواز بلند کرنیکی بھی شدید ضرورت ہے تاکہ آزادی- آزادی باقی رہے ورنہ
"جفا و ظلم و ستم دیکھ کر اے لوگو ::::
 رہے خموش تو ظالم کی پیروی ہوگی”
تحریر: – ایس. ایم. عارف حسین. اعزازی خادمِ تعلیمات. مشیرآباد. حیدرآباد… سل: 9985450106

متعلقہ خبریں

Back to top button