مضامین

ووٹ جہاد _ کتنی حقیقت کتنافسانہ

سید سرفراز احمد،بھینسہ, تلنگانہ

 

ہم ابھی بھارت کے سب سے بڑے انتخابات کے دور سے گذر رہے ہیں جوں جوں وقت گذر رہاہے سیاسی گمہا گہمی بھی دھوپ کی شدت کی طرح کہیں آگ برسارہی ہے تو کہیں آگ کے گولے اسی کے درمیان ایک محبت کی دکان بھی چاند کی طرح چمکتی نظر آرہی ہے چونکہ انتخابی موسم بہت ہی نشیب وفراز کی طرح ہوتے ہیں دھوپ اور چھاؤں کی طرح ہوتے ہیں دن اور رات کی طرح ہوتے ہیں جسمیں ایک عام انسان یہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ اونٹ کب کس کروٹ بیٹھنے والا ہے کب کونسی کشتی ڈگمگانے والی ہے اور کب کونسا سیاستداں کیا کہنے اور کرنے والا ہے اگر کسی دانشمند فرد سے یہ پوچھا جائے کہ دنیا میں سب سے چالاک اور موقع پرست کون ہوتا ہے تو ہمارا خیال یہ ہیکہ وہ بناء کوئی سانس لیئے فوری کہے گا کہ سیاستداں ہی سب سے چالاک اور موقع پرست ہوتا ہے اور یقیناً اسمیں کوئی دو رائے بھی نہیں ہیکہ سیاستداں جھوٹ تو اتنی آسانی سے بول سکتا ہیکہ وہ جھوٹ بول بول کر جھوٹ کو سچ بنادیتاہے اور ماحول و حالات کو سب سے جلدی بھانپ لینے والا بھی سیاستداں ہوتا ہے تاکہ نیا پانسہ جلد از جلد پھینک سکے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہیکہ جس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے لیکن اسکو اپنے سیاسی مفاد کی خاطر فسانہ بنادیا جاتا ہے تاکہ سیاسی ڈنکا جم کر بجے اور عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جائے۔

 

اترپردیش سماج وادی پارٹی کی خاتون قائد ماریہ عالم خان جو سلمان خورشید عالم خان سابق مرکزی وزیر خارجہ کی بھانجی ہوتی ہے جنھوں نے منگل کی روز ایک انتخابی جلسہ میں عوام سے رائے دہی کے فیصد میں اضافہ کیلئے ووٹ سے جہاد کرنے کی اپیل کی تھی یہ ویڈیو وائرل بھی ہوا اور الیکشن کمیشن نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر کاروائی کرتے ہوئے مقدمہ بھی درج کرلیا گیا جس کے فوری بعد 2/ اپریل بروز جمعرات کو نریندر مودی نے گجرات کے آنند میں ایک انتخابی ریالی میں ماریہ عالم اور سلمان خورشید کا نام لیئے بغیر سخت تنقید کرتے ہوئے عوام سے کہا کہ ابھی تک ہم نے لوجہاد سنا تھا لینڈ جہاد سنا تھا اب ووٹ جہاد بھی سن لیا ہے انھوں نے عوام سے اشاروں ہی اشاروں میں کہا کہ آپ جانتے ہو نہ جہاد کا مطلب کیا ہے۔۔۔جہاد کس کے خلاف کیا جاتا ہے۔۔۔۔انڈیا اتحاد اور کانگریس مسلمانوں کو بھاری تعداد میں متحد ہوکر ووٹ ڈالنے اور ووٹ سے جہاد کرنے کی اپیل کررہے ہیں انڈیا اتحاد اور کانگریس نے یہ نعرہ لگاکر جمہوریت کا مذاق بنادیا ہے یہاں دو سوال بہت ہی اہم ہے ایک یہ کہ جہاد کے معنی کیا ہیں؟دوسرا یہ کہ نریندر مودی نے عوام کو جہاد کا مطلب کیوں نہیں سمجھایا؟ادھوری بات کہہ کر کیوں چھوڑدی؟جہاد کے معنی ہیں کسی بھی جائز اور نیک کام کو کرنے کیلئے جدوجہد کرنا یا کوشش کرنا یہ جہاد کے لغوی معنی ہے ہمارا دوسرا سوال یہ تھا کہ نریندر مودی نے عوام کو جہاد کا مطلب کیوں نہیں سمجھایا یہاں پھر دو سوال اٹھتے ہیں یا تو انھیں خود جہاد کا مطلب معلوم نہیں تھا؟یا پھر وہ بناء بتائے عوام کو خود سمجھنے کیلئے چھوڑ دیا کہ جسکو جو مطلب نکالنا ہو نکال سکتے میرا تو کام ہوگیا دراصل ہندوتو گروہوں کی جانب سے بھارتی سماج میں جہاد کا جو تاثر اور جو معنی و مفہوم بتائے جاتے ہیں وہ یہ کہ جہاد کا مطلب یعنی مسلمان تلوار سے حملہ کرتے ہوئے قتل کردیتے ہیں یا تو مارتے ہیں یا ماردیئے جاتے ہیں لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اسلام میں جہاد کی کیا تعلیمات ہے کہ افضل الجہاد اپنے نفس سے لڑنا ہے یہاں دو احادیث نقل کی جارہی ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ ہیں؟ اس نے عرض کیا: ہاں! فرمایا: واپس جاؤ، ان دونوں کے حوالے سے جہاد کرو یعنی ان دونوں کی خدمت کرو”۔ایک موقع پرجاہمہ نام کا ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہاکہ اے اللہ کے رسولؐ میں جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہوں میں اس لئے آیا ہوں تاکہ آپ سے مشورہ کروں آپ نےفرمایا: کیا تمہاری والدہ ہیں؟ کہا: ہاں! فرمایا: جاؤ جاکر ہر وقت ان کی خدمت کرو اس لئے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے” یہ بھی جہاد ہے یعنی لفظ جہاد کو صرف ایک معنی میں استعمال نہیں کیا جاسکتا جسکو اند بھکتوں نے اپنے طور سے کچھ بھی سمجھ لیا ہے شائد ماریہ عالم نے اردو کی تہذیب و شیرنی کو برقرار رکھنے کیلئے اتنے خالص لفظ کا استعمال کرلیا جسکو منطقی طور پر نریندر مودی نے اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرلیا ذرا تصور کریں اگر ماریہ عالم یہ کہتی کہ آپ اپنے حق کیلئے لڑو اور اگر لڑنا ہے تو پہلے اپنے ووٹ سے جدوجہد کرو تو کیا اس جملے پر کاروائی ہوتی؟کیا یہ جملہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کررہا ہے؟کیا مودی اس جملے کو جہاد کے غلط بیانیے سے جوڑ کر عوام سےکہتے؟اگرنہیں تو بس ماریہ عالم نے یہی کہا ہے۔

 

کچھ روز قبل نریندر مودی نے راجستھان کے انتخابی جلسہ میں کھلے عام مسلمانوں کو کیا کچھ نہیں کہا دراندازی،ذیادہ بچے ہیدا کرنے والے،منموہن سنگھ کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہندوؤں کی جائداد اورہندو خواتین کے منگل سوتر کو بھی مسلمانوں کے حوالے کردینے کی بات کہی لیکن الیکشن کمیشن کے منہ پر قفل لگارہا جبکہ ایک وقت کے وزیر اعظم نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا بھدا مذاق بناتے ہوئے نفرت کا بازار گرم کیا،کیا یہ الیکشن کمیشن کا متضاد رویہ نہیں ہے؟ان انتخابی ریالیوں میں مودی امیت شاہ نڈا اور یوگی کی کوئی بھی انتخابی ریالی ایسی نہیں ہے جسمیں مسلمانوں کا نام نہیں لیا جارہا ہو امیت شاہ اور مودی نے تلنگانہ میں بھی انتخابی ریالیوں سے مسلمانوں کو دیئے گئے چار فیصد تحفظات کو بھی حذف کرنے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہا جارہا ہیکہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر تحفظات ہرگز نہیں دیا جانا چاہیئے کیا مودی اور امیت شاہ نے سچر کمیٹی کی رپورٹ کو نہیں پڑھا ہے جسمیں یہ واضح کیا گیا کہ مسلمان معاشی اور تعلیمی پسماندگی میں ایس سی ایس ٹی سے بھی پچھڑے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہیکہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر تحفظات دیئے گئے؟ گجرات میں مودی ایک جگہ ووٹ جہاد پر بات کررہے ہیں عوام کے سامنے جہاد کے مفہوم کو غلط رخ پر لے جاتے ہوئے رائے دہندوں کو مسلمانوں سے ڈرا کر ووٹ بٹورنا چاہتے ہیں اور دوسری جگہ اپنے آپ کو مسلم خواتین کے سچے ہمدرد بتاتے ہوئے تین طلاق کے مسلئہ کو ختم کرنے کا تذکرہ کررہے ہیں اور کانگریس پر یہ الزام لگارہے ہیں کہ وہ ایس سی،ایس ٹی،او بی سی کے تحفظات کو ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کو دے دیں گے جبکہ کانگریس کے منشور میں یہ بات کہیں بھی نظر نہیں آتی پھر کیوں مودی دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں؟اس سوال کا جواب یہی ہوسکتا ہیکہ مودی کو اپنی شکست کا خوف کھائے جارہا ہے جنکے قدم ڈگمگارہے ہیں تب ہی آخری چارہ بے چارے مسلمان ہی ہیں کیونکہ مودی اینڈ کمپنی پوری طرح سے بے سہارا ہوچکی ہے جنکے پاس انتخابی ایجنڈہ ملک کی ترقی کا نہیں بلکہ صرف ہندو مسلم کا سیاسی کھیل ہی بچا ہے تب ہی مسلمانوں کا سہارا لیکر تیسری بار اقتدار کی مسند پر براجمان ہونا چاہتے ہیں۔

