جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
شجاعت علی ریٹائرڈ آئی اے ایس
l گوتم اڈانی کی گرفتاری کا وارنٹ
l عروج اور زوال قدرت کا قانون
l ملک کی سیاست اور معیشت میں زبردست طوفان
ایک بزرگ نے کہا تھا کہ جب تک قدرت ، طاقت اور اختیار ہو ،اللہ کی مخلوق پر احسان کرو ، آسانیاں پیدا کرو کیونکہ انسان کی قدرت ، اختیار اور طاقت ہمیشہ باقی نہیں رہتے۔ صنعتکار اور تاجر گوتم اڈانی پر یہ باتیں پوری طرح صادق آتی ہیں کیونکہ اس نے یہ نہیں سوچا کہ جس طاقت کے بھرم پر وہ من مانی کررہا ہے کیسے اسے تسلسل ملے گا۔ اب جب کہ اس کا زوال شروع ہورہا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ طاقت ہمیشہ باقی نہیں رہتی۔ اس کے خلاف امریکہ میں رشوت اور بدعنوانی کا الز۔ام کا لگنا فرد جرم کا عائد ہونا کا یہ نہیں درشاتا کہ بدعنوانی کسی بھی حالت میں چھپ نہیں سکتی۔ اس پر یہ الزام ہے کہ اس نے ہندوستانی عہدیداروں سے شمسی توانائی کا پراجکٹ حاصل کرنے کے لئے 250 ملین ڈالر (تقریباً 2000 کروڑ روپئے )کی رشوت دی۔
دنیا کی سب سے امیر شخصیات میں سے ایک گوتم اڈانی نے گذشتہ دنوں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں فتح کا جشن منایا اور امریکہ میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ 62 سالہ انڈین ارب کی 169 ارب ڈالر مالیت کی ایک وسیع سلطنت ہے۔ اس میں بندرگاہیں، ایئرپورٹ اور قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبے ہیں۔ گوتم اڈانی کو وزیر اعظم نریندر مودی کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم حال ہی میں اسے امریکہ میں دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا ہے جو ممکنہ طور پر اندرون و بیرون ملک ان کے عزائم کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے اپنی کمپنی کے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر ہندوستانی حکام کو مبینہ طورپر رشوت دی تاکہ ایسے ٹھیکے حاصل کیے جائیں جن سے 20 برسوں میں دو ارب ڈالر کا منافع ہو۔
اڈانی گروپ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انھیں ’بے بنیاد‘ قرار دیا ہے۔ تاہم ان الزامات کی وجہ سے اڈانی گروپ اور ہندوستانی معیشت کو ابھی سے نقصان پہنچنا شروع ہو گیا ہے۔ اڈانی گروپ کو جمعرات کے روز مارکیٹ ویلیو میں 34 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جس سے ان کی 10 کمپنیوں کی مشترکہ مارکیٹ کیپٹلائزیشن 147 ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ اڈانی گرین انرجی فرم، جو کہ ان الزامات کا مرکز ہے، کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے 60 کروڑ ڈالر کے بانڈ کی پیشکش کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے۔ ان الزامات کے باعث انڈیا کے کاروبار اور سیاست پر کیا اثر پڑ رہا ہے، اس کے بارے میں بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ’الزامات کی وجہ سے انڈیا کی سیاست اور معیشت متاثر ہو گی‘۔ انڈیا کی معیشت ملک کے سرکردہ انفراسٹرکچر ٹائیکون گوتم اڈانی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ان کے پاس 13 بندرگاہیں ہیں جو مارکیٹ کا 30 فیصد حصہ ہیں۔ ان کے پاس سات ایئر پورٹس ہیں جہاں مسافروں کی آمد و رفت کی شرح 23 فیصد ہے۔ اڈانی انڈیا کے دوسرے سب سے بڑے سیمنٹ کے کاروبار کے بھی مالک ہیں جو مارکیٹ کا 20 فیصد حصہ ہے۔ ان کے پاس کوئلے سے چلنے والے چھ پاور پلانٹس بھی ہیں۔
حال ہی میں انھوں نے گرین ہائیڈروجن میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ وہ آٹھ ہزار کلومیٹر طویل قدرتی گیس پائپ لائن کے مالک بھی ہیں۔ فی الوقت وہ انڈیا کا سب سے طویل ایکسپریس وے بھی بنا رہے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی کچی آبادی کے لیے بھی ترقیاتی کام کر رہے ہیں۔ ان کے پاس 45 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ تاہم ان کے کاروبار سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد متاثر ہیں۔ گوتم اڈانی کے عالمی عزائم انڈونیشیا اور آسٹریلیا میں کوئلے کی کانوں، کینیا اور مراقش میں ایئر پورٹس اور توانائی کے منصوبوں پر محیط ہیں۔ اڈانی گروپ تنزانیہ اور کینیا میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنے پر بھی غور کر رہا ہے۔ اڈانی کا پورٹ فولیو مودی کی پالیسی کی ترجیحات کا قریب سے آئینہ دار ہے جو بنیادی ڈھانچے سے شروع ہوا اور حال ہی میں صاف توانائی کی جانب رُخ کر رہا ہے۔ مودی کے ساتھ اپنے تعلقات کی وجہ سے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی سرمایہ داری صرف اس لیے کامیاب ہے کیونکہ انھوں نے ریاست کے ساتھ دوستی اختیار کی ہوئی ہے لیکن ناقدین کے الزامات سے ان کے کاروبار پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اڈانی گروپ کی فرمز کو جمعرات کو مارکیٹ ویلیو میں 34 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ کسی بھی کامیاب کاروباری شخص کی طرح گوتم اڈانی نے اپوزیشن قائدین کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم کیے ہوئے اور وہ ان کی ریاستوں میں بھی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
اڈانی اپنے نام کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے‘ یہ بحران ایسے وقت میں آیا ہے جب گوتم اڈانی پہلے سے ہی گذشتہ دو سالوں سے امریکہ میں اپنے نام کو بچانے کے لیے کوشاں تھے کیونکہ 2023 میں امریکی شارٹ سیلر ہنڈنبرگ ریسرچ کی ایک رپورٹ میں ان کے گروپ پر دہائیوں سے سٹاک مارکیٹ میں ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی کا الزام لگایا گیا ہے۔ اگرچہ اڈانی نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے لیکن ان الزامات نے مارکیٹ میں فروخت اور انڈیا کے مارکیٹ ریگولیٹر ای ای بی آئی کی جانب سے جاری تحقیقات کو جنم دیا۔ تازہ ترین الزامات اڈانی کے عالمی توسیعی منصوبوں میں بھی خلل ڈال سکتے ہیں۔ انھیں پہلے ہی کینیا اور بنگلہ دیش میں ایک بین الاقوامی ایئر پورٹ اور توانائی کے ایک متنازعہ معاہدے پر چیلنج کیا جا چکا ہے۔ اس دوران ہندوستانی عوام امنگوں کی کرن لیڈر آف اپوزیشن راہول گاندھی نے گوتم اڈانی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے کردار پر بھی شک کیا اور کہا کہ ملزم گوتم اڈانی سے ان کے گہرے تعلقات کا جیسے امتحان آگیا ہے۔ دلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا کہ اس صنعتکار نے ہندوستان اور امریکہ کے قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔
اتنے بڑے واقعہ کے باوجود مرکز کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ عام لوگوں کے لئے ایک اور اڈانی کے لئے دوسرا قانون چلتا ہے۔ بہرحال اڈانی کے خلاف امریکہ کی یہ کارروائی علامہ اقبال کے اس عظیم الشان شعر کی عکاسی کرتی ہے کہ
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی