سقوطِ حیدرآباد اور موجودہ منظر نامہ
سید سرفراز احمد، بھینسہ تتلنگانہ
تاریخ کو مٹانے کا فن انہی افراد کو آتا ہے جنکی اپنی کوئی تاریخ نہیں ہوتی جنکے اپنے کوئی کارنامے ملک کے مفاد میں نہیں ہوتے لیکن تاریخ یہ بھی رہی ہیکہ ہر دور میں تاریخ کو مسخ کرنے والے اس دنیا سے فنا ہوتے گئے لیکن انکی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوئی ریاست حیدرآباد کی بھی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے حالانکہ ایک طویل عرصہ سے ریاست حیدرآباد کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی پر سازش رچانے والے کبھی کامیاب نہیں ہوسکے اور نہ آئندہ ہونگے ریاستِ حیدرآباد جس کی تاریخ 13ویں صدی کے آخر میں علاؤالدین خلجی کی آمد سے شروع ہو کر بہمنی’ شاہی اور آصفجاہی دور تک بیسویں صدی کے نصف تک پھیلی ہوئی ہے موجودہ شہرحیدرآباد تقریباً دو ہزار مربع میل سے زائد پر مشتمل ہے جس کے باقی حصے ریاستِ آندھرا پردیش’ کرناٹک اور مہا راشٹرا میں تقسیم ہو چکے ہیں ریاست حیدرآباد کی خصوصیت تھی کہ یہ ہمیشہ امن و آشتی کا علمبردار ‘ ہندو مسلم یکجہتی کی مثال اور علم و ادب نوازی کی ایک ایسی مثال تھا جس کو دنیا بھر سے علماءو دانشواران، مفکرین و مورخین نے آکر اپنی خدمات سے مزید چار چاند لگائے۔
17/ستمبر 1948کو تلنگانہ کی سرزمین تاریخی ریاست حیدرآباد کیلئے تاریخی دن مانا جاتا ہے کیونکہ اس دن تلنگانہ کا بیشتر حصہ ہندوستان یونین میں انضمام ہوا تھا
تاریخی لحاظ سے تلنگانہ کا علاقہ ریاست حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کا حصہ تھا
ریاست تلنگانہ کی تاریخ سے ناآشنا ایک گوشہ بے بنیاد حوالے دیکر اپنی سیاسی روٹی سیکھنے کیلئےاس دن یومِ نجات منانا چاہتاہے محض اسلیئے کہ مسلم حکمرانوں کی تاریخ کو مسخ کرسکیں حالانکہ سلطنت آصفیہ کی دور حکمرانی کا ایک طویل دور رہا جسمیں ہندو مسلم سے کسی بھی قسم کا بھید بھاؤ نہیں کیاگیا بالخصوص سلطنت آصفیہ کے آخری حکمران نظام عثمان علی خان نے حیدرآباد کو جسطرح سے ترقی پذیر بنایا وہ بھی ایک مثالی ہے نظام عثمان علی خان کا (عہد حکومت 1911 تا 1948ء)تک رہا عثمان علی خان کا دور حکومت حیدرآباد کی ترقی کا سنہری دور کہا جا سکتا ہے۔
وہیں تلنگانہ جدوجہد، ملک کی آزادی، ریاست حیدرآباد کا انڈین یونین میں انضمام ایسے نکات ہیں جن کی وجہ سے اس دور کو انقلابی دور بھی کہا جا سکتا ہے ریاست حیدرآباد کی یہ تاریخ رہی ہیکہ یہ ریاست قدرتی وسائل سے کھچا کھچ تھی جس پر ہر کسی کی نظر جمی ہوئی تھی انہی وسائل کو حاصل کرنے کیلئے جو دوڑ ودھوپ کی گئی جس سے ریاست حیدرآباد میں نظام مخالف بغاوت نے اپنے پیر پسارےحالانکہ اس دور میں ریاست حیدرآباد نے نمایاں صنعتی ترقی حاصل کی تھی، حمل ونقل کے ذرائع بہتر ہوئے، تعلیمی اعتبار سے بھی بہت ترقی ہوئی اس دور کی حکومت کے رفاہی و