 

مودی اور امیت شاہ کسی بھی انتخابی ریالی میں ملک کی ترقی بےروزگاری کا خاتمہ مہنگائی اور ملک میں بڑھتی غریبی کو کم کرنے پر ایک بات بھی کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اگر یہ ان سب پر عوام کے سامنے گفتگو کریں گے تو مودی حکومت کی دس سالہ کارکردگی پر سوالیہ نشان لگنا شروع ہوجائیں گے جنکے پاس کوئی مثبت جواب موجود نہیں ہے اسی لیئے یہ چاہتے ہیں کہ اکثریتی عوام کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا جائے اور ان میں جوش و ولولہ بھرکر رائے دہندوں کو اپنی جانب پر کشش بنایا جائے بلکہ جمعہ کے روز مودی نے بنگال میں انتخابی ریالی میں پھر سے فرقہ واریت پر جم کر سیاست کی کہا کہ بنگال میں ہندوؤں کے ساتھ کیا ہورہا ہے ٹی ایم سی سرکار یہاں ہندوؤں کو دوسرے درجہ کے شہری بنانا چاہتی ہے جے سری رام کہو تو انھیں غصہ آجاتا ہے انھیں رام مندر کی تعمیر سے اور رام نومی شوبھا یاترا سے پریشانی ہےمطلب صاف ہیکہ مودی اب انتخابی میدان میں صرف فرقہ واریت کی ہی سیاست کرنا چاہتے ہیں شائد انھیں اس بات کا اندیشہ لگ چکا ہیکہ اکثریتی طبقہ کا ایک بڑا حصہ بھاجپا سے دوری بنا رہا ہے تب ہی مودی فرقہ واریت کی کشتی میں سوار ہیں اور اب ایسا لگ رہا ہیکہ بھاجپا کے اعلی قائدین اس انتظار میں پوری آب وتاب سے لگے ہوئے ہیں کہ اپوزیشن کی جانب سے کوئی ایسی بات کہہ دے جسکا اصل سے کوئی تعلق بھی نہ ہو اور یہ توڑ مروڑ کے اس بات کا فسانہ بناتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کرسکیں یہاں ایک سوال پر مجھے اور آپکو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے اگر بھاجپا انتخابی ریالیوں میں لفظ مسلم کو استعمال کرنا بند کردے گی تو پھر عوام کے سامنے کیا کہے گی؟کچھ نہیں کیونکہ کوئی بھی ایسا مذہبی ایجنڈہ بچا ہوا نہیں ہے جس سے بھاجپا اور اسکے قائدین کی چرب زبانی میں عوام گمراہ ہوسکے یعنی مودی اینڈ کمپنی لفظ مسلم کے بغیر اپنی انتخابی ریالیاں کرتی ہے تو اسکو حاصل ہونے والا ووٹنگ گراف حد درجہ نیچے گرجائے گا تب ہی وہ بار بار مسلمانوں کو نشانے پر لے رہی ہیں اور کچھ ہمدردی جتاکر پسماندہ مسلمانوں یا خواتین کو تین طلاق سے چھٹکارہ دلانے کی لابی کو استعمال کرتے ہوئے مسلم خواتین سے ووٹ بٹورنے کی بھی پوری کوشش کررہے ہیں لیکن یہی مودی اور شاہ کو مسلم خواتین کے جائز حقوق نظر نہیں آتے اور نہ ہی بھگوا لوٹریپ کے جال میں پھنسائی جانے والی مسلم خواتین اور پھر انجام قتل یا خودکشی تک پہنچنے والی لڑکیوں کیلئے کم از کم مگر مچھ کے آنسو تک بھی نہیں بہاتے یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ہم نے ہمارے پچھلے مضمون میں بھی اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ بھاجپا کے اعلی قائدین شکست کے خوف سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں اور جیسے جیسے انتخابی مراحل آتے جائیں گے ویسے ویسے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ میں اضافہ ہوتا جائے گا آج اسکی بھر پور عکاسی نظر آرہی ہے آئندہ ایام بھی اسی طرح گذر سکتے ہیں یا مزید نفرت میں اضافہ کا بھی امکان ہے لیکن اچھی بات یہ ہیکہ اس بار ملک کے گوشے گوشے کا مسلمان رائے دہی کیلئے پوری شعوری کیفیت کے ساتھ تیار ہے بس یہی دانشمندی کی ضرورت ہے اور حکمت کا تقاضہ بھی یہی ہیکہ ہم بناء کسی جوش و جذبے میں آئے اپنے ایک ایک ووٹ کا صحیح استعمال کریں اور دوسروں کو بھی رائے دہی میں حصہ لینے کی تلقین کرتے رہیں نفرت کے شیدائی تو بس موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب کونسی بات کا فسانہ بنایا جاسکے جسکا حقیقت سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہوتا اسی لیئے ہم سب کو چاہیئے کہ انتخابات کے اختتام تک ملت کو جاگنے اور جگانے کا کام کرتے رہنا چاہیئے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button