مضامین

مشن تقویتِ امت کا پہلا سوشل ورک، فیسبکی احباب کا بے پناہ اعتماد و محبت

اس تجربےسےسیکھےگئےاسباق جو آپ کےلیےبہت مفیدہوں گے ان شاءاللہ
قیام الدین قاسمی سیتامڑھی خادم مشن تقویتِ امت
مشن تقویتِ امت قسط 17 تجربات سیریز 2
اس مہم کا آغاز ڈیڑھ مہینے پہلے ہوا تھا جب میرے دسویں کلاس کے شاگردوں نے یہ درخواست کی کہ سر آپ کی تنظیم کے تحت ہم لوگ بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں، ہم نے کہا ٹھیک ہے تو بات چلی ناداروں میں کھانا بٹوانے کی، ہم نے کہا تم سے جتنا ہوسکتا ہے پیسے جمع کرو میں اپنی تنظیم کے فنڈ سے اس کا ڈبل لگادوں گا، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، لیکن پھر خیال آیا کہ ٹھنڈ کے موسم میں سب سے زیادہ ضرورت تو گرم کپڑوں کی ہے، تو ہم نے پلان چینج کیا، پیسے جمع ہونے میں ایک مہینے لگ گئے، بالآخر جیسے ہی انہوں نے پیسے جمع کئے چھ سو یا آٹھ سو کے قریب، ہم نے اپنی پلاننگ شروع کردی، خانقاہ کے سامنے چادر والے سے بات کی، ڈیڑھ دو سو کی چادر کا ہول سیل ریٹ انہوں نے 110 بتایا، لہٰذا بیس گرم چادر کا بجٹ تیار کیا گیا، پھر سوچا کیوں نہ ایک مرتبہ اعلان لگاکر فیسبک کے ساتھیوں سے بھی تذکرہ کردیا جائے تاکہ وہ لوگ بھی حصہ لے سکیں، پھر وہ منظر دیکھنے کو ملا جس پر میری آنکھوں کو اب تک یقین نہیں ہورہا ہے، جگ جگ جیو میرے فیسبکی یارو! مجھے فخر ہے آپ کی دوستی پر، جزاکم اللہ احسن الجزاء، ہمارے پاس تو صرف بیس چادر کا بجٹ تھا، اور ہم نے یہ اعلان صرف فیسبک اور واٹس ایپ اسٹیٹس پر ہی لگایا تھا وہ بھی فقط ڈیڑھ دن کے لیے یعنی جمعرات کو صبح میں لگایا اور جمعہ کے بعد وہ پوسٹ ڈیلیٹ کردی تھی، اس کے علاوہ اور کہیں نہیں بھیجا تھا لیکن بفضلہ تعالیٰ ان فیسبکی احباب کے تعاون سے ہم بیس کے بجائے اسی 80 چادر تقسیم کرنے کے قابل ہوپائے، تقریباً تیس سے پینتیس احباب نے اس کار خیر میں حصہ لیا، بندے پر اعتماد کا تہ دل سے شکریہ۔
گزشتہ جمعرات کو شام میں جب مشن تقویتِ امت کا بینر چھپوارہا تھا تب میرے شاگرد ثاقب نے عامر بھائی کے بارے میں بتایا کہ وہ پیر سے معذور ہونے کے باوجود روزانہ سو لوگوں میں کھانا تقسیم کرتے ہیں اور چادر وغیرہ بھی بانٹتے ہیں تو اگر ہم چادر کی تقسیم سے پہلے ان سے ایک بار مشورہ کرلیں گے تو زیادہ بہتر ہوگا پھر ہم نے عامر بھائی کو فون کیا ملاقات کی، ہمارے ارادوں کو سن کر وہ بہت خوش ہوئے، اور بتایا کہ اکثر جگہوں پر چادر ہم تقسیم کرچکے ہیں کچھ جگہیں بچی ہوئی ہیں جہاں ضرورت مند ہیں میں ان کی نشان دہی کردوں گا، آپ اپنے دسویں کلاس کے بچوں کو وہاں لے کر آجائیے گا۔
پھر گرم چادر کی مہم کو ان کے مشورے سے تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا، قلعہ میں، پھر فٹ پاتھ پر اور اس کے بعد ایک چھوٹا موٹا جلسہ کرکے۔
پہلا مرحلہ
