دار الاقبال بھوپال میں، حضرت مولانا سجاد نعمانی صاحب کا ورود مسعود
از قلم :ڈاکٹر خورشید عالم ندوی ،بھوپال
کئی ہفتوں کی مسلسل بارش کے بعد ، گزشتہ دو روز بھوپال میں مطلع صاف رہا ، بندوں کی تمنا بر آئی، بھوپال کی فضاؤں میں اس بار، ورود خلیل کے باعث ،سرور دل اور راحت جان کا سامان عام تھا، ایسا لگا جیسے دل مایوس پر، ابر امید سایہ فگن ہے، ملک میں ملت کے چہروں پر پھیلی لمبی یاس اور حلق میں چبھتی پیاس کو کچھ آس بندھی ، وقتی ہی سہی، لیکن ناامیدی کا سایہ چھٹتا نظر آیا، دلوں کی تشنگی کو آب اور روح کی بے تابی کو سجاد نعمانی کی شکل میں عزت مآب مل گئے . استاذ محترم کی بھوپال میں یہ پہلی آمد نہ تھی لیکن یہ دورہء بھوپال اپنے پیش رو دوروں سے کئی معنی میں بہت مختلف تھا. استاذ محترم حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب کے عالمانہ ، جرات مندانہ ، دانش ورانہ اور چادر عفت کو دراز و دبیز کردینے والے حکیمانہ چار خطاب ہوئے ، جن کی سماعتوں نے عوام و خواص، خواتین و خوانین بھوپال کو ماہیء بے آب کردیا، دل بیتاب کو اور تڑپا دیا اور ہر خطاب کے جدا جدا مجمع میں، کچھ کرنے کی” اجتماعی انگڑائی” صاف صاف دیکھی گئی،
ان چاروں "خطبات بھوپال” کے اثرات ، سننے اور سن ہوجانے کی ملی روایت اور معتاد طبیعت سے یکسر مختلف تھے، اگر میں استاذ محترم کے ان خطبات بھوپال کو مولانا پروفیسر ڈاکٹر محمد حسان خان صاحب دام ظلہ کے نام معنون(मुअनवन) کروں تو بیجا نہ ہوگا ،کیوں کہ مولانا کی بھوپال آمد، انہیں کی دعوت پر ممکن ہو سکی، ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں، یہ دعوت بر وقت، ہوش مندا نہ اور داعی کا جرات مندانہ فیصلہ تھی ، اس لئے امیر دار العلوم، اہلیان بھوپال کی جانب سے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں . ابتدائی خطاب بعنوان ” علماء امت اور ان کی ذمہ داریاں”، اندرون تاج المساجد، مسقف حصہ میں، مولانا پروفیسر محمد حسان خان صاحب حفظہ اللہ، امیر دار العلوم تاج المساجد، بھوپال کی صدارت اور مولانا اطہر حبیب صاحب ندوی، مہتمم دار العلوم تاج المساجد بھوپال کی تمہیدی گفتگو کے بعد شروع ہوا، اس اجلاس میں بھوپال اور صوبہء مدھیہ پردیش کے کئی اضلاع سے علماء کرام اور دینی مدارس کے ذمہ داران ، شرکت کے لئے بھوپال تشریف لائے ، دار العلوم ندوۃ العلماء کی پہلی اور وسط ہند کی معتبر شاخ ، دار العلوم تاج المساجد بھوپال کے اساتذہ اور طلبہ نے فریضہء میزبانی ادا کرتے ہوئے مہمانوں کا استقبال کیا، اور وداعی سلام تک کسی کو دلگیر نہ ہونے دیا ، استاذ محترم نے علماء کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا کہ "وارثین انبیاء” کا لقب کوئی ملنے والا تمغہ نہیں ہے
بلکہ یہ لقب ، کار نبوت کی ذمہ داری اٹھانے کے ساتھ مشروط ہے، دوسرا خطاب بھی تاریخی تاج المساجد کے وسیع و عریض صحن میں ، بعد نماز مغرب بعنوان "سیرت کا پیغام موجودہ دور کے انسانوں کے نام” منعقد ہوا، تاج المساجد نے غالباً بڑے عرصہ کے بعد ، مسلمانوں کا اتنا ہجومg اور عاشقان رسول کا ایسا سیلاب ، اپنے دامن میں دیکھا ہوگا، تاج المساجد کے جملہ parking areas پلک جھپکتے ہی بھر گئے اور تنگ دامنی کا بیک وقت شکوہ اور شکر دونوں کرتے نظر آئے ، رضاکاروں نے لاج رکھ لی ورنہ چاک گریباں کی نوبت سے بارہا مشکل تھا بچنا. مولانا محترم نے موجودہ دور کے عدالتی نظام کو دور فاروقی سے سبق لینے کی ضرورت پر زور دیا اور موجودہ زمانہ کے ججوں کے سامنے قاضی شریح کی شخصیت کو بطور مثال پیش کیا.آمد کے دوسرے دن ، مولانا کا تیسرا اور احاطہء تاج المساجد میں آخری "خطاب برائے خواتین” کے انعقاد کا اہتمام کیا گیا تھا ، خواتین کا جوش و ہجوم ، مردوں کو مات دینے کی کوشش کر رہا تھا لیکن دے نہ سکا. مولانا کے خطاب میں شرکت کے لئے مردوں اور عورتوں کے درمیان تنافس، مدت مدید کے بعد قابل دید تھا. سلسلہء خطبات کا اختتام، بعنوان "خطاب برائے خواص” مسک الختام کی شکل میں بھوپال کے hotel imperial Sabre کے حصہ میں آیا، جہاں ہال میں pin drop silence تھا ، خطاب کے دوران مولانا کی حس لطیف آشکارا ہوتی رہی اور مزاح لطیف سے بھی، عوام و خواص اپنے اپنے ظرف کے بقدر ،خوب محظوظ ہوئے ، اس طرح سننے، سنانے والے اور سنائی جانے والی باتوں کے مابین رشتہ، ایک پل کے لئے بھی نہ ٹوٹ سکا، خطاب کی سماعت میں انہماک اتنا گہرا تھا کہ اپنے اور بیگانہ کی ہلکی سانسوں کی آواز بھی تقریر خلیل الرحمٰن میں خلل کا خدشہ پیدا کر رہیں تھیں.
استاذ محترم کا یہ دورہء بھوپال ، تاریخی اہمیت کا حامل تھا جس دوران، آپ نے موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کو در پیش مسائل اور challenges پر کھل کر بات کرتے ہوئے اپنے بصیرت افروز محاضروں سے نوازا (جس کا جائزہ، قسط دوم میں پیش کیا جائے گا ، ان شاء اللہ) .دل، دماغ حتی کہ جذبات و احساسات کو وافر مقدار میں تغذیہ اور تونگری کا سامان، دسترخوان خلیل سے تقسیم ہوا ، مولانا کے اس دورہ نے اتحاد بین المسلمین کی روح پھونکنے کا کام کیا، مولانا نے لفظوں کو چبائے بغیر، مرض کی تشخیص کرتے ہوئے ازالہء مرض کے لئے نسخہء شفا پیش کیا اور زور دے کر کہا کہ تنظیموں کے درمیان تال میل وقت کی ضرورت ہے، داڑھی، ٹوپی اور پائجامَہ ہی اسلام سے وابستگی کو ناپنے کا آلہ نہیں ہیں ،یہ واضح رہنا چاہئیے کہ "محض دعاؤں کی بنیاد پر خدا نے اپنے فیصلے انبیاء کے لئے بھی نہیں بدلے” ، بالخصوص مولانا نے تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کے زمینی کاموں کی مخالفت سے عوام و خواص کو باز رہنے کی تلقین کی، یہ تلقین آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے، مولانا کا یہ بیان” مسجدوں میں آویزاں کئےجانے کے لائق ہے” ، امت کے دردوں کا مداوا، اس نصیحت میں پنہاں ہے، یہ نصیحت الہامی ہے ، یہ تلقین game changer بن سکتی ہے, یہ امیر امام ربانی کا سجھایا ہوا وہ نسخہء کیمیا ہے جو قول فیصل”و انا لکم ناصح امین” سے براہ راست مستفاد ہے.