فلاحی کاموں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہنے والوں نے نظام حکومت کو جابرانہ زمینداری نظام بھی قرار دیا حالانکہ ان ہی کی حکومت کی ترقیات سے اراضیات سے ابھی بھی پورا تلنگانہ استفادہ حاصل کررہا ہے نظام کی دورِحکومت میں غیر ملکی طاقتیں اپنی دانشمدانہ حکمت عملی سے ریاست حیدرآباد کو لوٹتے رہے جسمیں فرانسیسیوں اور انگریزوں نے اپنی مفاد پرستی کا جم کر فائدہ اٹھایا کبھی کسی بادشاہ سے دوستی کاہاتھ بڑھاکر دھوکا دیتے تو کبھی کسی بادشاہ سے دوستی کرکے دھوکا دیتے رہےفرانسیسیوں اور انگریزوں کی روایتی دشمنی کی آگ یہاں بھی بھڑکی اور ان دونوں سفید فام اقوام نے ہندوستان خصوصاً دکن کی سرزمین کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ہندوستانی حکمرانوں کی تائید کے پردے میں اور ان کے مددگاروں کے طور پر دراصل اپنی جنگیں لڑیں جن میں ہندوستان کا زیادہ نقصان ہوا ان دونوں سفید فام اقوام نے اپنی آپسی دشمنی نکالنے کے لئے دکن کے مختلف حکمرانوں کو مُہروں کے طور پر استعمال کیا اور ہندوستانیوں کی جان و مال کے زیاں سے اپنی دیرینہ نسلی دشمنی کا حساب چکتا کرتے رہے انگریز اور فرانسیسی فتح یاب رہے لیکن نقصان توہندوستان کا ہی ہوتا رہا اس آپسی جنگ میں انگریزوں کو فوقیت حاصل ہوئی سلطنت آصفیہ کے آخری دور میں انگریز عملاً بادشاہ گر کا کردار ادا کر رہے تھے اور حقیقی طاقت انگریزوں کے ہاتھ میں تھی۔
آزادی کے بعد بھی ملک کی تین ریاستیں جو انڈین یونین میں ضم ہونا نہیں چاہتی تھی جنمیں کشمیر،جوناگڑھ(گجرات)اور حیدرآباد شامل تھے اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل اور نظام میر عثمان علی خان کے درمیان کئی دفعہ مذاکرات اور بات چیت ہوئی لیکن باوجود اسکے ریاست حیدرآباد کو عثمان علی خان انڈین یونین میں ضم کرنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ ریاست حیدرآباد قدرتی وسائل سے مالامال تھی جو دنیا کے دولتمند ریاستوں میں اولین سطح پر تھی جس پر ہر کوئی اپنی گرفت جمانا چاہتا تھا تاکہ اسکے وسائل اور دولت کو بٹور سکے لیکن اسکے بعد ریاست حیدرآباد کی جو صورتحال رہی انتہائی سنگین تھی پولیس ایکشن ہوا جسمیں ہزاروں معصوموں کی جانیں گئی جسکے اعدا و شمار میں تضاد پایا جاتا ہے بالآخر نواب عثمان علی خان کو شکست ہوئی ستمبر 1948ء میں سقوط حیدرآباد کے بعد سلطنت آصفیہ کے دور کاخاتمہ ہو گیا۔
1948 کے بعد ہندوستان میں ریاست حیدرآباد کے انضمام کے بعد تلنگانہ کو کچھ برسوں تک ایک الگ ریاست کی حیثیت حاصل رہی حیدرآباد کی اس وقت کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے زمانے کے ممتاز عالم و مفکر اسلام سید ابولاعلٰی مودودی نے اپنے رسالے ’ترجمان القرآن‘ کے سنہ 1948 کے پانچویں اور دسمبر کے شمارے میں لکھا: "تقسیم کے بعد حیدرآباد انڈین یونین کے گھیرے میں آ چکا تھا اس لیے نہ باہر سے کوئی بڑی مدد اس کو پہنچ سکتی تھی اور نہ ہی اندر اس کا کوئی امکان تھا’ان حالات میں کوئی ہوش مند انسان یہ امید نہیں کر سکتا تھا کہ وہاں 85 فیصدی غیر مسلم اکثریت پر 15 فیصد مسلم اقلیت کا وہ غلبہ و اقتدار برقرار رکھا جاسکتا ہے جو پہلے بالکل مختلف حالات میں قائم ہوا اور رہا تھا اور کسی مرد عاقل سے یہ بات بھی چھپی نہیں رہ سکتی تھی کہ حیدرآباد انڈین یونین سے لڑ کر اپنی خود مختاری قائم نہیں رکھ سکتا’دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان کشمکش، مزاحمت اور جنگ کے بجائے اپنے مستقبل کے لیے کوئی ایسی راہ تلاش کرتے جس میں وہ کامل تباہی سے بچ بھی سکتے اور آئندہ اپنی اخلاقی و دینی حالت کو بہتر بنا کر کوئی نتیجہ خیز جدوجہد کرنے کے مواقع بھی انھیں حاصل رہتے لیکن جن لوگوں نے ایسی کوئی راہ سوچی اور بتائی وہ مسلمانوں کو دشمن نظر آئے انھوں نے اپنی رہنمائی کے لیے ایسے لوگوں کو پسند کیا جو اندھے جوش، کھوکھلے نعروں، جھوٹی توقعات غلط امیدوں، بے بنیاد آرزوؤں اور بے زور لاف و گزاف کے ذریعہ سے ان کے غرور و نفس کو فی الوقت تسکین دے سکیں’وہ اس آواز پر مرمٹے کہ کوئی دِلی کے لال قلعہ پر آصف جاہی جھنڈا گاڑ دینے کی بات تو کرتا ہے اس نشے میں 40 لاکھ کی پوری آبادی مست ہو گئی کوئی یہ سوچ کر اپنے وقتی لطف کو کرکرا کرنے پر راضی نہ ہوا کہ آخر یہ کام ہو گا توکس طرح؟سب کے سب آنکھیں بند کر کے اس لاف زنی کے پیچھے چل پڑے اور اپنی قسمت پر ناز کرنے لگے کہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی انھیں ایسے بے نظیر لیڈر میسر آتے ہی چلے جاتے ہیں!”
مولانا مودودی نے کسی شخص کا نام نہیں لیا لیکن نظام حیدرآباد کو بے بنیاد مشوروں سے نوازنے والوں کو نشانہ بنایا کہ اگر دانشمندی اور حکمت سے کچھ فیصلے کیئے جاتے تو اپنی سلطنت کو برقرار رکھ سکتے تھے ـ
بہر حال ریاست حیدرآباد اور آندھرا انگریزوں کی مدراس پریسڈینسی میں شامل تھے جسکے بعد آندھرا قائدین کی نظر ریاست حیدرآباد کی دولت و وسائل پر تھی جو بارہا انڈین یونین سے مطالبہ کررہے تھے کہ تلنگانہ اور آندھرا کو ملا کر متحدہ آندھرا پردیش بنائے جس کیلئے باضابطہ ایک تحریک کا آغاز کیا پھر ایک متحدہ آندھرا پردیش ریاست کی تشکیل پر رضامندی ہوئی چونکہ ملک کی ریاستیں ابھی الگ تھلگ نہیں ہوئی تھی اسی اثناء میں فضل علی کمیشن کی سفارشات پر ریاستوں کو علحدگی کا تنظیمی جدید قانون1956میں بنایا گیا بعد ازاں آندھرا اور تلنگانہ کے قائدین کے درمیان متحدہ ریاست آندھرا پردیش کی تشکیل کیلئے دہلی میں ایک شریفانہ معاہدہ ہوا جسکے ماتحت تلنگانہ کے علاقہ کو آندھرا میں شامل کرتے ہوئے متحدہ ریاست آندھرا پردیش کا قیام یکم نومبر 1956 کو عمل میں آیا جسکا صدر مقام حیدر آباد مقرر کیا گیایہ شریفانہ معاہدہ جو14نکات پر مبنی تھا لیکن ان 14نکات میں