اس مرحلے میں ہمیں جگی جھونپڑی میں رہنے والے غریبوں تک چادر پہنچانا تھا، لہذا ہم بیس چادر لے کر مونگیر کے قلعے میں واقع ایک جگی جھونپڑی میں پہنچے اور پھر تقسیم کرنے سے پہلے کچھ تمہیدی باتیں کیں کہ ہمارا مقصد آپ کو چادر بانٹنا نہیں ہے ہم بس آپ کی دعائیں لینے آئے ہیں، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا” اسی طرح ہم نے ان کو یہ بتایا کہ ہماری سوسائٹی کے غریبوں کی وجہ سے ہمیں روزی ملتی ہے، آپ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آپ کی مزاج پرسی کریں، اور چادر بانٹنا ہمارا اصل مقصد نہیں ہم تو بچوں کی تربیت کرنے اور آپ سے دعائیں لینے آئے ہیں، بچے بھی الحمدللہ بہت خوش ہوئے اور ہم نے لا شعوری طور پر اشاروں اشاروں میں ان غرباء کے اندر اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا بیج بھی بودیا۔
جب چادریں بانٹنا شروع کیا تو کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو جھپٹا مار کر چھیننے لگے جن کو نہیں ملا وہ لوگ برا بھلا بھی کہنے لگے بہرحال اس مرحلے کا تجربہ اتنا اچھا نہیں رہا۔
دوسرا مرحلہ
اس مرحلے میں ہمیں فٹ پاتھ پر رات کے وقت سورہے ناداروں میں چادر تقسیم کرنا تھا، چوں کہ پہلے مرحلے میں چادر تقسیم کرتے وقت عامر بھائی بیچ میں ووٹ بھی مانگنے لگے کیوں کہ وہ مئیر کے الیکشن میں کھڑے ہیں، لہٰذا ہم نے اس بار ان کی مدد نہ لینے کا فیصلہ کیا، اپنے شاگردوں کو بلایا اور رات کے ساڑھے دس بجے ہم لوگ بیس چادر لے کر بائیک سے راستوں، چوراہوں اور فٹ پاتھ پر مستحقین کی تلاش میں نکل پڑے، جہاں جہاں ضرورت مند لیٹے ہوئے، آگ تاپتے ہوئے یا سوئے ہوئے دکھائی دئیے ان کو چادر اوڑھا دیا، پھر صدر ہسپتال اور مونگیر اسٹیشن بھی جانا ہوا، غرض مونگیر کا ایک بڑا حصہ ہم نے کور کرلیا الحمدللہ، ان غریبوں کے چہروں پر جو تشکر و امتنان کے تاثرات تھے اور جس دل سے انہوں نے دعائیں دیں، اس کے بعد جس خوشی و سکون کا ہمیں احساس ہوا وہ شاید ایک بادشاہ کو اپنے تخت پر بیٹھ کر بھی نہیں حاصل ہوسکتی۔
تیسرا مرحلہ
تیسرے مرحلے میں عامر بھائی نے پلان بنایا تھا ایک سماروہ یعنی تقسیم چادر کا ایک چھوٹا موٹا جلسہ کرنے کا، جہاں پہلے ہی ان ضرورت مند عورتوں کو ایک ٹوکن دے دیا جاتا جو "لایسئلون الناس الحافا” سے تعلق رکھتی ہیں یعنی ہیں مستحق لیکن مانگتی نہیں پھرتیں اور پھر صرف ٹوکن والوں کو ہی چادر دئیے جاتے، لیکن ایک تو وہ ووٹ والا حادثہ ہوگیا تھا نیز جلسہ کرکے عورتوں کو بلانا زیادہ مناسب معلوم نہیں ہورہا تھا اس لیے ہم نے پلان چینج کیا اور پھر میرے ایک شاگرد غیاث الرحمٰن نے بتایا کہ سر میں نے یہاں ایک آنٹی سے بات کی وہ تقریباً دس گیارہ عورتوں کو جمع کرلے گی میرے گھر پہ اور یہیں پہ بانٹ دیا جائے گا، یہ ایک مناسب طریقہ معلوم ہوا لہذا تیسرے دن مغرب کے بعد ہم نے اپنے بچوں سے مبارک پور میں گیارہ چادر بٹوائے، اب بچے تھے تیس چادر۔
پھر ہم نے جامعہ فاطمۃ الزہراء للبنات کے استاذ و ذمہ دار حافظ عبد اللہ صاحب کو فون کیا کہ آپ کے یہاں کچھ لوگ ایسے مل جائیں گے جو لایسئلون الناس الحافا سے تعلق رکھتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ منت نگر میں ایک بڑی تعداد ہے ایسے گھرانوں کی جن میں کوئی کمانے والا نہیں ہے، جو نماز روزے کی بھی پابند ہیں میں نے کہا ٹھیک ہے پھر میں مغرب کے بعد اپنے طلباء کے ساتھ تیس چادر لے کر آتا ہوں، اسی اثناء میں انہوں نے تیس ضرورت مندوں کی پوری لسٹ تیاری کرلی، اور پھر ہمارے بچوں نے ان تیس لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے چادر تقسیم کرکے ان سے اپنے لئے، بورڈ اگزام کے لیے، اسکول کی ترقی کے لیے اور مشن تقویتِ امت کے لئے دعائیں کروائی، حافظ عبد اللہ صاحب کی محنت کی برکت سے یہ مرحلہ سب سے پرسکون اور مرتب گزرا اور یوں اسی 80 چادروں کی تقسیم اپنے پایۂ تکمیل کو پہونچی، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
دعا فرمائیں کہ اللہ ہمارے اس عمل کو قبول فرمائے اور اس سے زیادہ اور مسلسل خدمت خلق کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے اور عجب و ریاکاری سے محفوظ رکھے۔
وہ تجربات و اسباق جو اس مہم سے حاصل ہوئے:
1 بندہ کی خواہش ہے کہ تمام اسکول کے ذمہ داران حضرات اپنے بچوں کو اس طرح کے سوشل ورک کی عادت ڈلوائیں، میں جس نصاب پر کام کررہا ہوں اس میں بچوں سے ہر ہفتے مختلف انداز میں سوشل ورک کروانے کو ہم نے کریکولم اور نصاب کا حصہ بنایا ہے، اس کہ وجہ یہ ہے کہ ہمارا دین عملی اور پریکٹیکل ہے، اسی لیے دین کو کتابوں کے زیادہ عمل سے سکھایا جانا چاہئے جیسے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سیکھتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کا حکم اسی لیے دیا ہے تاکہ موت کی یاد تازہ ہوتی رہے، اسی طرح ہمارے بچوں کو ان معذور و مجبور لوگوں کی حالت کا احساس کرانا بھی ضروری ہے تاکہ وہ ان کا درد محسوس کرسکیں
تاکہ اپنے اوپر کی گئی رب کی نعمتوں کا استحضار کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرسکیں
اور تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ نادار طبقہ بھی ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہے، اور ان کی کفالت اور مدد کرکے ہم ان پر کوئی احسان نہیں کررہے بلکہ اپنی ذمہ داری نبھارہے ہیں کیوں کہ اگر معاشرے کا کوئی بھی فرد بھوکا مرتا ہے تو اس کا وبال اس پورے معاشرے پر آئے گا۔
2 نوجوانوں کی نفسیات کو سمجھیں کہ جو بچے نماز وغیرہ نہیں پڑھتے انہیں لوگوں کو اگر سوشل ورک کے لیے کہ دیا جائے تو دوڑے دوڑے چلے آتے ہیں، اور ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک نیک کام میں انسان کا دل نہیں لگتا دوسرے میں لگتا ہے تو یہ کہنے کے بجائے کہ نماز نہیں پڑھوگے تو سوشل ورک کرکے کوئی فائدہ نہیں، کیوں نہ اس کو دوسرے نیک کام میں لگاکر پہلے والے کی طرف راغب کیا جائے جس میں وہ سستی کررہا ہے، میں نے یہ تجربہ کیا الحمدللہ کافی حد تک کامیابی ملی۔
3 میں سمجھتا ہوں کہ کتابی صلاحیت پیدا کرنے کے بعد ایک قوم کے خادم کے پاس جو سب سے بڑی صلاحیت ہونی چاہئے وہ ہے لوگوں کی جیب سے قوم کے لئے پیسے نکلوانے کی قابلیت اپنے اندر پیدا کرنا، یقین جانیں اگر آپ کے پاس اپنی کوئی انوکھی فکر ہے جس سے آپ کو لگتا ہے کہ دوسروں کے مقابلے آپ زیادہ مثبت اور جلدی تبدیلی لاسکتے ہیں، اور آپ چاہیں کہ اس فکر کو کسی اور شخص کے ادارے میں نافذ کریں تو بمشکل ہی کوئی ادارہ آپ کو اس بات کی اجازت دے گا اس لیے صرف فکروں کی ندرت کافی نہیں اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آپ کے پاس اپنا ایک ادارہ ہونا ضروری ہے، اور اس کے لیے چاہئے پیسے، اب یا تو آپ خاندانی طور پر مضبوط ہوں یا پھر آپ کے اندر ادارے کے قیام پر خرچ کے لیے لوگوں کو قائل کرنے کی صلاحیت موجود ہو، اور یہ صلاحیت یکبارگی پیدا نہیں ہوتی، اس کے لیے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ہوتا ہے، دعاؤں کے ساتھ ساتھ ایسے کام کرنے ہوتے ہیں جس سے لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ ہاں آپ قوم کی ترقی کے تئیں سنجیدہ اور مخلص ہیں اسی وجہ سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے "اللھم اجعلنی فی عینی صغیرا و فی اعین الناس کبیرا” کہ اے اللہ مجھے اپنی نظر میں چھوٹا اور لوگوں کی نظر میں بڑا بنادے۔
4 سوشل میڈیا کی طاقت کو سمجھ کر اس کا صحیح استعمال
اگر میں اپنے زمینی طور پر جاننے والوں کو کال کرکے اس کار خیر کی طرف توجہ دلاتا تو شاید مشکل سے دس بیس چادروں کے پیسے جمع ہوپاتے لیکن سوشل میڈیا کی طاقت دیکھیں کہ ساٹھ چادر بحمد اللہ جمع ہوگئے، وہ اس وجہ سے کہ ہم نے فیسبک کا صحیح استعمال کیا، فیسبک اب ہمارے لیے محض انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ نہیں بلکہ میرے لیے وہ علمی و عملی افادے و استفادے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، دو تین سالوں کے تجربات کے بعد اب ہم فیسبک کو پبلک ریلیشن کا سب سے موثر ٹول سمجھتے ہیں، اس وجہ سے آپ بھی اس کی اہمیت کو سمجھیں اور مثبت کاموں کے لیے استعمال کریں، محنت کیجئے پھر اپنی محنت اور اپنی کامیابی دنیا کو دکھائیے اس نیت سے نہیں کہ لوگ واہ واہ کریں بلکہ اس نیت سے کہ لوگ آپ پر اعتماد کرسکیں اور پھر اس کی بنیاد پر آپ قوم کی زیادہ بہتر اور موثر طریقے سے خدمت کرسکیں و "انما الاعمال بالنیات” اعمال کے ثواب و عقاب کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔
5 جب بھی سوشل ورک کرنا ہو ہمیشہ مقامی سطح پر کریں اور اگر کہیں اور کرنا ہے تو وہاں کی مقامی تنظیم یا پہلے سے فلاحی و رفاہی کام کررہے اشخاص کی مدد لیں، ورنہ مستحقین تک آپ کے عطیات بمشکل ہی پہنچ پائیں گے کیوں کہ یہ وہ دور ہے جہاں فراڈ کی بھرمار ہے، ایک صاحب کو ہم نے چاول کا بوریہ مشن تقویتِ امت کے فنڈ سے دلوایا کیوں کہ وہ خود کو حافظ اور بہت مجبور بتارہے تھے بعد میں کچھ ساتھیوں نے بتلایا کہ اسی نمبر سے وہ کئی لوگوں سے اسی طرح چاول کی بوریاں اینٹھ چکے ہیں، اسی لیے اس بار جب ہم نے عامر بھائی اور ہمارے دوست حافظ عبد اللہ صاحب سے معاونت لی تو الحمدللہ آپ کے دئیے ہوئے عطیات حقیقی مستحقین تک پہنچ سکے۔
6 اس انتظار میں نہ بیٹھیں کہ ایک خطیر رقم جمع ہوگی تب ہی خدمتِ خلق کا آغاز کریں گے، نہیں آپ کے پاس دو روپے ہیں اسی سے سوشل ورک شروع کردیں، ان شاءاللہ دھیرے دھیرے اس رقم میں اللہ اضافہ کرتا چلا جائے گا
انجام اس کے ہاتھ ہے آغاز کرکے دیکھ
بھیگے ہوئے پروں سے ہی پرواز کرکے دیکھ
اب ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ان شاءاللہ ہر مہینے الگ الگ طریقوں سے سوشل ورک کا یہ کام جاری رکھیں گے

متعلقہ خبریں

Back to top button