جنرل نیوز

فن تجویدوقرات کی دنیا میں ایک نیا انقلاب – قدیم و جدید نسلوں کی قرآن سے اٹوٹ محبت اور خوش الحانی سے رغبت

مسجد قطب شاہی مراد نگر میں20 روزہ قراءت کلاسس کا اختتام

حیدرآباد۔15 مئی۔حیدرآباد کا علاقہ مراد نگر، جہاں شہرِ قدیم کی 400 سالہ تاریخ جدید شہر کی ٹیکنالوجی سے ہاتھ ملاتی ہے، وہاں واقع ایک تاریخی مسجد ، مسجد قطب شاہی، جسے مقامی طور پر ’’چھوٹی مسجد‘‘ کہا جاتا ہے ایک روحانی انقلاب کی گواہ بنی ہے۔آج جب دنیا ڈیجیٹل رفتار سے دوڑ رہی ہے، نوجوان گوگل اور مائیکروسافٹ جیسے اداروں میں کامیابی کے خواب دیکھ رہے ہیں، وہیں دل کے کسی کونے میں قرآن سے تعلق کی ایک ٹھنڈی خواہش بھی سانس لے رہی ہے۔ اسی خواہش کو محسوس کرتے ہوئے مسجد کمیٹی نے ایک نادر اور بصیرت افروز قدم اٹھایا: 20اپریل سے لے کر 9 مئی تک بیس روزہ قراءت امام عاصم کوفیؒ تربیتی کلاسس، جس کا مقصد قرآن کے ساتھ صرف تعلیمی نہیں بلکہ قلبی اور روحانی رشتہ استوار کرنا تھا۔

 

یہ تربیتی کلاسس شہرہ آفاق استاذ تجویدوقرات حافظ قاری ڈاکٹر محمد نصیرالدین منشاوی صاحب کی نگرانی میں منعقد ہوئی۔ قاری صاحب نہ صرف ایک ماہر قاری ہیں بلکہ ایک محقق اور معلم بھی ہیں جنہیں قراءت کی تعلیم میں دہائیوں کا تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے 20 دنوں میں تقریباً 30 شرکاء کو قرآن کی تجوید، مخارج، صفات اور ترتیل کی باریکیوں سے روشناس کرایا۔شرکاء کا حلقہ نہایت متنوع تھا 9 سالہ معصوم بچے سے لے کر 70 سالہ معمر بزرگ تک، اسکول کے طلباء، ریٹائرڈ افسران، ڈاکٹرز، انجینیئرز، کاروباری حضرات اور کارپوریٹ ملازمین ،علماء ومفتی صاحبان کے علاوہ حفاظ کرام ، سب نے یکساں جوش و خلوص سے شرکت کی۔

 

قاری محمدنصیرالدین صاحب کے تاثرات جب قاری صاحب سے اس تجربے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کے چہرے پر خوشی، فخر اور عاجزی کا حسین امتزاج نمایاں تھا۔ انہوں نے کہا:”قرآن کی خدمت میری زندگی کا اصل مقصد ہے۔ جب صدر مسجد کمیٹی مسجد قطب شاہی مراد نگر جناب محمد لطیف خان صاحب کے سامنے میں نے یہ تجویز رکھی تو انہوں نے فوراً مجھے ہی اس پروگرام کی قیادت کی ذمہ داری سونپی۔ یہ میرے لیے ایک اعزاز تھا۔ میں نے تہیہ کیا کہ یہ صرف ایک تربیتی کلاس نہیں ہوگی بلکہ ایک قلبی و روحانی تحریک ہوگی۔”قاری صاحب نے مزید کہا:”ہر طالب علم کے پس منظر، عمر، اور تعلیمی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے تدریسی انداز کو انفرادی طور پر ڈھالنے کی کوشش کی۔ یہ ضروری تھا کہ وہ صرف اصول نہ سیکھیں بلکہ قرآن پڑھنے میں اعتماد اور شوق پیدا ہو۔ الحمدللہ، میں نے محسوس کیا کہ شرکاء کے دلوں میں قرآن کی محبت کی شمع روشن ہوئی، اور یہ میرے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے۔”

 

انہوں نے کہا کہ:”یہ کلاس محض تجوید سکھانے کا ذریعہ نہیں تھی بلکہ ایک روحانی بیداری کا آغاز تھی۔ قرآن کی ہر آیت میں نور ہے، اور جب کوئی طالب علم اس نور کو شعور کے ساتھ تلاوت کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک عجیب سی گرمی اور تازگی پیدا ہوتی ہے۔”قاری صاحب کی آواز میں بھرپور یقین اور جذبات تھے جب انہوں نے کہا:”میرے نزدیک یہ کورس اس لیے کامیاب رہا کیونکہ یہاں شرکت کرنے والے ہر فرد نے صرف سیکھنے کے لیے نہیں، بلکہ بدلنے کے لیے قدم رکھا تھا۔ یہ وہ لمحات تھے جب ایک مسجد صرف عبادت کا مقام نہیں بلکہ تربیت گاہ بن گئی۔”قاری محمد نصیرالدین منشاوی نے بتایا کہ ان قراءت کلاسس کو فصاحت، تجوید اور حسنِ ادائیگی کی علامت سمجھے جانے والے جلیل القدر قاری، امام عاصم کوفیؒ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ امام عاصمؒ دوسری صدی ہجری کے معروف قاری تھے، جن کی تلاوت نہ صرف صوتی لحاظ سے پُر اثر ہوتی بلکہ تجوید کی باریکیوں کی حامل بھی ہوتی تھی۔ لوگ دور دراز سے ان کے پاس آ کر قرآن کی صحیح قراءت سیکھتے۔ قراءتِ سبعہ و عشرہ میں ان کی روایت سب سے زیادہ سہل اور مقبول قرار پائی، اور آج بھی دنیا بھر میں قرآن مجید کی تلاوت اور کتابت انہی کے طریقِ قراءت ، روایتِ حفص عن عاصم کے مطابق کی جاتی ہے۔

 

طالب علموں کی زبان سےڈاکٹر محمد عبدالناصر، جو ایم ڈی جنرل میڈیسن ہیں اور خود حافظ قرآن بھی ہیں، نے کہا:”جب مسجد میں اس کورس کا اعلان سنا تو دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ میں قاری صاحب اور مسجد کمیٹی، خاص طور پر جناب لطیف خان صاحب کا شکر گزار ہوں۔ یہ ایک مثالی کوشش تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نصف شرکاء غیر حافظ تھے لیکن ان کا جذبہ اور لگن دیکھنے کے لائق تھی۔”حافظ محمد عبدالرافع، جو سات سال سے تراویح میں قرآن سناتے آ رہے ہیں، نے کہا:”مجھے ایک ایسے ہی کورس کی برسوں سے تلاش تھی۔ قاری صاحب نے نہایت سلیقے سے نہ صرف تجوید کے اصول سکھائے بلکہ ایک اس کےبعد امتحان اور کامیابی پر خوبصورت سند کابھی وعدہ ہے۔ اب قرآن سے رشتہ مزید گہرا اور مضبوط ہو چکا ہے۔”

 

عبدالماجد، جو 40 سال تک بیرون ملک کام کر چکے ہیں، نے جذبات سے بھرپور انداز میں کہا:”میری زندگی کا سب سے بڑا افسوس یہی رہا کہ تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنے کی سعادت نہ ملی۔ مگر یہ بیس دن میرے لیے زندگی کا قیمتی سرمایہ بن گئے۔”سترسالہ حافظ محمد سجاد علی، جو لیبیا اور سعودی عرب میں بھی کام کر چکے ہیں اور اس جماعت کے سب سے سینئر رکن ، نے کہا:”میں نے پہلے دن ہی طے کر لیا تھا کہ کوئی دن نہیں چھوڑوں گا۔ اور الحمدللہ، پورے بیس دن حاضری دی۔ قاری صاحب کی سادگی، علم اور اخلاص نے دل کو چھو لیا۔”

 

سید رحمت نواز، ایک انجینئر، نے کہا:”میں ہمیشہ قاری بننے کی خواہش رکھتا تھا مگر وقت کی کمی آڑے آتی رہی۔ لیکن اس کورس میں جو رہنمائی ملی وہ کسی بھی طویل دینی ادارے کی تلاش سے زیادہ قیمتی نکلی۔ ہر عمر اور پس منظر کے فرد کو قاری صاحب نے اتنے حسنِ سلوک سے سکھایا کہ واقعی قرآن سے محبت ہو گئی۔”محمد افروز، جو ایک کارپوریٹ کمپنی میں نائٹ شفٹ کرتے ہیں، نے کہا:”دن بھر کی تھکن اور نیند کے باوجود میں روز کلاس میں آتا تھا۔ قاری صاحب کی تدریس کا انداز اور ان کی روحانیت ایسی تھی کہ نیند بھول جاتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ایسا استاد ملا۔ میری دلی خواہش ہے کہ یہ سلسلہ ختم نہ ہو، بلکہ پوری کمیونٹی تک پھیلے۔”

 

قراءت کےان کلاسس سے جہاں نوجوان درمیانی اور بڑی عمر کےطلبہ نے استفادہ کیا وہیں ایک کم عمر کے طلبہ بھی اتنی ہی دلچسپی سے بلا ناغہ روزانہ شرکت کررہے تھے انہیں میں سے ایک طالب علم و حافظ قرآن محب اللہ کا کہنا ہے۔” آٹھویں جماعت مکمل کر کے نویں میں گیا ہوں۔ میں نے 11 سال کی عمر میں حفظ مکمل کیا تھا، جسے مکمل ہوئے اب دو سال ہو چکے ہیں ۔دو سال سے قرآن یاد تو تھا، لیکن صحیح تجوید اور انداز سے پڑھنے کا سلیقہ نہیں آیا تھا۔ اس کلاس نے وہ کمی پوری کر دی۔ الحمدللہ، 20 دن میں بہت کچھ سیکھا اور قرآن سے نیا تعلق قائم ہوا۔”

 

ان کلاسس کے سب سے کم عمر طالب علم، 9 سالہ حافظِ قرآن سید محی الدین حمزہ نے کہا:”گرمیوں کی چھٹیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے یہ قراءت کلاسس اٹینڈ کیا۔ شروع سے ہی اچھا قاری بننے کی خواہش تھی، اس لیے 20 دن پابندی سے آیا۔ الحمدللہ، بہت کچھ سیکھا اور میری خواہش پوری ہو گئی۔”دینی بیداری کی نئی لہراس تربیتی پروگرام نے ثابت کیا کہ موجودہ دور کا تعلیم یافتہ مسلمان خواہ وہ ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، یا کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا ملازم ، اپنے دین سے جڑنے کو تیار ہے، بس ضرورت ایک رہنما اور ایک مخلص ماحول کی ہے۔

 

 

یہ کورس اس بات کی دلیل بن گیا کہ قرآن صرف مدارس یا علماء کا ورثہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کا ذاتی تعلق ہے۔ اور جب ایسا ماحول میسر آ جائے جہاں علم کے ساتھ اخلاص ہو، تو دل بدلتے ہیں، آوازیں نکھرتی ہیں، اور روح مطمئن ہوتی ہے۔مسجد کمیٹی نے عندیہ دیا ہے کہ انشاء اللہ اس طرح کے مزید کورسز منعقد کیے جائیں گے تاکہ قرآن سے وابستگی کا یہ خوبصورت سفر رکے نہیں، بلکہ آگے بڑھے اور معاشرے کو روشنی عطا کرے۔چھوٹی مسجد کی محراب سے بلند ہونے والی قراءت کی یہ آواز شاید حیدرآباد کے ہزاروں دلوں کو قرآن کی طرف لوٹنے کی ترغیب دے۔ اور ممکن ہے یہی ہمارے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہو۔مسجد قطب شاہی مراد نگر (چھوٹی مسجد) کی انتظامیہ کا ارادہ ہے کہ اس کامیاب تجربے کو یہیں ختم نہ کیا جائے، بلکہ مستقل بنیادوں پر ایسے کورسز منعقد کیے جائیں تاکہ قرآن سے وابستگی کا یہ خوبصورت سفر مسلسل جاری رہے اور مزید افراد اس نور سے منور ہوں۔

 

اسی تربیتی پروگرام کی کامیابی سے متاثر ہو کر "نساء قرأت فا ؤنڈیشن” نامی ایک تنظیم نے قاری محمد نصیر الدین منشاوی صاحب سے خواتین کے لیے آن لائن قراءت کورس شروع کرنے کی درخواست کی، جو الحمداللہ اب باقاعدہ جاری ہے۔ چھوٹی مسجد کی محراب سے بلند ہونے والی قراءت کی یہ صدا اب صرف ایک محلے تک محدود نہیں رہی بلکہ آن لائن دنیا کے ذریعے مزید گھروں تک پہنچ رہی ہے۔ دعا ہے کہ قرآنِ کریم کی یہ آواز مزید دلوں تک پہنچے، اور قراءت کا یہ سلسلہ دن بدن بڑھے، پھلے پھولے کہ شاید یہی وہ روشنی ہے جس کی ہمارے دور کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button