سے ایک نکات پر بھی عمل آواری نہیں ہوئی چونکہ حیدرآباد ترقی یافتہ ریاست تھی اسلئیے معاہدہ میں حیدرآباد ریاست کو اسکے وسیع وسائل کی طرز پر تلنگانہ کی بہ نسبت آندھرا کو زائد حقوق و اختیارات طئے کیئے گئے تھے1956میں ریاست آندھرا پردیش کے قیام کے بعد سے لیکر 2014تک تلنگانہ سے مسلسل نا انصافی ہوتی رہی جو شریفانہ معاہدہ تشکیل آندھرا پردیش کے وقت ہوا تھا وہ محض شریفانہ ہی بنکر رہ گیا چونکہ تلنگانہ کی عوام سے ان 58سالہ عرصہ میں آندھرائی تلگو ریاست آصف جاہی سلطنت کے دور کی ترقی اور وسائل کو تلنگانہ عوام کے ساتھ حق تلفی کرتے ہوئے اپنا ڈیرہ جما رکھا تھا جو انصاف کاتقاضا یہی تھا کہ ناانصافی کو روکاجائے علحدہ تلنگانہ کی تحریک نے جنم لیا طویل جدو جہد کے بعد 2/جون 2014 کوعلحدہ تلنگانہ کی تشکیل عمل میں آئی ـ
بی جے پی ہر سال تلنگانہ میں 17/ستمبر آنے سے قبل اسکی تیاری کرتی ہے اور دور نظام کو ہندو مسلم کی آنکھ سے دیکھتی ہے اور ریاست کی عوام کو بھی اپنی ہی طرح دیکھنے پر باور کراتی ہے تاکہ بی جے پی سیاسی مفاد حاصل کرسکے بی جے پی 17/ستمبر کو یومِ نجات سرکاری طور پر منانے کا مطالبہ کرتی ہے اور اسکو فرقہ وارانہ ایجنڈے کے تحت مسلم حکمراں سے ہندو آبادی کو ملی آزادی کے طور پر پیش کر کے بتانا چاہتی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ کیا 1947کو انگریزوں سے ملی آزادی نہیں تھی۔۔۔؟ کیا نظام بھی ایک غیر ملکی تھے جسکو بی جے پی آزادی کہتی ہے۔۔۔؟ نہیں تو پھر بی جے پی اس دن یومِ نجات کسطرح منا سکتی حالانکہ ریاست حیدرآباد کا ہندوستان یونین میں انضمام ہونا ہندو مسلم کی بنیاد پر نہیں ہوا اور نہ ہی اس کیلئے ہندو مسلم میں کسی بھی قسم کا تضاد تھا لیکن بی جے پی اسکو فرقہ پرستی سے جوڑنا چاہتی ہے اور کہتی ہیکہ نظام حکمران سے ریاست حیدرآباد آزاد ہوا کیونکہ بی جے پی کو ریاست حیدرآباد سے نہیں بلکہ سلطنت آصفیہ کے دور سے گھٹن ہوتی ہے جنکی اپنی ایک سلطنت جو تھی تب ہی بی جے پی کو یہ ہضم نہیں ہوتا اسلیئے وہ ہر سال تلنگانہ کی عوام کے سامنے جھوٹ پر مبنی بیان بازی کرکے عوام میں ورغلانے کا کام کرتی ہے۔
جب بھی 17 ستمبر آتا ہے، تو بھارتیہ جنتا پارٹی تلنگانہ کے لئے بے پناہ محبت کے گل نچھاور کرتی ہے نظام اور انکے دورحکومت پر وہ غصہ کا اظہار کرتی ہےوہ نظام کے خلاف جدو جہد کرنے والے اور ان کی قربانیوں کی من گھڑت کہانیاں سناتے نہیں تھکتی ہےیہ سب دیکھکر تاریخ سے بےخبرافراد کو یہ احساس ہو سکتا ہے کہ بی جے پی یا ان کے ماتحت ادارے کے لوگوں نے سچ مچ نظام کے خلاف جدو جہد کی ہوگی، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ نظام مخالف جدو جہد میں نہ بی جے پی، نہ ہی آر ایس ایس اور نہ ان کی معاون تنظیموں کا ذرا بھی رول تھا بلکہ جنھوں نے جدو جہد کی انکی تاریخ سے عوام کو آشنا نہیں کرواتی بلکہ اس کو فرقہ پرستی کا رنگ دینے کی کوشش کرتی ہےبی جے پی اور انکی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے رہنماء یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت کے حکمران مسلمان تھے جنھوں نے ہندو مذہب کے لوگوں پر ظلم کیا تھا وہ تلنگانہ کے لوگوں کی مسلح بغاوت کو مسلم حکمرانوں کے خلاف ہندو عوام کی جدو جہد کے طور پر پیش کرنے کی ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہےجبکہ سچائی یہ ہے کہ تلنگانہ کے تمام مذاہب کے لوگوں نے نظام کی حکومت کو گنگا جمنا تہذیب کا سہرا باندھا تھا جنکے کارناموں کو ریاست تلنگانہ کھبی بھی فراموش نہیں کرسکتی گذشتہ دس دہائیوں میں عثمانیہ یونیورسٹی سے تعلیم سے فراغت حاصل کرنے والا چاہے وہ ڈاکٹر ہو یا پروفیسر چاہے وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو اپنے آپ پر فخر محسوس کرتا ہے آج بھی طلباء عثمانیہ یونیورسٹی میں داخلہ پر بے انتہا مسرت کا اظہار کرتے ہیں کیا اس عظیم شہرت یافتہ یونیورسٹی اور کارنامے کو مسخ کیا جاسکتا ہے؟جسکے فارغین ان گنت طور پر اندرون و بیرون ملک میں اپنے آگے عثمانیہ لگاکر خدمات انجام دینے پر فخر محسوس کرتےہیں۔
تلنگانہ میں ہر سال بی جے پی بڑے پیمانے پر یوم نجات کا جشن مناتے رہی ہے اور ہر بار امیت شاہ اس تقریب میں شرکت کرتے رہے پچھلے تین سال قبل بھی امیت شاہ نے اسی موقع پر تلنگانہ کا دورہ کرتے ہوئے بی جے پی کی یاترا پرجا سنگھا راما کے تحت 17/ستمبر کو نرمل میں ایک سبھا کی اور پچھلے سال بھی امیت شاہ نے اسی دن شہر حیدرآباد کا دورہ کرتے ہوئے فرقہ پرستی کی سیاست کا ڈنکا بجایا اور پھر سے وہی یومِ نجات کو سرکاری طور پرمنانے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور نظام حکومت کے احسانات گنوانےکے بجائے نظام مخالف فرقہ پرستی کی سیاست کا تماشہ دیکھا گیا جس سے بی جے پی تلنگانہ میں اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کرنا چاہتی ہے جسکا فائدہ وہ 2024 کے تلنگانہ اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا انتخابات میں لے چکی ہے بی جے پی کا ہمیشہ سے یہ منشاء رہاکہ نظام حکومت کو ہندو مخالف بتایا جائے تاکہ اکثریتی فرقہ کے رائے دہندوں کواپنی جانب پر کشش بنایا جاسکے تاکہ پھر سے نظام مخالف زہر عوام میں بھر کر سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے لیکن ہر بار بی جے پی ریاست تلنگانہ میں اپنی سیاست چمکانے میں بہت پیچھے رہی ہے کیونکہ عوام کو فی الحال فرقہ پرست سیاست کی نہیں بلکہ ترقی اور روزگار کی ضرورت ہے پر ہم اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی شہر حیدرآباد میں مسلم حکمرانوں اور میر عثمان علی خان کی بے لوث بلامذہب و ملت خدمات و تاریخی کارناموں کی ایک ایک در و دیوار امن بھائی چارہ و ہندو مسلم اتحاد کا پیغام دے رہی ہے ـ