حیدرآباد، اخلاق، اخلاص، محبت، مروت اور اردو کا شہر
میڈیا پلس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام تہنیتی تقریب سے ممتاز ادیب فاروق ارگلی کا خطاب

حیدرآباد۔9/مئی۔ہندوستان کے ممتاز ومایہ ناز بزرگ ادیب وصحافی جناب فاروق ارگلی نے کہاکہ اردو زبان سے محبت ہی ہماری شناخت ہے۔سارے ہندوستان میں زندہ اردوکا شہر حیدرآباد ہے۔تہذیب‘تمدن‘ادب‘ علمی رکھ رکھاؤ‘ علمیت اور تاریخی کے علاوہ ہراعتبار سے حیدرآباد ایک باوقار اورپُروقار شہر ہے۔ بہت سارے مقامات پر اردو تہذیب کا سورج ڈھل چکا ہے لیکن حیدرآباد میں اردو بہت ہی آب وتاب سے باقی وبرقرار ہے۔ ان فکرانگیز خیالات کا اِظہار انہوں نے ”میڈیا پلس آڈیٹوریم“ میں منعقدہ ”ایک شام فاروق ارگلی کے نام“ سے کیا
جس کا اہتمام میڈیا پلس فاؤنڈیشن کی جانب سے جمعرات 8 مئی کی شب کیا گیا تھا۔جناب فاروق ارگلی نے انکشاف کیا کہ وہ حیدرآباد پر ایک ڈاکیو منٹری فلم تیار کررہے ہیں‘بہت سارامواد اکھٹا ہوچکا ہے۔جناب فاروق ارگلی نے مزید کہاکہ ہماری تاریخی روایات پر کھوج اور کام کرنے کا مجھے کافی ذوق ہے۔میں قلم کا مزدور اور اردو کا خادم ہوں‘اردو زبان کے لیے کام کرنے والی شخصیات بالخصوص اردوکی عالمی معروف وممتازشخصیت مجاہد اردوجناب علی صدیقی کی صحبت نے مجھے اردوکی خدمت کاخادم بنایا ہے۔ جناب علی صدیقی کی عالمی اردوخدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اردوکے لئے جناب علی صدیقی نے جو خدمات انجام دی ہیں
وہ نسل در نسل مشعلِ راہ ہیں۔ جناب علی صدیقی نے ہندوستان بھر میں سب سے پہلے عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد کے ذریعہ اردوزبان کا سر فخر سے بلند کیا۔انہوں نے بطور خاص ادیبوں وشعراء کی جو مثالی حوصلہ افزائی کی تھی وہ تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ ان کی اردو دوستی بلاشبہ اردو والوں کے لئے مثالی نمونہ ہے۔جناب فاروق ارگلی نے بتایا کہ وہ عظیم آباد پر بھی ایک ڈاکیو منٹری فلم بنا رہے ہیں۔انہوں نے اردوزبان کی آبیاری کرنے والے دہلی اور لکھنؤکا بھی بطورخاص تذکرہ کیا۔انہوں نے اردو والوں کو مشورہ دیاکہ وہ مطالعہ کی عادت ڈالیں کیونکہ مطالعہ جتنا وسیع ہوتا ہے شخصیت اتنی ہی عمدہ اور باکمال کہلاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی کے 25تا 30 سال مطالعہ میں گزارے ہیں۔ پروفیسر ایس اے شکور ڈائریکٹر دائرۃ المعارف حیدرآباد نے اپنی صدارتی تقریر میں جناب فاروق ارگلی کی علمی وصحافتی خدمات پر اظہار مسرت کیا اور ان کی خدمات کو تمام اردو والوں کے لئے بیش بہادولت قرار دیا۔انہوں نے اردو سے متعلق جناب علی صدیقی کی انمٹ وبے مثال خدمات کو خراج پیش کرتے ہوئے ان کے فرزند جناب کبیر صدیقی سے
خواہش اور توجہ دلائی کہ وہ عالمی اردوکانفرنس کا احیاء کریں۔ پروفیسر ایس اے شکور نے فاروق ارگلی کی جانب سے حیدرآباد پر ڈاکیو منٹری فلم تیارکرنے پرتلنگانہ ریاست اور بالخصوص اہلیان حیدرآباد کی جانب سے اظہار تشکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم فخر کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ حیدرآباد اردو کا عظیم مرکز ہے،ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد سے اردوزبان میں معیاری اردو اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے علاوہ یہاں کی کئی جامعات میں شعبہ اردو بھی قائم ہے۔ حیدرآباد میں ہردن کہیں نہ کہیں اردوکے مشاعرے ’غزلیات کے پروگرام‘ادبی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں،یہ شہر اردوکے پہلے صاحب دیوان سلطان محمد قلی قطب شاہ کا شہر ہے۔تلنگانہ اردو اکیڈیمی کی جانب سے شعراء ’ادیبوں‘ صحافیوں‘ اساتذہ اور طلباء و طالبات کی حوصلہ افزائی اور مالی تعاون کیا جاتا ہے۔ جناب عزیز احمد جوائنٹ ایڈیٹر روزنامہ اعتماد نے کہا کہ جناب فاروق ارگلی ہمہ پہلو شخصیت ہیں،اردو پر ان کا بہت بڑا احسان ہے‘ اردو زبان کے لئے ان کی خدمات بُھلائی نہیں جاسکتی۔ اس موقع پر انہوں نے مجاہد اردو جناب علی صدیقی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اردودنیا اور اردو والوں پر جناب علی صدیقی کا بہت بڑا احسان ہے۔جناب علی صدیقی اردو کا چلتا پھرتا مشن تھے،وہ جناب فاروق ارگلی کی خوبیوں اور صلاحیتوں کے معترف تھے،جناب علی صدیقی نے گوپی چندنارنگ’علی سردارجعفری“ ارجن سنگھ‘ سفراء اور کئی مرکزی
سرکردہ سیاستدانوں کے علاوہ حیدرآباد کے جیلانی پیراک‘ پروفیسرانور معظم اور دیگر مشاہیرادب کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے اردو کے عالمی مشاعروں کے انعقاد کے ذریعہ اردودنیا کے لئے بہترین عالمی فضاء تیارکی جو ناقابل فراموش ہے۔ ممتاز ادیب ڈاکٹر عابد معز نے بتایاکہ اردو کا ہر قاری جناب فاروق ارگلی کو جانتا ہے۔ جناب فاروق ارگلی نے بیشمار مضامین اور تقریباً ڈھائی سو ناول لکھے ہیں۔جناب مسعود جعفری نے جناب فاروق ارگلی کو اردو کاقطب مینار قرار دیتے ہوتے کہا کہ جناب فاروق ارگلی نے ایک ایسے دور میں قلم اٹھایا جب کہ ترقی پسند شخصیات کاغلبہ تھا‘ جناب مسعود جعفری نے کہاکہ جناب فاروق ارگلی کی کئی تصانیف ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غیبی طاقت موصوف کو لکھنے وپڑھنے کا حوصلہ عطاکرتی ہے انہوں نے کہاکہ جب تک اردوزندہ ہے اس وقت تک فاروق ارگلی صاحب کا نام بھی باقی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موصوف کا نام دراصل ”فاروق اردوولی“ ہونا چاہئے کیونکہ اردو ادب پر ان کا احسان عظیم ہے‘جناب فاروق نے بعنوان ‘”جہانِ خسرو“ اور بہادرشاہ ظفر کے حالات پر انتہائی معلوماتی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ جناب کبیر صدیقی نے بھی جناب فاروق ارگلی کی اردوخدمات کو خراج تحسین اداکرتے ہوئے اپنے والد جناب علی صدیقی کی خدمات کو خراج عقیدت ادا کیا۔ جناب وی کرشنا اسسٹنٹ تلنگانہ اردو
اکیڈیمی نے جناب فاروق ارگلی کی اردوخدمات کو اردووالوں کے لئے عظیم سرمایہ قرار دیا اور کہا کہ پروفیسر ایس اے شکور کی نگرانی میں اردو اکیڈیمی نے قابل فخر کارنامے انجام دئیے ہیں۔ممتازشاعرہ وادیب محترمہ رفعیہ نوشین نے جناب فاروق ارگلی کی شخصیت اور فن پر‘پُرمغز مقالہ پیش کیا،جسے بیحد سراہا گیا۔میڈیا پلس فاؤنڈیشن کی جانب سے فاروق ارگلی اور مسٹر وی کرشنا کو تہنیت پیش کی گئی۔ اس موقع پربیگم علی صدیقی‘ ممتاز صحافی جناب جے ایس افتخار‘ جناب جناب خالدشہباز ایکزیکیٹیو ایڈیٹر گواہ‘ ڈاکٹر جاوید کمال ’ڈاکٹر ناظم علی‘ جناب بصیر خالد این آرآئی، جناب محمد حسام الدین ریاض، مولاناقاری نصیر احمد منشاوی، جناب محمد قیصر تنظیم ہم ہندوستانی
جناب احمد مکیش‘جناب ایس کے افضل الدین‘ دانش عظیم‘ جناب محمد حُسین قادری عارف‘ جناب زاہد ہریانوی‘جناب مظفر احمد، جناب باقر حسین ریٹائرڈ ایم آر اواور دیگر معززین موجود تھے۔