نیشنل

مہاراشٹرا کے لاتور میں موٹر سائیکل سوار مسلم خاندان کا 5 کلومیٹر تعاقب کرتے ہوئے کار سے روند دینے کا واقعہ _ ماں اور بیٹی جاں بحق

ممبئی _ 6 اکتوبر ( اردولیکس ڈیسک)مہاراشٹر کے ضلع لاتور میں 29 ستمبر کو ایک تین سالہ بچی اور اس کی والدہ اس وقت جاں بحق ہو گئیں جب پانچ افراد نے مبینہ طور پر ایک کار  میں ان کے خاندان  پیچھا کیا جو موٹر سائیکل جا رہے تھے اور انہیں روند دیا۔ یہ واقعہ مبینہ طور پر ڈرائیونگ کے معاملے پر ہونے والے جھگڑے سے شروع ہوا اور تقریباً پانچ کلومیٹر تک خاندان کا تعاقب کیا گیا۔

موٹر سائیکل سوار 35 سالہ صادق شیخ اور ان کا چھ سالہ بیٹا اس حادثے میں زندہ بچ گئے، تاہم دونوں زخمی ہوئے۔ صادق شیخ کے مطابق حملہ آوروں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے مذہبی توہین آمیز جملے استعمال کیے اور کہا کہ "مسلمانوں کو سبق سکھانا ضروری ہے۔” سماجی کارکنوں اور وکلاء کی کوششوں کے بعد لاتور پولیس نے پانچوں ملزمین کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا۔ ملزمین کے نام دگمبر پانڈولے، کرشنا واگھ، بسوراج دھوترے، منوج مانے اور منوج مدامے بتائے گئے ہیں۔

 

لاتور کے پولیس سپرنٹنڈنٹ، سومی مُندھے نے قتل کے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ “یہ بظاہر روڈ ریج کا معاملہ لگتا ہے۔” واقعہ اس وقت پیش آیا جب صادق شیخ، ان کی اہلیہ اقرا (24) اور ان کے لڑکے  احد اور نادیہ، لاتور سے تقریباً 20 کلومیٹر دور، اوسہ میں اپنی بہن سے مل کر واپس گھر جا رہے تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق، شام 8 بجے کے قریب ایک گاڑی ان کی موٹر سائیکل کے سامنے آئی۔ جب صادق شیخ نے گاڑی میں موجود افراد سے ان کے نشے میں ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے سوال کیا، تو گاڑی نے ان کا پیچھا شروع کر دیا اور انہیں بدھادا گاؤں کے قریب جا کر ٹکر مار دی۔ صادق شیخ اور ان کا بیٹا زخمی ہوئے جبکہ اقرا اور نادیہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئیں۔

ابتدا میں، خاندان کا خیال تھا کہ یہ ایک حادثہ ہے، لیکن جب صادق شیخ کو ہوش آیا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں ان کے مذہب کی بنا پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کے وکیل الطاف قاضی کے مطابق، حملہ آوروں نے اقرا کے برقعہ پہننے پر انہیں نشانہ بنایا۔ تاہم، ایف آئی آر میں ان توہین آمیز جملوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

مقامی لوگوں نے واقعہ کے فوراً بعد ملزمین کو گرفتار کر لیا، اور ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں ایک ملزم یہ اعتراف کرتا ہوا نظر آیا کہ اس نے جان بوجھ کر خاندان کو روند دیا تھا۔ خاندان کا الزام ہے کہ پولیس نے ابتدا میں سنگین الزامات لگانے سے گریز کیا اور اس واقعہ کو عام حادثے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ وکیل قاضی اور کمیونٹی کے سماجی کارکنوں کی مسلسل کوششوں کے بعد یکم اکتوبر کو، واقعہ کے دو دن بعد ایف آئی آر درج کی گئی۔

الطاف قاضی نے کہا کہ "پولیس ابتدا میں غیر ارادی کا مقدمہ درج کرنا چاہتی تھی، حالانکہ ویڈیو میں واضح طور پر ارادے کا ثبوت موجود تھا۔ بہت زیادہ اصرار کے بعد، پولیس نے قتل کے الزامات عائد کرنے پر اتفاق کیا۔”

متعلقہ خبریں

Back to top button